|

وقتِ اشاعت :   May 27 – 2014

کوئٹہ(اسٹاف رپورٹر) وزیراعلیٰ بلوچستان کی یقین دہانی کے باوجود بلوچستان کے ضلع پنجگور کے نجی تعلیمی ادارے چودہ روز بعد بھی نہ کھل سکے، شدت پسندوں نے اسکولوں کو ایک اور دھمکی آمیز خط بجھوادیا جس کے باعث اساتذہ، طالب علموں اور شہریوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ تفصیلات کے مطابق مغربی بلوچستان کے ضلع پنجگور میں تنظیم الاسلام الفرقان نامی غیر معروف تنظیم کی جانب سے نجی اسکولوں کو دھمکی آمیز پمفلٹ بھیجے گئے تھے جن میں انہیں لڑکیوں کو پڑھانے سے منع کیا گیا تھا ، پمفلٹ کی تقسیم کے چند دن بعد ہی ایک نجی اسکول کے پرنسپل کی گاڑی بھی جلائی گئی جس کے بعد شہر میں واقع بیس سے زائد نجی تعلیمی ادارے گزشتہ دو ہفتوں سے بند ہیں جس کے باعث بچوں کا قیمتی وقت ضائع ہو رہا ہے۔وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے تعلیمی اداروں کی بندش کا نوٹس لیتے ہوئے تعلیم دشمنوں کے خلاف سخت کارروائی کا دعویٰ کیا تھا لیکن اب تک عملی اقدامات نظر نہیں آ رہے۔ادھر پنجگور کے ایک نجی تعلیمی ادارے کو نامعلوم افراد کی جانب سے ایک اور دھمکی آمیز خط ملا ہے ۔ نجی تعلیمی ادارے کے پرنسپل میجر (ر)محمد حسین نے بتایا کہ صبح چھ بجے جب اسکول کے چوکیدار نے گیٹ کھولا تو گیٹ پر زنجیر کے ساتھ ایک تالہ چابی اور ایک خط لٹکا ہواتھا ۔ہاتھ سے لکھے خط میں کہا گیا ہے کہ’’ یہ تم لوگوں کا آخری چانس ہے ، اگر اس تالے کو کسی نے توڑنے کی کوشش کی تو اپنا ذمہ دار خود ہوگا۔‘‘تاہم خط میں کسی تنظیم کا گروہ کا نام نہیں لکھا گیا ۔میجر حسین کے مطابق انہیں پندرہ سے زائد مختلف موبائل فون نمبروں سے دھمکیاں دی جاری ہیں مگر ابھی تک انکے خلاف کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا جارہا ہے ،حکومت دعوے تو کررہی ہیں لیکن اب تک کوئی اقدامات نظر آرہے ہیں، فول پروف سیکورٹی کا دعویٰ کیا گیا تھا لیکن ہمیں لگتا ہے کہ حکومت تعلیمی اداروں پر دو تین اہلکار تعینات کرکے خاموش بیٹھ جائے گی کیونکہ اب تک دھمکیاں دینے والے عناصر کی نشاندہی اور نہ ہی ان کے خلاف کوئی کارروائی کی گئی۔انہوں نے کہا کہ روزانہ کی بناء پر ڈی سی آفس کے سامنے دھرنا جاری رکھا جائے گا اور جب تک انتظامیہ ملزمان کی تلاش اور ان کی گرفتاری عمل میں نہیں لاتی اس وقت تک نجی اسکولوں کو نہیں کھولا جائے گا۔ دریں اثناء تعلیمی اداروں کی بندش کے معاملے پر پیر کو ایک اہم اجلاس ڈپٹی کمشنر کے دفتر میں ہوا جس میں ڈپٹی کمشنر پنجگور ولی محمد بڑیچ ،ڈی پی او ڈاکٹرسمیع اللہ سومرو،اسسٹنٹ کمشنر پنجگور محمد جان بلوچ،تحصیلدار ظفر اللہ ،لیویز کے میجر صابر گچکی کے علاوہ پرائیویٹ اسکولوں کے ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ایک وفد اور مکران لینگوئج سنٹر کے بانی ظاہر حسین نے بھی شرکت کی۔ اجلاس میں ٹیچرز ایسوسی ایشن کے ممبران ،پرائیویٹ اسکولوں کے سربراہان ،طلباء اور سول سوسائٹی کے نمائندے بھی موجود تھے۔ ظاہر حسین نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت دنیا کے سامنے تعلیم کے فروغ کے بلند بانگ دعوے تو کررہی ہیں مگر آج پنجگور کے ایک لاکھ طلباء کی زندگیاں خطرے میں ہیں ،ہم نے پچیس سال کی محنت سے مکران میں تعلیمی انقلاب برپا کیا لیکن آج تعلیمی ادارے، اساتذ ہ اور طلباء غیر محفوظ ہیں، انتظامیہ ہمیں اسکول کھولنے کے لئے مجبور کیا جارہا ہے لیکن اساتذہ اس صورتحال میں اسکول کیسے کھول سکتے ہیں جب انہیں ٹیلی فون پر قتل کی دھمکیاں دی جارہی ہیں، اساتذہ اور طلباء کو سیکورٹی کے نام پر کلاشنکوف نہ دیئے جائیں، ہم کلاشنکوف کلچر کی طرف نہیں جانا چاہتے ،ہم نے معاشرے میں شعور اجاگر کرنا ہے ، ضلعی انتظامیہ کی خاموشی حیرتناک ہے،اگر ڈی سی بے بس ہے تو وہ ایف سی اور دیگر سیکورٹی اداروں سے مدد لیں،مسئلے کو ایک ماہ ہونے کو ہے مگر صوبائی حکومت کی خاموشی سوالیہ نشان ہے ۔ اجلاس سے ڈپٹی کمشنر پنجگور ولی محمد بڑیچ نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے تمام سمز کو ٹریس کیا ہے مگر ان میں ایسے جعلی سمز بھی شامل تھے جو غریب اور لاچار لوگوں کے تھے، جتنے سمز کے ذریعے دھمکیاں دی جارہی ہیں وہ وہ تمام چوری شدہ سمز ہیں،ان کا کہنا تھا کہ ملزمان کی نشاندہی کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائے جارہے ہیں، جلد تعلیم دشمن عناصر کو بے نقاب کرکے سزا دلائی جائے گی۔