|

وقتِ اشاعت :   January 10 – 2018

کراچی: پنجاب کے شہر قصور میں کمسن بچی کے ساتھ زیادتی کے بعد لرزہ خیز قتل کے واقعے نے پورے ملک کو جھنجھوڑ کر رکھدیا سوشل میڈیا پر بھی واقعے کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے۔

قصور میں معصوم کمسن بچی زینب کے ساتھ زیادتی کے بعد قتل کے ایک اور واقعے نے پورے ملک سمیت پاکستان کے سیاستدانوں کو بھی ہلا کررکھ دیا۔ زینب 5 روز قبل سپارہ پڑھنے گھر سے نکلی تھی کہ لاپتہ ہوگئی، گزشتہ رات بچی کی لاش کوڑے کے ڈھیر سے ملی۔ لاش ملنے کے ساتھ ہی لوگوں میں شدید غم وغصہ پھیل گیااور لوگوں نے احتجاج کرتے ہوئے ملزم کو کڑی سزا دینے کا مطالبہ کردیا۔ سوشل میڈیا پر بچی کے اغوا اور قتل کے خلاف شدید ردعمل کا اظہار کیا جارہا ہے اور ’زینب کے لیے انصاف‘کے نام سے ہیش ٹیگ ٹوئٹر پر ٹاپ ٹرینڈ کررہا ہےجس میں صارفین کی جانب سے درندہ صفت قاتل کو سرعام پھانسی پر لٹکانے کا مطالبہ کیا جارہا ہے۔

سابق وزیر اعظم نواز شریف کی صاحبزادی مریم نواز نے واقعے کی شدید مذمت کرتے ہوئے ٹوئٹ کی ہے کہ امید اور دعا کرتی ہوں کہ ننھی بچی کے قاتلوں کو نہ صرف گرفتار کیاجائے گا بلکہ عبرت کا نشان بھی بنایا جائے گا۔

سینیٹر رحمان ملک نے بھی زینب سے زیادتی اور قتل کا نوٹس لیتے ہوئے کہا ہے کہ واقعہ انتہائی دردناک، افسوسناک اور ناقابل برداشت ہے۔ جویریا وحید نامی صارف نے واقعے پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ننھی زینب کے والدین کچھ روز قبل ہی عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب گئے تھے یہ خبر ان کے لیے بہت افسوسناک ہوگی۔ 

احمد گل نامی صارف نے اپنا درد بیان کرتے ہوئے لکھا اس گھناؤنے قتل کے واقعے کو بیان کرنے کے لیے ان کے پاس الفاظ نہیں ہیں۔ یہ انسانیت کی تذلیل ہے قاتل کو سخت سزا دینے کی ضرورت ہے تاکہ مستقبل میں اس طرح کے حیوانوں کے لیے سبق حاصل ہوسکے۔

ایک اور صارف نے ایران کی مثال دیتے ہوئے ایک تصویر شیئر کی جس میں ایک شخص کو سرعام پھانسی دی جارہی ہے۔ صارف نے لکھا ایران میں زیادتی کرنے والے افراد کو سرعام چوراہے پر لٹکا یا جاتا ہے لیکن معاف کیجئے ہماری اشرافیہ ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے اور عمران خان کی شادی پر تبصرے کرنے میں مصروف ہے۔

View image on TwitterView image on Twitter
 

احتشام الحق نامی صارف نے بچی کو اغوا کرکے لےجانے کی تصاویرشیئر کرتے ہوئے لکھا کہ یہ تصاویرزینب کے قاتل کی ہیں جن میں قاتل واضح نظر آرہا ہے تو کیوں یہ شخص اب بھی آزاد گھوم رہا ہے؟کیا ہماری ایجنسیز اور حکام کو یہ شخص نظر نہیں آرہا ؟کیا ہم اس حیوان کو پکڑ کر سب کے سامنے سزا نہیں دے سکتے؟ کیا ہم اپنے بچوں کی حفاظت کے لیے کچھ کرنہیں سکتے۔ 

 

اقرار الحسن سید نامی صارف نے اس دلخراش واقعے پر شدید غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے لکھا کہ یہ صبح بالکل بھی اچھی نہیں کیونکہ یہ تصاویر دیکھ کر میں سو نہیں سکا۔

علی عمران نے کہا اس واقعے پر نہ کوئی دھرنا دیا جارہا ہے، نہ ٹائر جلا ئے جارہے ہیں، نہ سڑکیں بند کی جارہی ہیں کیونکہ یہ صرف ایک عام انسان کی بچی ہےجسے آپ نہیں جانتے، اگر ہم نے بچی کے لیے آواز بلند نہیں کی تو یہ سب وقت کے ساتھ بدتر ہوجائے گا۔