|

وقتِ اشاعت :   May 26 – 2014

کوئٹہ( اسٹاف رپورٹر)سابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کے سربراہ اوررکن صوبائی اسمبلی سردار اختر جان مینگل کا کہنا ہے کہ خضدار میں لیویز اہلکاروں پرحملے میں قوم پرست مسلح تنظیموں کی بجائے اسٹیبلشمنٹ کے پروردہ وہ عناصر ملوث ہیں ، بلوچستان میں آپریشن پر پردہ ڈالنے کیلئے اسٹیبلشمنٹ نے قوم پرست حکومت قائم کی ہے ،بلوچوں کو حقوق نہیں ،لاشیں مل رہی ہیں، بیرونی مداخلت کے الزامات لگانے والے امریکہ ، افغانستان اور بھارت کی یاترا کرتے رہتے ہیں۔بی بی سی اردو کو انٹرویو میں سردار اخترمینگل کا کہنا تھا کہ خضدار میں لیویز اہلکاروں پر حملہ ماضی کے مقابلوں سے قدرے مختلف ہے ،ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات کچھ لوگ وڈھ میں کوئٹہ کراچی شاہراہ پر ڈکیتی کررہے تھے جس پر لیویز کے اہلکاروں نے انہیں رکنے کی کوشش کی اس دوران دونوں جانب سے فائرنگ ہوئی جس کے نتیجے میں ایک ڈاکو زخمی ہوا تھا ،بعد میں ڈاکوؤں ڈھونڈنے کے لئے لیویز فورس گئی تھی ۔ اگلی صبح یعنی اتوار کو دن دن دیہاڑے دس سے گیارہ گاڑیوں میں یہی مسلح لوگ آئے جنہوں نے لیویز پر حملہ کیا اور آٹھ لیویز اہلکار اس حملے میں ہلاک اور کچھ زخمی ہوئے ،انہوں نے کہا کہ حملہ آور وہ لوگ ہیں جو دن دیہاڑے ڈکیتی کرتے رہتے ہیں ان لوگوں کو مختلف حکومتوں نے قوم پرستی کو ختم کرنے کے لئے پال رکھے ہیں انہی لوگوں کے گھروں کے سایے تلے توتک سے اجتماعی قبریں دریافت ہوئی ہیں ، اسٹیبلشمنٹ نے انہیں اتنا بااختیار بنادیا ہے کہ ان سے پوچھنے والا کوئی نہیں ہماری اسٹیبلشمنٹ بلوچستان میں ماضی کے اسی طریقہ کار پر چل رہی ہے جب مہاجرین کو مجاہدین اور پھر ان مجاہدین کو طالبان بنایا اب اسی طریقے سے قوم پرست کو ختم کرنے پر کام کررہے ہیں ،وہ سمجھتے ہیں کہ شاید اس عمل سے ہم بلوچ قوم پرستی کو ختم کریں گے ،یہ لوگ صرف کوشش نہیں بلکہ کافی حد تک اپنی کوششوں میں کامیاب بھی ہوئے ہیں کیونکہ بلوچ لاپتہ افراد کے مسئلے پر بھی انہی لوگوں کا استعمال کیا گیا اور مسخ شدہ لاشوں میں بھی انہی لوگوں کا ہاتھ ہے ،اجتماعی قبریں بھی ان کی ذمہ داریوں میں آتے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ فورسز پر حملوں کاعلیحدگی پسند باقاعدہ اعتراف اور ذمہ داری قبول کرتے ہیں تاہم لیویز چونکہ انہی قبائلی علاقوں سے تعلق رکھتی ہے ان پر آج تک ان علیحدگی پسندوں نے حملہ نہیں کیا،لیویز پر حملے کا مقصد یہ ہے کہ موجودہ حکومت کی وجود میں آنے کے بعد جو سوچ پیدا ہوگئی تھی کہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے جو بھی پالیساں بنائیں وہ غلط تھیں اور اسٹیبلشمنٹ نے جو مسلح لوگ پال رکھے ہیں اب ان کا خاتمہ ہونا چاہیے ،شاید اسی سوچ کو روکنے کے لئے انہوں نے مقامی لیویز پر حملے کرنا شروع کردیئے ۔ علیحدگی پسندوں کی سوچ کو صحیح یا غلط قرار نہیں دے سکتا ،ان کی اپنی سوچ ہے لیکن ہم جمہوری سیاست کررہے ہیں مگر بدقسمتی سے اس جمہوری سیاست میں بھی ماضی قریب میں ہمارے 65 کارکنوں اور رہنماؤں کو قتل کیا گیا ہے ،انہوں نے کہا کہ اگر علیحدگی پسند حملے کرکے اعتراف کرتے ہیں جبکہ دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کے ادارے بھی اس طرح کی حرکت کرے تو اسٹیٹ اداروں اور علیحدگی پسندوں میں پھر کیا فرق باقی رہے گا،ریاست بھی اپنی قانون اور عدالتوں کی دھجیاں اڑا رہے ہیں تو علیحدگی پسندوں سے ہم اور آپ کس طرح گلہ کرسکتے ہیں۔ مسخ شدہ لاشوں کے ذمہ داروں سے متعلق ہم سپریم کورٹ میں پیش ہوئے ،کوئی شنوائی تو ہوئی مگر آج تک کسی ذمہ دار کو کٹہرے میں لایا گیا ، سزا دی گئی اور نہ ہی ان کی نشاندہی کی گئی ،اگر مسخ شدہ لاشوں میں ریاست کے ادارے ملوث نہیں ہیں تو حکمرانوں کا یہ فرض بنتا ہے کہ ان میں ملوث ذمہ دار لوگوں کا سراغ لگاتے لیکن آج تک کسی بھی شخص کے پاؤں کے نشانات کو پالو کرنے کی جرأت نہیں کی گئی ،انہوں نے کہا کہ ہم روز اول سے ہی جمہوریت سیاست کررہے ہیں ،کچھ عرصہ قبل ہم نے پارلیمانی سیاست کنارہ کشی اختیار کی ہم سمجھے کہ شاید اب وقت اور حکومت بدل گئی مگر گزشتہ حکومتوں کے اقدامات موجودہ حکومتوں سے کم نہیں رہے اورہمیں مایوسی کے سوا کچھ نہیں ، ایک فیصد بھی حالات نہیں بدلے ،بہتری کی بجائے مزید بدتری میں اضافہ ہوا ہے اور حالات اس نہج پر پہنچ گئے ہیں کہ ہمارے کارکنوں کا ہم پر دباؤ ہے کہ ہم دوبارہ پارلیمانی سیاست سے دستبردار ہوجائیں ۔ سردار اختر مینگل کاکہنا تھا کہ کہا تو جارہا ہے کہ بلوچستان میں قوم پرست حکومت ہے مگر یہ دیکھا جائے کہ اس قوم پرست کو لانے والے بلوچ قوم یا کوئی اور ہے ،اگر حقیقت میں ان قوم پرست کو بلوچ قوم منتخب کرتے تو شاید ہم تسلیم کرتے اور اگر الیکشن کے نتائج کو دیکھا جائے جن علاقوں میں قوم پرستوں کی اکثریت تھی وہاں ووٹ کاسٹ نہیں ہوئے البتہ اسٹیبلشمنٹ کے اثرورسوخ کے والے علاقوں میں ووٹ ضرور کاسٹ ہوئے ہیں ۔یہ حکومت بلوچ قوم کی نہیں بلکہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی ہوئی حکومت ہے ،یہ حکومت بلوچستان میں جاری آپریشن پر پردہ ڈالنے کے لئے بنائی گئی ہے ۔ ۔ بی این پی کے سربراہ نے مزید کہا کہ کہا کہ بلوچستان کا مسئلہ سیاسی اورمعاشی ہے آج تک کسی حکومت کے دور میں بلوچستان کے لوگوں کو بنیادی حقو ق بھی نہیں دیئے گئے اگر لاشوں کا نام حقوق ہے تو صوبے کی آبادی سے زیادہ یہ حقوق ہمیں دیئے گئے ہیں ۔ ان کاکہنا تھا کہ جب تک بلوچستان کے ساحل وسائل کا مالک بلوچ قوم کو نہیں سمجھا جاتا اس وقت تک مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ اسٹیبلشمنٹ یا دو نمبر کے نمائندوں کو بلوچ عوام کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے ۔ بلوچستان میں بیرونی مداخلت کے حوالے سے ایک سوال پر اختر مینگل کا کہنا تھا کہ آج تک افغانستان ، امریکہ اور ہندوستان کی مداخلت کے حوالے سے ثبوت پیش نہیں کئے گئے جن پر انگلی اٹھائی جاتی ہے ہمارے حکمران ہر وقت ان کے بلاوے پر یاترا کرتے نظر آرہے ہیں ، اب بھی بھارتی وزیراعظم کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہورہے ہیں،اگر واقعی یہ ممالک مداخلت کررے ہیں تو حکمرانوں کو کم سے کم ان کے تقریبات میں تو شرکت نہ کرتے ۔ انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں خانہ جنگی کی راہ ہموار کی جارہی ہے اور اس کی ابتداء ہو بھی چکی ہے ،مثلاً صوبے کے بعض علاقوں میں تعلیم کے دورازے بند کئے جارہے ہیں ،حکومتی سکول تو نہ ہونے کے برابر ہیں نجی سکولوں کو بھی سرکاری کی بنائی ہوئی تنظیمیں حملے کرکے بند کررہے ہیں ، اس صورتحال میں اگر کوئی تعلیم کی حق میں نکلیں گے تو وہ مخالف لوگوں کا سامنا ضرور کریں گے ، ایسی صورت میں خانہ جنگی نہیں تو اور کیا ہوگی ۔