|

وقتِ اشاعت :   April 9 – 2015

کوئٹہ بلوچستان کی سینٹرل جیل مچھ میں قتل کے مقدمے میں قیدی میر حمزہ کو صبح پھانسی دیدی گئی۔بلوچستان میں2007ء کے بعد پہلی بار کسی قیدی کو پھانسی دی گئی۔ جیل انتظامیہ کے مطابق پھانسی کے منتظر میر حمزہ ولد لعل گل نے پرانی رنجش کی بناء پر انتیس مئی 1995کو ضلع ہرنائی کے علاقے سر پل کے مقام پر واپڈا اہلکار محمد ایوب ولد محمد خان کو قتل کیا تھا۔ میر حمزہ آٹھ سال تک مفرور رہا اور بالآخر جون2003ء میں لورالائی پولیس کے ہاتھوں گرفتار ہوا۔ جرم ثابت ہونے پر سیشن جج سبی بمقام مچھ نے 14 جون 2004ء کو میر حمزہ کو سزائے موت سنائی تھی۔ اپیل دائر کرنے کے باوجود ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے پھانسی کے فیصلے کو برقرار رکھا ۔ صدر مملکت نے بھی رحیم کی اپیل مسترد کردی ۔میر حمزہ کی پھانسی کی تاریخ 8اپریل 2015ء مقرر ہونے کے بعد ضلع ہرنائی اور صوبے کے قبائلی ، سیاسی قائدین علماء4 کرام اور خواتین نے بھی کئی بار مقتول کے گھر میڑھ لیکر میر حمزہ کو معاف کرنے کی درخواست کی اور یہ کوششیں آخر وقت تک جاری تاہم مقتول کے ورثاء نے مجرم کو معاف کرنے سے صاف انکار کیا ۔ پھانسی سے قبل میر حمزہ کی ان کے بیٹے، بھائی اور دیگر رشتہ داروں سے آخری ملاقات کروائی گئی۔ جیل کے میڈیکل آفیسر ڈاکٹر سجاد حیدر نے پھانسی سے قبل میر حمزہ کا طبی معائنہ کیا اور انہیں نارمل قرار دیا جس کے بعد انہیں بدھ کی علی الصبح پھانسی دی گئی۔ ڈاکٹر کی جانب سے کا معائنہ کرنے کے بعد لاش ورثاء کے حوالے کر دی گئی۔ اس موقع پر میر حمزہ کے خاندان اور علاقے کے لوگوں کی بڑی تعداد موجود تھی جو لاش کو للے کر آبائی گاؤں کلی اربوزہرنائی پہنچے۔ اس موقع پر ہرنائی شہر میں بھی سوگ کا سما ء تھا۔ بعد ازاں میر حمزہ کو آبائی قبرستان میں سپرد خاک کردیا گیا۔ نماز جنازہ میں سینکڑوں افراد نے شرکت کی۔ بلوچستان کی سینٹرل جیل مچھ میں پرانی دشمنی کی بناء پر 14سال قبل دو افراد کو قتل کرنے والے دو سگے بھائیوں کو آج صبح تختہ دار پر لٹکایا جائے گا۔ سینٹرل جیل مچھ کے سپرنٹنڈنٹ محمد اسحاق زہری کے مطابق علی گل اور میرو کو پھانسی دینے کیلئے تمام انتظامات مکمل کرلئے گئے ہیں۔ انہیں جمعرات کی صبح ساڑھے پانچ بجے پھانسی دی جائے گی۔ بدھ کو پھانسی سے قبل سینٹرل جیل مچھ میں دونوں بھائیوں سے ان کے رشتہ داروں کی آخری ملاقات کرائی گئی۔ علی گل اور میرو کے دو بھائیوں ، بہن اور والدہ کو پرانی دشمنی کی بناء پر قتل کردیا گیا تھا ۔ دونوں بھائیوں نے انتقام میں 18اگست 2001ء کو بختیار آباد کے مقام پر بس سے اتار کر مخالف فریق کے دو افراد بختیار اور غلام حسین کو فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا۔لیویز نے دونوں بھائیوں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف بختیار آباد تھانہ میں دہشتگردی کی دفعہ 7-A ATAکے تحت مقدمہ نمبر08/2001میں درج کیا ۔ انسداد دہشتگردی کی خصوصی عدالت سبی نے 28جنوری2004ء کو دونوں بھائیوں کو سزائے موت سنائی جس پر ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں جو خارج کردی گئیں۔ صدر مملکت نے بھی ان کی رحم کی اپیل مسترد کردی۔قاتل اور مقتولین ورثاء کے درمیان دو سال قبل راضی نامہ ہوگیا تھا لیکن دہشتگردی کی دفعہ کے تحت مقدمہ درج ہونے کی وجہ سے علی گل اور میرو کو معافی نہ مل سکی۔ پھانسی سے چند روز قبل بھی سپریم کورٹ نے پھانسی پر نظر ثانی کی اپیل کو مسترد کردیا۔ بدھ کی شب مچھ میں علی گل اور میرو کے چچا زاد احمد نواز ور فریق مخالف کے خاوند بخش نے مشترکہ پریس کانفرنس کی ۔ مدعی مقدمہ خاوند بخش کا کہنا تھا کہ ہم نے میرو اور علی گل کو معاف کردیا ، صدر مملکت اور سپریم کورٹ بھی ان کی پھانسی کے فیصلے پر نظر ثانی کریں۔ علی گل کے چچا زاد احمد نواز نے بتایا کہ ہمارا اور مخالف فریق کا دو سال قبل راضی نامہ ہوگیا لیکن ابھی تک ہمارے چچا زاد بھائیوں کو معافی نہیں مل رہی۔ علی گل اور میرو کے گھر کے چار افراد پہلے ہی قتل ہوچکے ہیں اب صرف یہی دو مرد باقی بچے ہیں اگر یہی بھی چلے گئے تو خاندان بے سہارا ہوجائے گا۔ واقعہ پرانی دشمنی کا تھا لیکن مقدمے میں دہشتگردی کی دفعات لگائی گئیں ، ہم دیہی علاقے کے ان پڑھ لوگ ہیں اس بات کا علم نہیں تھا کہ دہشتگردی کی دفعات کے تحت درج ہونے والے مقدمے میں معافی نہیں ملتی۔ ہم نے سپریم کورٹ سے بھی رجوع کیا لیکن ہمیں انصاف نہیں مل سکا۔ ان کا کہنا تھا کہ پرانی دشمنی کے واقعہ میں اگر مقتولین کے ورثاء معاف کردیتے ہیں اور مقدمے سے دستبرداری اختیار کرلیتے ہیں تو قاتل کو معافی مل جاتی ہے لیکن علی گل اور میرو کو معافی نہیں مل رہی۔ انہوں نے صدر مملکت اور سپریم کورٹ سے اپیل کی کہ وہ دونوں بھائیوں کو پھانسی کے پھندے سے بچائیں ۔