|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2017

کراچی: سٹیٹ بینک نے 2ماہ کیلئے ما نیٹری پالیسی کااعلان کردیا جبکہ شرح سود 5.75 فیصدپربرقرارہے۔ جمعہ کو سٹیٹ بینک نے 2ماہ کے لئے مانیٹری پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے کہاہے کہ ریگولیٹری ڈیوٹی متعارف کرانے سے درآمدات کی نموکم ہوگی، معاشی نمو 6فیصد رہنے کے امکانات بڑھ گئے ہیں جبکہ مہنگائی میں اضافے کی شرح سالانہ 6فیصد ہدف سے کم رہنے کی توقع ہے۔

سٹیٹ بینک کا مزید کہناہے کہ رواں مالی سال 4ماہ میں کرنٹ اکاونٹ خسارہ 5ارب ڈالر رہا۔درآمدات بیرونی سرمایہ کاری اور دیگر ذرائع سے رقوم ادائیگیوں کے دباو کو کم کرے گاجبکہ امن و امان اور توانائی کی بہتر ہوتی پالیسی سے سرمایہ کاری بڑھ رہی ہے ،

تازہ ترین معلومات سے عیاں ہے کہ معاشی سرگرمیاں بھرپور ہیں جس کی صنعتی پیداوار میں وسیع البنیاد اضافے، اہم فصلوں کی پیداوار کو تقویت دینے والے عوامل میں بہتری، اور نجی شعبے کو قرضے کی نمو سے تصدیق ہوتی ہے۔

اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ حقیقی جی ڈی پی نمو کا 6.0 فیصد ہدف حاصل کرنے کے امکانات بدستور مضبوط ہیں۔ مہنگائی کے ماڈل پر مبنی پیش گوئیوں اور مہنگائی کی توقعات کے سروے پر مبنی پیمانوں سے پتہ چلتا ہے کہ مالی سال 18 میں مجموعی مہنگائی کے 6.0 فیصد کے ہدف سے کافی نیچے رہنے کی توقع ہے۔ 

مالیاتی محاذ پر مالی سال 18 کی پہلی سہ ماہی کے دوران ایف بی آر کی جانب سے ٹیکس محاصل کی وصولی میں بھرپور نمو، یعنی مالی سال 17 کی پہلی سہ ماہی میں 4.5 فیصد کی معمولی نمو کے مقابلے میں 22.40 فیصد، خوش آئند ہے۔اختتام میعاد پر توازنِ ادائیگی کی دشواریاں بدستور برقرار ہیں۔ 

تاہم برآمدی نمو میں نمایاں بہتری، بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری میں واضح اضافے اور دیگر رقوم کی متوقع آمد سے اس دباو کو قابومیں رکھنے میں مدد ملے گی۔

حقیقی شعبے میں تازہ ترین تبدیلیوں کے جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ مالی سال 18 کی پہلی سہ ماہی کے دوران بڑے پیمانے پر اشیا سازی (ایل ایس ایم)کی نمو گذشتہ توقعات سے تجاوز کرگئی اور مالی سال 17 کی اسی مدت میں ہونے والی 1.8 فیصد کے مقابلے میں 8.4 فیصد نمو ریکارڈ کی گئی۔ 

اس کی وضاحت امن و امان کی صورتِ حال اور بجلی کی فراہمی میں بہتری، معینہ سرمایہ کاری کے اصل پیداواری استعداد میں اضافے کے لیے استعمال کم مہنگائی اور مستحکم شرح سود سے ہوتی ہے۔ مزید تقویت سی پیک کے منصوبوں کے تسلسل سے ملتی ہے۔ 

انتہائی شدید موسمی واقعات نہ ہوئے تو توقع ہے کہ زراعت کا شعبہ مسلسل دوسرے برس بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے گا۔ اس کی تشریح خریف کے موسم کے دوران زیرِ کاشت رقبے اور کھاد کے استعمال دونوں میں اضافے ، مشینوں کے استعمال میں سرمایہ کاری کے جاری رجحان، زرعی قرضے میں بلند تر اضافے اور بوائی کے وقت گندم کی امدادی قیمت کے نہ بدلنے سے ہوتی ہے۔

چنانچہ دیگر دو شعبوں کے ساتھ شعبہ خدمات کے باہمی ربط کے پیش نظر مالی سال 18 میں خدمات کی طلب بھی بڑھنے کی توقع ہے۔ تمام شواہد کو یکجا کرکے دیکھا جائے تو حقیقی جی ڈی پی نمو کے مالی سال 18 کے ہدف کی سطح تک پہنچنے کی توقع ہے۔

جہاں تک مہنگائی کا تعلق ہے، جولائی تا اکتوبر مالی سال 18کے دوران مہنگائی بلحاظ صارف اشاریہ قیمت (CPI) اوسطا 3.5 فیصد رہی جو مہنگائی کے سالانہ ہدف سے خاصی کم ہے۔ تیل کی بلند بین الاقوامی قیمتوں کے ساتھ پیٹرولیم کی ملکی قیمتوں کو منتقلی اور غیرلازمی درآمدی اشیا پر ریگولیٹری ڈیوٹی کے نفاذ سے توقع ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران مہنگائی بڑھے گی۔

تاہم ان اثرات کو ملحوظ رکھتے ہوئے مہنگائی مالی سال 18کے آغا زمیں تخمین کردہ 4.5 تا 5.5 فیصد کی حدود میں رہنے کی توقع ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ غذائی اور غیر غذائی عناصر دونوں کی رسدی حرکیات میں بہتری آرہی ہے کیونکہ زرعی یافت اور اشیا سازی میں سرمایہ کاری بڑھی ہیں۔

نمو کی موجودہ رفتار صارف اشاریہ قیمت باسکٹ کے خدمات کے جز میں اضافے کے دباو پر منتج ہورہی ہے۔ نتیجے کے طور پر قوزی مہنگائی (core inflation) کا غیرغذائی غیرتوانائی پیمانہ نسبتا بلند ہے گو کہ نومبر مالی سال 17 سے اب تک 5.3 فیصد (سال بسال) کی موجودہ سطح پر مستحکم ہے۔

زری شعبے میں ایک اہم پیش رفت میزانیہ مالکاری کے لیے حکومت کے قرض لینے کے انداز میں نمایاں تبدیلی ہے۔ گذشتہ برس کی طرح مرکزی بینک کی مالکاری پر بہت زیادہ انحصار کرنے کے بجائے حکومت اسٹیٹ بینک اور جدولی بینکوں دونوں سے رقوم حاصل کررہی ہے۔ 

ساتھ ہی مرکزی بینک کی جانب سے فعال انتظام سیالیت نے شبینہ ریپو ریٹ کو پالیسی ریٹ کے قریب رکھا اور یہ قرض کی دستیابی میں معاون ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ نجی شعبے کو قرض کا اسٹاک اکتوبر مالی سال 18 میں سال بسال بنیاد پر 814.9 ارب روپے بڑھا (یعنی 18.5 فیصد نمو) جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت کے دوران 436.4 ارب روپے (یعنی 11.0 فیصد نمو)بڑھا تھا۔ قرض کی اس توسیع کے اجزا پر غور کریں تو معینہ سرمایہ کاری کی نمو میں، جو پہلے ہی تیز تھی۔

مالی سال 17 کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ اضافہ پایا گیاجبکہ جاری سرمائے کے قرضوں اور صارفی مالکاری دونوں میں حوصلہ افزا رجحانات پائے گئے۔ ان حالات کو اہم شعبوں میں استعداد کے استعمال میں اضافے سے مزید تقویت ملی جس سے بڑھتی ہوئی طلب کی نشاندہی ہوتی ہے۔

جولائی تا اکتوبر مالی سال 18 میں جاری کھاتے کاخسارہ بڑھ کر 5.0 ارب ڈالر ہوگیا جبکہ مالی سال 17 کے اسی عرصے میں 2.3 ارب ڈالر تھا۔ مزید گہرائی میں دیکھیں تو پاکستان کی برآمدات جولائی تا اکتوبر مالی سال 18 میں11.3 فیصد کی رفتار سے بڑھیں جبکہ پچھلے سال کی اسی مدت میں 3.1 فیصد کمی ہوئی تھی۔ 

اسی طرح ترسیلات میں جولائی تا اکتوبر مالی سال 18 کے دوران 2.3 فیصد کا معمولی اضافہ ہوا۔ تاہم مجموعی جاری کھاتے پر ان مثبت حالات کا اثر صرف نیز سرمایہ کاری کی بڑھتی ہوئی ملکی طلب کی بنا پر درآمدات کی نمو اور تیل کی بین الاقوامی قیمتوں میں حالیہ اضافے نے زائل کردیا۔تاہم ریگولیٹری ڈیوٹیوں کے نفاذ سے توقع ہے کہ آئندہ مہینوں کے دوران درآمدات کی نمو کو کچھ کم کرنے میں مدد ملے گی۔

آخر میں مالی کھاتے کے تناظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ بیرونی براہِ راست سرمایہ کاری کی آمد بڑھی ہے اور اکتوبر مالی سال 18 کے آخر میں 940 ملین ڈالر تک پہنچ گئی جبکہ گذشتہ برس کے اسی عرصے میں 539 ملین ڈالر تھی جس سے معیشت کے بارے میں بہتر ہوتے ہوئے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ 

اس مثبت پیش رفت کے باوجود 17 نومبر 2017 کو اسٹیٹ بینک کے زرِ مبادلہ کے ذخائر 13.5 ارب ڈالر ہیں جبکہ آخر جون 2017 میں 16.1 ارب ڈالر تھے۔

آگے چل کر سی پیک سے متعلقہ منصوبوں پر پیش رفت اور دیگر سرکاری رقوم کی آمد بھی مجموعی توازنِ ادائیگی کے خسارے کو سنبھالنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔تفصیلی سوچ بچار کے بعد کمیٹی نے پالیسی ریٹ کو 5.75فیصد پر برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔