|

وقتِ اشاعت :   May 24 – 2014

کوئٹہ(آصف بلوچ) وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچ عسکریت پسندوں سے مذاکرات کیلئے سیاسی و عسکری قیادت ایک پیج پر ہیں ،ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد جمہوری طریقے سے کی جائے اور اس میں بلوچ عسکریت پسندوں ملک بھر کے عوام اس میں ہمارا ساتھ دے، صوبے کے مسائل کے حل کیلئے سیاسی اور معاشی مسائل کے حل کیلئے اقدامات کررہے ہیں۔یہ بات انہوں نے نے ہفتہ کو وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ میں کونسل آف آل پاکستان نیوز پیپرز ایڈیٹرز کے عہدیداروں و ارکان کے اعزاز میں دیئے گئے ظہرانے کے موقع پر خطاب کے دوران کیا ۔ ظہرانے میں صوبائی وزیر سردار مصطفی خان ترین ،وزیراعلیٰ کے مشیر عبیداللہ بابت، ارکان اسمبلی حاجی عبدالسلام بلوچ ،سید لیاقت آغا،نیشنل پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل میر طاہر بزنجو،پشتونخواملی عوامی پارٹی کے صوبائی صدرعثمان خان کاکڑ، وزیراعلیٰ کے ترجمان جان بلیدی ، سیکرٹری داخلہ و قبائلی اموراکبر درانی ،سیکرٹری اطلاعات عبداللہ جان ،نیشنل پارٹی کے صوبائی صدر ڈاکٹر یاسین بلوچ،وزیراعلیٰ کے پرنسپل سیکرٹری نسیم لہڑی ،ڈی جی پی آر عبدالخالق دوتانی سمیت دیگر بھی موجود تھے۔ تقریب میں سینئر صحافی مجیب الرحمان شامی، بلوچستان کے سینئر صحافی صدیق بلوچ سمیت ملک بھر سے آئے اخبارات کے مدیران اور سینئر صحافی بھی موجود تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نے اپنے خطاب میں کہا کہپہلے بلوچستان آنے سے لوگ خوفزدہ ہوتے تھے لیکن صوبائی حکومت کے اقدامات کے نتیجے میں صوبے میں امن وامان کی صورتحال میں اب بہتری آئی ہے ، ہزارہ برادری اور آباد کاروں کی ٹارگٹ کلنگ میں کمی آئی ہے جبکہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا تدارک ہوا ہے اور ایسے واقعات میں ملوث گروہوں کی بھی بیخ کنی کی جارہی ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان خطے کے اثرات کی زد میں ہے جس کے باعث صوبائی حکومت کو کئی چیلنجز کا سامنا ہے۔عبدالمالک بلوچ کا کہنا تھا کہ سیاسی شورش کے خاتمے کے لئے بلوچ عسکریت پسندوں کو مذاکرات کیلئے قائل کررہے ہیں ، ہماری کوشش ہے کہ بلوچستان کے حقوق کی جدوجہد جمہوری طریقے سے کی جائے اور ملک بھر کے عوام اس میں ہمارا ساتھ دے۔ مسلح جدوجہد پہلا نہیں بلکہ آخری آپشن ہوتا ہے، میر گل خان نصیر، نواب اکبر بگٹی، نواب خیر بخش مری، غوث بخش بزنجو اور سردار عطاء اللہ مینگل سمیت دیگر بلوچ اکابرین نے لڑائی کے ساتھ ساتھ مذاکرات بھی کئے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی اور معاشی ہے ، معاشی مسائل کے حل کیلئے ہم مواصلات، تعلیم، صحت، پانی، بجلی اور زراعت کے شعبوں پر توجہ دے رہے ہیں جبکہ سیاسی مسائل کے حل کے لئے شورش ، فرقہ واریت ، مسلح لشکروں کے خاتمے اور امن وامان کی بہتری پر توجہ دی جارہی ہے۔وزیراعلیٰ نے سی پی این ای کے عہدیداروں اور ارکان کو کوئٹہ آمد پر خوش آمدید کہتے ہوئے کہا کہ ہمارے لئے آج کا دن خوشی کا ہے کہ ملک بھر سے سینئر جرنلسٹس کوئٹہ آئے ہیں جن کے ساتھ ہم نے جمہوریت اور عوام کی بالادستی کی جنگ لڑی ہے ہم میں اوران میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں ہم نے ملک میں جمہوریت اور عوام کیلئے ایک ساتھ جدوجہد کی اور سڑکوں پر احتجاج بھی کئے ہم سمجھتے ہیں کہ ہم ایک دوسرے کے قریب ہیں اور ہم دونوں سول سوسائٹی اور جمہوری قوتوں کے ساتھ ملکر زیادہ بہتر جدوجہد کرسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت صوبے میں نیشنل پارٹی ،پشتونخواملی عوامی پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی حکومت ہے عام انتخابات کے بعد مسلم لیگ(ن) کے سربراہ میاں نواز شریف نے جب ہمیں حکومت بنانے کی دعوت دی تو اس سے پہلے ہم اسکے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتے تھے ۔انہوں نے کہا کہ جب موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالاتو ہمیں بہت سے چیلنجوں کا سامنا تھا ہم نے تمام مسائل کو دو حصوں میں تقسیم کیا ایک سیاسی اور دوسرا معاشی حصہ ہے ہماری بڑی کامیابی یہ ہے کہ گزشتہ پانچ ،چھ سال سے جو منصوبے التواء کا شکار تھے ہم نے ان پر کام شروع کروادیا سابق دور حکومت میں صرف گوادر پورٹ کی باتیں کی جاتی تھیں جبکہ اسکو فعال کرنے پر ایسی توجہ نہیں دی گئی اس لئے جو سڑکیں ہونا چاہئے تھی وہ نہیں بنائی گئیں مگر اب ہم گوادر کو پورے ملک سے منسلک کرنے کیلئے سڑکیں بنارہے ہیں اور آٹھ ماہ کے دوران ناگ پنجگور سیکشن پر 150کلو میٹر کا کام مکمل کر رہے ہیں کوئٹہ ،قلات ،چمن شاہراہ جو ایک اہم شاہراہ ہے اس کا کام بھی گزشتہ کئی سال سے التواء کا شکار تھا وہ بھی شروع ہوگیا ہے بلوچستان میں بجلی کی ٹرانسمیشن لائنیں نہ ہونے کی وجہ سے مشکلات کاسامنا تھا اب صوبے میں دو ٹرانسمیشن لائنوں کی تکمیل پر بھر پور توجہ دی اور واپڈا حکام نے یقین دلایا ہے کہ خضدار رتوڈیرو ٹرانسمیشن لائن 15دن میں مکمل ہوجائے گی جبکہ لورالائی ڈی جی خان ٹرانسمیشن لائن بھی 15جولائی تک مکمل ہوجائے گی جس کے بعد بجلی کے حوالے سے صورتحال کافی بہتر ہوجائے گی ۔انہوں نے کہا کہ کچھی کینال پر کام جاری ہے اور اس سال ڈیرہ بگٹی تک کام مکمل ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ صوبے میں تعلیم کے شعبے پربھرپور توجہ دی گئی ہے اورہم نے صوبائی بجٹ 4سے بڑھاکر 24فیصد کردیا ہے ۔ وزیراعلیٰ ڈاکٹر مالک نے کہا کہ تعلیم کے حوالے سے ہم نے جو ٹارگٹ رکھا ہے اس پرعملدرآمد کیلئے کم از کم 60بلین روپے کی ضرورت ہے جو اکیلے ہم پورا نہیں کرسکتے ۔انہوں نے کہا کہ امن و امان کے حوالے سے بلوچستان میں صورتحال بہت بہتر ہوگئی ہے اغواء برائے تاوان کی وارداتیں رک گئی ہیں ٹارگٹ کلنگ کے مسئلے پر بھی بڑی حد تک قابو پالیا ہے ہماری قومی شاہراہیں محفوظ ہوگئی ہیں۔انہوں نے کہا کہ صوبے میں انسرجنسی جاری ہے اور ہم بلوچ مزاحمت کاروں سے بات چیت کی کوشش کر رہے ہیں مگراب تک انکو اس کیلئے راضی نہیں کرسکے مگر ہماری کوششیں جاری ہیں ۔انہوں نے کہا کہ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے کوشاں ہیں اور تمام مکاتب فکر کو ہم نے آن بورڈ رکھا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اے پی سی میں بلوچ مزاحمت کاروں سے مذاکرات کا مجھے اختیار دیا گیا اور مجھے سیاسی و عسکری قیادت کی مکمل سپورٹ حاصل ہے ۔انہوں نے کہا کہ صوبائی حکومت مادری زبانوں کی ترقی و ترویج کیلئے کوشاں ہے گڈ گورننس کے حوالے سے اقدامات کررہے ہیں صحافیوں کیلئے ہم نے جن اقدامات کا اعلان کیا تھا ان پر بدستور قائم ہیں اورانہیں پورا کررہے ہیں شہید ہونے والے جن صحافیوں کی ایف آئی آر درج ہیں ان کو معاوضہ دیا جاچکا ہے اگر کسی کو نہیں ملا تواسکے بارے میں آگاہ کیا جائے ۔ڈاکٹر مالک بلوچ نے کہا کہ ملک میں عوامی جمہوری بالادستی کیلئے جمہوری قوتوں کے ساتھ ہیں ہمارے اکابرین نے کسی آمر کے سامنے سر نہیں جھکایا اگر اب ایسا کوئی وقت آیا تو ہم انکی روایات کو دہرائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ہم کسی اخبار یا میڈیا کے ادارے کو بند ہونے نہیں دیں گے بلوچستان میں کوئی ناراض نہیں بلکہ 1948ء سے ایک سوچ ہے خواہش ہے کہ تمام تر وسائل کو بروئے کار لاکر مذاکرات کی راہ ہموار کرسکیں تاہم اب تک اس سلسلے میں کامیابی نہیں ملی مگر کوششیں جاری ہیں ۔قبل ازیں سی پی این ای کے صدر مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ہماری طویل عرصے سے خواہش تھی کہ کوئٹہ آئیں ور آج یہاں ڈاکٹر مالک بلوچ نے جس طرح سے ہمارااستقبال کیا وہ مثالی ہے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے 18ویں آئینی ترمیم میں جو کردارادا کیا وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ڈاکٹر عبدالمالک صوبے کے پہلے عوامی وزیراعلیٰ ہیں ماضی میں بلوچستان میں کرپشن ہوتی رہی گڈگورننس ایک مسئلہ تھا امید ہے کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کی قیادت میں صوبے میں مسائل حل اور ترقی کی راہیں ہموار ہونگی ناراض بھائیوں کو بھی یہ بات سمجھنی چاہئے کہ حقوق کے حصول کا بہترین طریقہ سیاسی و جمہوری جدوجہد ہے ۔انہوں نے کہا کہ یہاں آکراندازہ ہوا کہ صوبے کے حالات بتدریج بہتر ہورہے ہیں وزیراعلیٰ پر عوام کا اعتماد بحال ہورہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ جن صحافیوں کیلئے حکومت نے معاوضے کا اعلان کیا اورا نہیں ابھی تک نہیں ملا ہے وزیراعلیٰ سے گزارش ہے کہ انکے ورثاء کو جلد معاوضہ دیا جائے اور وفاقی حکومت بھی لواحقین کو معاوضہ دے شہید ہونے والے صحافیوں کیلئے جوڈیشل کمیشن کا قیام خوش آئند ہے صحافیوں کے قاتلوں کو ڈھونڈا جائے ۔انہوں نے کہا کہ اب محکمہ اطلاعات وفاق کی بجائے صوبے کے ماتحت آگیا ہے اور پرنٹ میڈیا بھی صوبائی حکومت کے دائرہ اختیار میں آگیا ہے اور اخبارات نامساعد حالات میں کام کر رہے ہیں جن اخبارات کے ڈیکلریشن کو پانچ سال ہوچکے ہیں ان کیلئے اشتہارات کا کوٹہ مختص کیا جائے ۔صوبائی وزیر پی اینڈ ڈی ڈاکٹر حامد خان اچکزئی نے سی پی این ای کے عہدیداران و ارکان کو کوئٹہ آمد پر خوش آمدید کہا اور کہا کہ ہمارا پریس کے ساتھ پرانا رشتہ ہے خان شہید عبدالصمد اچکزئی نے سیاسی تنظیم انجمن وطن کی بنیاد ڈالی اور پریس کیلئے قربانیاں دیں خان شہید نے اس دور میں جدوجہد شروع کی جب یہاں پر اخبارات پڑھنے پر پابندی تھی انگریز کے خلاف خان شہید ،یوسف عزیز مگسی ،عبدالعزیز کرد و دیگر اکابرین کی قربانیاں کسی سے کام نہیں ملک بننے کے بعد ہم کسی غیر جمہوری حکومت یا سسٹم کی حمایت کرنے والوں میں شامل نہیں رہے ون یونٹ کے خاتمے اور عوام کو ووٹ کا حق دینے کیلئے قربانیاں دیں قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں خان شہید و دیگر اکابرین کی جدوجہدکا مقصد جمہوریت کا قیام و پارلیمنٹ کی بالادستی ،سیاست سے فوج کی مداخلت ختم اورعوام کو ووٹ دینے کا حق دلانا تھا۔انہوں نے کہا کہ 18ویں ترمیم کیلئے بھی ہمارے اکابرین نے گراں قدر خدمات سرانجام دیں۔تقریب کے اختتام پر ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے سی پی این ای کے عہدیداروں ،سینئر صحافیوں کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا الرحمن ،بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر عرفان سعید میں شیلڈ تقسیم کیں۔