|

وقتِ اشاعت :   September 24 – 2016

متحدہ قومی موومنٹ نے ہمیشہ کیلئے الطاف حسین سے لاتعلقی کا اظہار کرکے ایک تاریخی فیصلہ کیا ہے جس کی تمام مکاتب فکر کی جانب سے پذیرائی ضروری ہے۔ سندھ اسمبلی میں الطاف حسین کے خلاف قرار داد پیش کرکے متحدہ کے اراکین سندھ اسمبلی نے یہ ثابت کردیا ہے کہ وہ الطاف حسین کے احکامات کے ماتحت نہیں ہیں۔ وہ آزاد ہیں اور پاکستان کی سیاست میں آزادانہ فیصلہ کررہے ہیں۔ متحدہ کی اسمبلی میں قرارداد کا متن اور اس کی منظوری اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ متحدہ پاکستان کے رہنما ء الطاف حسین، اس کی پالیسیوں اور اہداف سے الگ ہیں جو ایک خوش آئند عمل ہے اور اس کی حمایت کی جانی چاہئے۔ شاید متحدہ قومی موومنٹ نسبتاً زیادہ تعلیم یافتہ افراد کی جماعت ہے اور اس کے سارے اراکین اسمبلی اعلیٰ تعلیم یافتہ اور ملکی اور علاقائی سیاست پر واضح سوجھ بوجھ رکھتے ہیں۔ ان سب نے مل کر یہ فیصلہ کیا ہے کہ الطاف حسین کی سیاست اور ان کے سیاسی اہداف سے متحدہ اور ان کے حامیوں کو ہر قیمت پر الگ رکھا جائے۔ وجہ صرف اور صرف ایک ہے کہ مہاجروں خصوصاً متحدہ کے کارکنوں، رہنماؤں اور حمایتیوں کے مفادات پاکستان میں ہیں وہ پاکستان میں رہتے ہیں اور پاکستان کے باشندے ہیں ان کا مرگ و زیست پاکستان سے وابستہ ہے بھارت سے نہیں ہے۔ اس لئے متحدہ کے اکثر لوگوں نے یہ محسوس کیا کہ الطاف حسین کی پالیسیاں مہاجروں خصوصاً اردو بولنے والے مہاجروں کے مفادات سے متصادم ہیں اس لئے ان کی راہیں الگ الگ ہیں۔ متحدہ کے کارکنوں نے الطاف حسین کے احکامات پر عمل کرتے ہوئے بہت زیادہ نقصان کا سامنا کیا اور اس سے صرف الطاف حسین کے انا کو تسکین ملی ہے ۔ پختونوں، بلوچوں، سندھیوں، پنجابیوں اور دوسری زبان بولنے والوں کا قتل ناحق عام صرف الطاف حسین کے انا کو تسکین پہنچانے یا عوام دشمنی ،ملکی اور غیر ملکی طاقتوں کی خدمت کرنے کے لیے تھا۔ اس سے اردو بولنے والے مہاجروں کو نقصان ہی پہنچا اور ان کے تعلقات دوسری زبان بولنے والوں سے کشیدہ ہوگئے۔ اب شاید متحدہ پاکستان کے رہنماء ان نقصانات کے ازالے کا پروگرام شروع کریں۔ شاید یہ عمل انہوں نے شروع کردیا ہو اور سندھ اسمبلی میں تمام پارٹیوں خصوصاً اکثریتی پی پی سے مل کر ایک مشترکہ قرارداد متفقہ طور پر پاس کرائی گئی۔ یہ ابتدا ہے امید ہے کہ متحدہ کے سنجیدہ اراکین دوسرے متنازعہ مسائل کا حل تلاش کریں گے تاکہ اردو اور سندھی بولنے والے عوام مل کر عوام دشمن قوتوں کے ساتھ لڑیں۔ سندھ میں کرپشن اور ہر طرح کے تعصبات کا خاتمہ کریں۔ سندھ اردو اور سندھی بولنے والوں کا مشترکہ وطن ہے۔ بلوچ صدیوں سے سندھی عوام میں گھل مل گئے ہیں اور ان کے مفادات کا ٹکراؤ نہیں ہے۔ اسی لئے سندھ صوبہ کی بحالی کے لئے انہوں نے مشترکہ جدوجہد کی۔ بلوچ علاقوں میں آج بھی سندھی قوم پرست حکمران کررہے ہیں اور اس پر سیاسی اختلاف رائے ہوسکتا ہے مگر مجموعی طور پر اعتراض نہیں کیونکہ وہ سندھ میں رہتے ہوئے وسیع تر سندھی قوم کا حصہ ہے۔ یہ عوام و خواص کو معلوم ہے کہ بلوچوں کا سندھ میں مفادات کا کوئی ٹکراؤ نہیں، جیسے سندھی عوام کو حکومت سے شکایات ہیں ویسے بلوچ عوام کو بھی لیکن سندھ کی وحدت اور یکجہتی میں ان کے تمام مفادات یکساں ہیں اس لئے اردو بولنے والے مہاجر حضرات سندھ کو اپنا وطن تسلیم کرتے ہوئے اس کے جائز قومی مفادات کی حفاظت کا اعلان کریں اور یہ ثابت کریں کہ وہ سندھ کی زبان کی بنیاد پر تقسیم نہیں چاہتے۔ کل کے واقعہ میں وزیراعلیٰ سندھ نے اہم کردار ادا کیا ہے اور امید ہے کہ اس پولیس افسر کو عبرت ناک سزا دی جائے گی جس نے عوامی نمائندہ کی بے عزتی کی اور اسی کے گھر پر صوبائی حکومت کی اجازت کے بغیر چھاپہ مارا۔ بہر حال ملک کے اندر سیاسی بحران اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتا ہے کہ عوام متحد ہوکر پہلے سندھ اور اس کے عوام کے مفادات کا تحفظ کریں۔