|

وقتِ اشاعت :   October 28 – 2017

پچھلے کئی دنوں سے قائد اعظم یونیورسٹی کے طلبہ احتجاج کر رہے ہیں، شروع میں اْن کے تیرا مسائل تھے، جن میں سے ایک یہ تھا کہ جو طلبہ یونیورسٹی نے غلط فہمیوں کی وجہ سے نکالے ہیں اْن کو بحال کریں۔

یونیورسٹی کے اندر یہ احتجاج ہو رہا تھا دن رات یونیورسٹی کے طلبہ و طالبات احتجاج پر ڈٹے ہوئے تھے لیکن یہ تو سْنا ہو گی کہ کسی کی طاقت کو ختم کرنا ہو تو اْن کے اندر دراڑیں پیدا کرو تو یونیورسٹی نے QSF ( جو کہ یونیورسٹی میں تمام طلبہ اور کونسلز کی رہنمائی کرتا ہے ) کو بلایا اور اْن تیرا میں سے بارامطالبات مان گئے اور احتجاج ختم کرنے کو کہا۔

لیکن اِن بارا مانگوں میں سے جو اہم مانگ تھی کہ نکالے گئے طلبہ کو دوبارہ بحال کیا جائے وہ شامل نہ تھی تو طالبہ اور طالبات نے تیرویں مانگ کے بارے میں پوچھا تو QSF جو کہ اب روبوٹ بن چکا تھا بڑبڑانے لگا کہ وہ یونیورسٹی کا اور کچھ لوگوں کا مسئلہ ہے وہ خود دیکھ لیں اِس کے ساتھ ہی QSF نے اپنے قدم پیچھے ہٹا لیجئے اور احتجاج ختم کرنے کا اعلان کیا۔

لیکن یہ کیا کہ وہ کْچھ لوگ اب بھی سراپا احتجاج بنے بیٹھے تھے، ہاں یہ وہی کْچھ لوگ تھے جن کی ثابت قدمی کی مثالیں دی جاتی ہیں، ہاں یہ وہی تھے جو ظلم نہ کرتے اور نہ ہی سہتے ہیں، اور ہاں یہ وہی کْچھ لوگ ہیں جو کسی مسئلے کو ادھورا نہیں چھوڑتے کیو نکہ یہ کسی کے ہاتھ میں کٹھپتلی نہیں بننا چاہتے وہ کْچھ لوگ بلوچ طلبہ تھے اور اب بھی سرد راتوں میں احتجاج پر بیٹے ہوئے تھے ۔

اس کے بعد یونیورسٹی انتظامیہ نے اعلان کیا کہ ہم نے طلبہ کی مانگیں پوری کی ہیں اور سوموار سے یونیورسٹی معمول کے مْطابق کھلے ہو گی، یونیورسٹی انتظامیہ نے بلوچوں کے ذہنوں میں سمسٹر فیل ہونے کا خوف، اْن کی تعداد اور احتجاج کے نتائج کا خوف ، ہر طرح سے کرنی چاہی مگر انتظامیہ فیل ہو گیا۔

سوموار کو جب یونیورسٹی کی بسوں کے پہیے چلنے لگے تو بلوچ طلبہ جو کہ احتجاج پر تھے۔

بسوں کے پہیوں کو روکا کہ پہلے مسئلہ حل ہو جائے پھر یونیورسٹی کو کھولا جائے اور اِسی دوران یونیورسٹی انتظامیہ نے پولیس کی مدد لیتے ہوئے اْن پر لاٹھی چارج کروائی جس سے کئی طلبہ زخمی ہوئے، اور ساتھ ہی ملزموں کی طرح طلبہ کو گاڑی میں ڈال کر الگ الگ تھانوں میں بند کر دیا گیا۔

انتظامیہ نے سمجھا کہ مسئلہ اب ختم ہو جائے گا وہ ڈر جائیں گے لیکن جب اْنہوں نے پیچھے مْڑ کر دیکھا تو احتجاج اِس سے اور زیادہ مضبوط دکھائی دے رہا تھا، کیونکہ اسلام آباد میں سب اکھٹے ہو گئے تھے اور یہ اْس زخمی طلبہ کے خون کا پہلا خطرہ تھا جس نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا اور پھر ملک بھر میں اس کے خلاف آواز بلند ہوئی وہاں یونیورسٹی میں بلوچ طلبہ کے ساتھ ساتھ پشتون طلبہ بھی قدم بہ قدم ساتھ چلے اور وہ بھی یہ سب جھیل رہے تھے ۔

لیکن اْن کی ثابت قدمی نے ایک نیا موڑ لیا تھا ۔ پولیس نے مجبور ہو کر طلبہ کو رہا کیالیکن اب بھی یونیورسٹی انتظامیہ اپنے ضد پہ اٹکی ہوئی ہے کہ طلبہ کو بحال نہیں کریں گے اور وہی کْچھ لوگ اب کئی لوگ بن کر احتجاج کر رہے ہیں ۔

ان طلبہ کی اتحاد اور ثابت قدمی اِن کی کامیابی بن جائے گی، اور یہ QSF کے منہ پر ایک طمانچہ بن کر پڑے گا جو ہر دور میں اْن کو یاد رہے گا۔