|

وقتِ اشاعت :   December 25 – 2014

کراچی: سابق ٹیسٹ اوپنر اور قومی ٹیم کے سابق کوچ محسن حسن خان نے کہا ہے کہ قومی ٹیم نے نیوزی لینڈ اور آسٹریلیا کے خلاف حالیہ سیریز سے کچھ حاصل نہیں کیا اور ورلڈ کپ کے لیے ایک فتح گر ٹیم کی تیاری کا موقع گنوا دیا ۔ محسن حسن خان نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دنووں سیریز میں پاکستان کو شکست کا سامنا کرنا پڑا اور ان سے کوئی مثبت تبدیلی واقع نہیں ہوئی۔ قومی ٹیم کے سابق کوچ نے غصور لہجے میں سوال کیا کہ ’کوئی ہمیں بتائے گا کہ ہم نے اس دونوں سیریز سے کیا حاصل کیا، ہماری جوڑی تیار نہیں ہو سکی، مڈل آرڈر بھی سیٹل نہیں ہو سکی، ہماری باؤلنگ مستقل مشکلات کا شکار نظر آئی اور ہمیں انجریز کا بھی سامنا کرنا پڑا۔ کیا اس طرح ورلڈ کپ جیسے بڑے مقابلے کے لیے کھلاڑیوں کو گروم اور تیار کیا جاتا ہے؟‘۔ ’صرف میں ہی نہیں بلکہ زیادہ تر تنقید نگار اور سابق کھلاڑی محسوس کرتے ہیں کہ اس صورتحال میں کوئی امید نہیں لیکن ہم پھر بھی اپنی ٹیم کی حمایت کریں گے کیونکہ ہم محب وطن لوگ ہیں جو اپنی ٹیم کو ہر مرتبہ جیتتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اس کی ذمے داری اس عرصے کےدوران سلیکشن کمیٹی اور ٹیم مینجمنٹ کی جانب سے کیے جانے والے متعدد غیر منطقی اور غیر دانشمندانہ فیصلوں پر عائد کی اور کہا کہ آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے ہوم سیریز ہارنے کی کوئی تُک نہ بنتی نہیں۔ ’ٹیم کو متحدہ عرب امارات میں ایک روزہ میچوں کی سیریز ہارتے ہوئے دیکھ کر بہت مایوسی ہوئی، یہاں ہمارے لیے سازگار ماحول، پچز اور تماشائیوں کی بدولت ملنے والے فوائد کو مدنظر رکھا جائے تو ہمیں یہ سیریز ہر حال میں جیتنی چاہیے تھی‘۔ انہوں نے کہا کہ ایک روزہ میچوں میں اسٹریٹیجی اور گیم پلان کی واضح کمی دکھائی دی جس کی ذمے داری میں ٹیم مینجمنٹ پر عائد کرتا ہوں۔ محسن خان نے کہا کہ ہمیں جو کچھ بھی کامیابی ملی وہ شاہد آفریدی، سرفراز احمد، یونس خان، محمد عرفان، احمد شہزاد اور یقیناً حارث سہیل کے شاندار کھیل اور عزم و حوصلے کی بدولت ملی۔ لارڈز میں ڈبل سنچری بنانے والے سابق اوپنر نے انتہائی افسوس سے نشاندہی کرتے ہوئے کہا کہ اسد شفیق، عمر اکمل اظہر علی اور دیگر کھلاڑیوں کو ابھی تک نہیں معلوم کہ وہ کہاں کھڑے ہیں حالانکہ ورلڈ میں بمشکل ڈیڑھ ماہ کا عرصہ رہ گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ ’مجھے بتائیں کہ متحدہ عرب امارات میں سیریز سے قبل ایک ماہ طویل اور تھکا دینے والے کیمپ کا کیا فائدہ ہوا، اس کے نتیجے میں عمر گل، جنید خان، وہاب ریاض اور دیگر کھلاڑیوں کو انجریز ہوئیں اور کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ ’ہر کوئی جانتا ہے کہ ان سب اور ایسے اقدامات کا ذمے دار کون ہے، لیکن جس شخص نے سلیکشن کمیٹیاور دس رکنی نااہل ٹیم مینجمنٹ کی تعیناتی کی، وہ آرام سے دبئی میں بیٹھا ہے اور پی سی بی کے سربراہ کو موجودہ صورتحال کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے جو بہت افسوسناک ہے‘۔ ’میں شہریار خان صاحب کی بہت عزت کرتا ہوں کیونکہ وہ ایک بہترین انسان اور پاکستان کرکٹ سے مخلص ہیں لیکن بدقسمتی سے انہیں اپنے پیشروؤں کے چھوڑے ہوئے اضافی بوجھ کو اٹھانا پڑ رہا ہے۔ اس موقع پر محسن نے مشکوک باؤلنگ ایکشن کے باعث پابندی کا شکار محمد حفیظ اور سعید اجمل کی غیر موجودگی میں متحدہ عرب امارات میں ہونے والی سیریز میں یاسر شاہ اور ذوالفقار بابر جیسے نئے اسپنرز نہ آزمائے جانے پر حیرانگی کا اظہار کیا۔ اپنے دور کے کامیاب سابق چیف سلیکٹر نے کہا کہ حیرت انگیز طور پر ٹیسٹ سیریز میں شاندار کارکردگی کامظاہرہ کرنے کے باوجود ذوالفقار بابر اور یاسر شاہ کو ایک روزہ سیریز میں نہیں آزمایا گیا جبکہ بائیں ہاتھ کے اسپنر عبدالرحمان کو بھی عالمی میچز میں شاندار ریکارڈ کے باوجود موقع فراہم نہیں کیا گیا۔ ’ہمارے کھلاڑی بہت اچھے ہیں لیکن جب ٹیم مینجمنٹ کھلاڑیوں کو سکھانے اور تربیت کرنے کے بجائے سازشوں میں زیادہ دلچسپی لے گی تو نتائج کیسے آ سکتے ہیں؟‘۔ اس موقع پر انہوں نے ٹیم کے ہیڈ کوچ وقار یونس کی بھی متحدہ عرب امارات سے اسکواڈ کی واپسی پر نہ آنے پر آڑے ہاتھوں لیا۔ سابق ٹیسٹ کرکٹر نے پشاور دھماکے کے بعد قومی ٹیم کی جانب سے نیوزی لینڈ کیخلاف چوتھا ایک روزہ میچ کھیلنے کی بھی مذمت کی۔ انہوں نے کہا کہ میں یقین نہیں کرسکتا، نہ ہی کروڑوں پاکستان اس بات پر یقین کرسکتے ہیں کہ ہم نے ایک دن قبل معصوم بچوں کے بہیمانہ قتلِ عام کے باوجود میچ کھیلا۔ محسن نے کہا کہ یہ کس کا فیصلہ تھا، کوئی نہیں جانتا لیکن سب سے بری بات یہ کہ تمام تر ملبہ براڈ کاسٹرز اور نیوزی لینڈ کی ٹیم پر ڈال دیا گیا لیکن کیوی ٹیم نے تقریب تقسیم انعامات میں یہ کہہ کر حکام کو غلط ثابت کردیا کہ انہوں نے میچ کو ملتوی کرنے کی پیشکش کی تھی۔