|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2017

گزشتہ روز جو کچھ ہوا احتساب عدالت پر حملے کے مترادف تھا ، بعض لوگوں کے مطابق یہ متوقع تھا۔ مسلم لیگ ن کے پاس اپنے رہنماء اور اس کے اہل خانہ کو بچانے کے لئے صرف یہی ایک طریقہ رہ گیاہے۔

احتساب عدالت نے تو صرف سزا سنانی ہے سپریم کورٹ نے نواز شریف کو نا اہل قرار دے کر مقدمے کا فیصلہ پہلے ہی کردیا ہے ۔ احتساب عدالت کے باہر ہنگامہ آرائی اور کمرہ عدالت پر قبضہ کرنا ایک سوچا سمجھا منصوبہ معلوم ہوتا ہے ۔

اپوزیشن پارٹیوں کے رہنماؤں نے گاڈ فادر پر اس سازش کا الزام لگایا ۔ان کا کہنا ہے کہ مسلم لیگ ن کی تاریخ عدالتوں پر حملوں سے بھری پڑی ہے۔ احتساب عدالت پر حملہ اس بات کی کوشش تھی کہ جج کو مرعوب کیاجائے اور اس کو ڈرایا جائے۔

دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ عدالت کی کارروائی میں خلل ڈال کر اس میں تاخیر کی جائے۔ مسلم لیگ ن کے رہنماؤں نے وکلاء برادری کو اس کام میں استعمال کیا، ان وکلاء میں زیادہ تر کا تعلق مسلم لیگ سے بتایا جاتا ہے ۔ تاہم تفتیش کے بعد ہی معلوم ہوگا کہ کتنے وکلاء مسلم لیگ کے سرگرم کارکن ہیں اور کتنے وکلاء مسلم لیگ اور اس کی سیاست کے حامی یا ہمدرد ہیں ۔

کوئی بھی غیر جانبدار وکیل یہ سب کچھ نہیں کر سکتا، نہ ہی اس کو کرنے کی ضرورت ہے ، وہ وکیل صرف قانون کی بالادستی میں دلچسپی رکھتا ہے ۔ ادھر عدالت کے احاطے کے باہر پولیس اور سیکورٹی اہلکاروں سے وکلاء کی دھینگا مشتی ہوئی ۔ اخبارات کے صفحہ اول پر بڑی تصویر چھپی ہے جس میں ایک سینئر وکیل وردی میں ملبوس پولیس افسرکو طمانچہ مار رہا ہے ۔

ٹی وی کیمروں نے ہنگامہ آرائی کے واقعہ کو زبردست طریقے سے ریکارڈ کیا اور پورا دن ناظرین یہ منظر دیکھتے رہے ۔ عدالت کے اندر بھی بعض وکلاء نے ہنگامہ آرائی کی جس کی وجہ سے جج کمرہ عدالت چھو ڑ کر اپنے اپنے چیمبر میں چلے گئے کیونکہ ان کی سیکورٹی کو خطرہ لاحق ہوگیا تھا ۔ مسلم لیگ اور ان کے حمایتی وکلاء ہر قیمت پر عدالت کو دباؤ میں لانا چاہتے ہیں اور اپنی مرضی کا فیصلہ لینا چاہتے ہیں ۔

ان تمام واقعات کی رپورٹ سپریم کورٹ کے مانیٹرنگ جج کو پیش کردی گئی اور اس میں یہ بتایا گیا کہ کس طرح مسلم لیگ کے حمایتی وکلاء نے عدالت کی کارروائی میں رخنہ ڈالا جس کی وجہ سے دو ملزمان مریم نواز اور کیپٹن صفدر پر فرد جرم عائد نہ ہو سکی ۔

اس سے قبل عدالت کے احاطے میں رینجرز نے وفاقی وزراء کو داخلے سے روک دیا تھا بڑی تعداد میں وفاقی وزراء اور اراکین اسمبلی عدالت کو مرعوب کرنے آئے تھے ان کواندرجانے کی اجازت نہیں دی گئی تو رینجرز نے اپنے دستے عدالت کی سیکورٹی سے واپس بلا لیے ،تو وزیر داخلہ احسن اقبال نے اس پر ایک سخت بیان داغا تھا ۔

رینجرز کی واپسی کے بعد یہ شرمناک واقعہ پیش آیا جس میں مسلم لیگ کے حمایتی وکلاء کمرہ عدالت کو اپنے قبضہ میں لے لیا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وفاقی وزراء اور مسلم لیگی رہنما جو واقعہ کے وقت موجود تھے انہوں نے اپنے حمایتیوں کو نہیں روکا اور تماشہ دیکھتے رہے ۔

یہ حکومت وقت کی ذمہ داری ہے کہ عدالت کو سیکورٹی فراہم کرے، اپنے حمایتیوں کی سرپرستی نہ کرے بلکہ عدالت کا تقدس بحال کرے کسی کو اس بات کی اجازت نہیں ہونی چائیے جو عدالت کی کارروائی کو متاثر کرے یا جج کو مرعوب کرے۔ کمرہ عدالت میں ہنگامہ آرائی کا کوئی جواز نہیں تھا۔

پہلے تو حکومت اپنے وزراء کو پابند کرے کہ وہ کمرہ عدالت میں جا کر جج کو مرعوب کرنے کی کوشش نہ کریں ۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد یہ ثابت ہوگیا ہے کہ وہ مجرم ہیں ۔ ماتحت عدالت صرف ان کے خلاف سزائیں تجویز کرے گی مجرموں کی حمایت میں وزراء کی فوج ظفر موج چالیس قیمتی گاڑیوں کے کاروان کی صورت میں روز عدالت آتی ہے اور عدالت کے فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہے۔

پہلے تو حکومت اپنے وزراء پر پابندی لگائے کہ وہ مجرموں کی پشت پناہی نہ کریں اور دوسری اپنی پوزیشن کا غلط استعمال کرکے عدالت کو اپنے رعب اور دبدے میں لانے کی کوشش نہ کریں نہ ہی اس کی ہمت افزائی کریں کہ ڈیوٹی پر موجود سرکاری اہلکاروں پر حملہ کریں اور ان کی سر عام بے عزتی کریں ۔