|

وقتِ اشاعت :   September 18 – 2015

کوئٹہ: وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کہاہے کہ مری معاہدہ ایک حقیقت ہے مدت کی توسیع ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی بلوچستان کے حالات کوبہترکرناہماری ترجیحات میں شامل ہے وزیراعظم میاں محمدنوازشریف سے محمودخان اچکزئی اور میرحاصل بزنجو کے ملاقاتوں کاہمیں عمل نہیں ہے تاہم اخبارات میں ضرور پڑھاہے ان خیالات کااظہارانہوں نے کوئٹہ پریس کلب میں کتاب کی تقریب رونمائی اورصحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کیااس موقع پرنیشنل پارٹی کے مرکزی نائب صدر ڈاکٹرطاہر بزنجو ،جنرل سیکرٹری ڈاکٹریاسین بلوچ،پریس سیکرٹری وزیراعلیٰ عبدالمنان اورنواب محمدخان شاہوانی نے بھی خطاب کیاانہوں نے کہاکہ انہوں نے کہاکہ ڈھائی سال کامعا ہدہ حقیقت پرمبنی ہے اس میں مزیدتوسیع ہمارے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی ہماری صرف خواہش ہے کہ بلوچستا ن کے حالات بہترہواورلوگ آزادانہ طورپراپناکاروبارکرے کیونکہ بندوق کے ذریعے کبھی بھی قوموں کے مسائل حل نہیں ہوئے اب وقت آگیاہے کہ بلوچستان کے عوام قلم اورکتاب کے ذریعے حالات کوتبدیل کرے انہوں نے کہاکہ وزیراعظم میاں محمدنوازشریف سے محمود خان اچکزئی اورمیرحاصل بزنجو کاہمیں علم نہیں تاہم صحافیوں کے توسط سے اخبارات میں ضرور ملاقات کے حوالے سے پڑھاہے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں لاپتہ افراد کامسئلہ درپیش ہے تاہم اس حوالے سے فہرستیں مانگ لی اب تک کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل نہیں جلد ہی عوام کواس حوالے سے خوشخبری دیں گے انہوں نے کہاکہ بلوچستان کامسئلہ سیاسی ہے اوراس کوسیاسی انداز میں حل ہونا چاہئے ہم روز اول سے یہی موقف اختیار کئے ہوئے تھیں اور انتہائی خوش آئند عمل ہے کہ نوابزادہ براہمدغ بگٹی نے بھی مذاکرات پر آمادگی کا اظہار کیا ہے جو بہت بڑی ہے اس سے قبل تو وہ مذاکرات کی بات بھی نہیں کرتے تھے میرا اب تک ان سے رابطہ نہیں ہوا تاہم موجودہ صوبائی حکومت تمام نار اض بلوچ رہنماؤں سے مذاکرات کیلئے کوشاں ہے مجھے سیاسی و عسکری قیادت کی جانب سے مذاکرات کیلئے مکمل اختیار حاصل ہے اور مذاکرات کی راہ میں کوئی رکاوٹ نہیں تاہم چیزیں آہستہ آہستہ بہتری کی جانب جارہی ہیں ہم سیاسی لوگ ہیں اور بلوچستان کو سیاسی انداز میں مسائل کی دلدل سے نکالنے کی کوشش کررہے ہیں اس سے قبل وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹرعبدالمالک بلوچ نے کوئٹہ پریس کلب میں کتاب کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ایک زمانے میں کوئٹہ کی دکانیں کتابوں سے بھری پڑی ہوئی تھی اورہرمکتبہ فکر کے لوگ اخبارات اورکتابیں پڑھتے تھے انہوں نے کہاکہ ہم اب بھی ان سیاسی کارکنوں اورصحافیوں کوبتاناچاہتے ہیں کہ وہ کتابوں کے ذریعے علم حاصل کرے جب تک سیاسی کارکن لکھے پڑے نہیں ہوتے اس وقت تک ہم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے انہوں نے کہاکہ 21صدی میں بندوق سے مقابلہ نہیں کرسکتے بلکہ قلم اورکتاب کے ذریعے ہی دنیاکامقابلہ اوراپنے حقوق حاصل کرسکتے ہیں انہوں نے کہاکہ موجودہ حکومت نے اقتدارمیںآتے ہی مقامی زبانوں میں پرائمری سطح تک تعلیم حاصل کرنے کیلئے مضامین شامل کئے انہوں نے کہاکہ بلوچستان میں حالات کاتقاضاہے کہہ طوفان کامقابلہ نعرہ بازی سے نہیں بلکہ علم وادب سے کرناہوگا۔دریں اثناء وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا ہے کہ گوادر اور بلوچستان کے عوام کے حقوق کا تحفظ میری ذمہ داری ہے، نوجوان اب سمجھ رہے ہیں کہ بندوق سے قلم طاقتور ہے، محرومیاں، مزاحمت اور نفرت کو جنم دیتی ہیں۔ ایک دو اضلاع کے علاوہ بلوچستان کے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی گزار رہے ہیں، میں غیر ضروری محاذ آرائی کا مخالف ہوں، جمہوری نظام کے استحکام سے ہی ملک کے عوام خوشحال ہوں گے، ان خیالات کا اظہار انہوں نے 103ویں نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء سے گفتگو کرتے ہوئے کیا، وزیر اعلیٰ بلوچستان نے کہا کہ جب اقتدار سنبھالا تو بلوچستان میں امن و امن کی صورتحال مخدوش اور ادارے برباد ہو چکے تھے، انتہا پسندی، خودکش حملے، فرقہ وارانہ واقعات، ٹارگٹ کلنگ ، اغواء برائے تاوان، ڈکیتی، راہزنی جیسے جرائم معمول بن چکے تھے، مخلوط صوبائی حکومت نے امن و امان کی بحالی کو اولین ترجیح قرار دیکر اس کی بحالی کے لیے ٹھوس اقدامات اٹھائے، ضرب عضب آپریشن، وفاقی حکومت ، سیکورٹی فورسز اور صوبائی حکومت کی مشترکہ حکمت عملی اور کاوشوں سے صورتحال میں نمایاں بہتری آئی، جبکہ بلوچ مزاحمت کاروں کے ساتھ مفاہمتی پالیسی کے نتیجے میں مسئلے کو گفت و شنید اور سیاسی انداز میں حل کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔لیویز اور پولیس کی استعدادکار اور صلاحیت میں اضافے کے لئے ان کی فرنٹیئر کور سے مرحلہ وار تربیت کرائی جا رہی ہے، پولیس کے حوصلے کو بلندکرنے کے لیے ان کی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کیا گیا جبکہ پولیس کے محکمے کو بااختیار بنا کر اس میں سیاسی اور حکومتی مداخلت کا خاتمہ کیا، حکومتی اقدامات سے پولیس کا اعتماد بحال ہونے میں مدد ملی، کارکردگی کے حوالے سے بلوچستان کے اشارئیے تیزی سے بہتری کی طرف جا رہے ہیں، غیر جانبدار حلقوں کے مطابق نیشنل ایکشن پلان پر عملدرآمد سے متعلق بلوچستان حکومت کی کارکردگی سب سے بہتر ہے، لیکن کچھ مشکلات بھی ہیں ہمارا خطہ تنازعات کی زد میں ہے جو کہ امن و امان کے لیے مسائل پیدا کرتا رہتا ہے، انہوں نے کہا کہ امن و امان کے بعد تعلیم کے شعبے پر حکومت نے خصوصی توجہ دی ہے، صوبے میں نئے میڈیکل کالجز، یونیورسٹیاں قائم کی جا رہی ہیں، معیار تعلیم کی بہتری، اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدامات اٹھائے گئے ہیں، صوبے کی تاریخ میں پہلی مرتبہ 5ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر این ٹی ایس (NTS) کے ذریعے بھرتیاں کی جا رہی ہیں نقل کے خاتمہ اور سکول بھرو مہم پر بھی توجہ دی گئی ہے، 5سو سے زائد غیر حاضر اساتذہ کے خلاف محکمانہ کاروائی عمل میں لائی گئی ہے۔ پبلک سروس کمیشن کو دوبارہ منظم کیا جس سے محنتی نوجوانوں کا اعتماد بحال ہوا، شفافیت کے باعث غریبوں کے بچوں کو آج اعلیٰ ملازمتوں کے مواقع مل رہے ہیں، کوئٹہ اور اندرون صوبہ سرکاری ہسپتالوں کی کارکردگی میں بھی بہتری لائی گئی ہے، سرکاری ہسپتالوں کو کئی سالوں بعد آلات اور ادویات کی فراہمی کی جارہی ہے، ورٹیکل پروگرام اور پولیو مہم کی کامیابی کے لیے انتہائی سنجیدہ اقدامات اٹھائے گئے ہیں، انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے 70فیصد لوگوں کا روزگار زراعت سے وابستہ ہے، صوبائی حکومت زرعی صارفین کو 14ارب روپے کی سبسڈی دے رہی ہے، قابل کاشت رقبے میں اضافے کے لیے صوبائی حکومت بلڈوزر خرید رہی ہے اور یہ ہدف 200بلڈوزروں کا ہے، 10سالوں سے زیر التواء دادو خضدار، ڈی جی خان لورالائی ٹرانسمیشن لائن وفاق کے تعاون سے مکمل ہو گئے ہیں جن کی تکمیل سے بلوچستان میں توانائی کے بحران میں کمی واقع ہوئی ہے، مواصلات کے شعبے کی ترقی پر بھی تیز رفتاری سے کام جاری ہے، خضدار رتو ڈیرو شاہراہ آئندہ ایک سال میں مکمل ہو جائے گی، ژوب ڈیرہ اسماعیل خان،لورالائی ڈیرہ غازی خان قومی شاہراہوں پر بھی جلد کام کا آغاز ہوگا، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے، اگر فوری اقدامات نہ اٹھائے گئے تو خدشہ ہے کہ آئندہ 20سے 25سالوں میں لورالائی سے خضدار تک زیر زمین پانی نایاب ہو جائے گا اور لوگ نقل مکانی پر مجبور ہو جائیں گے، جبکہ بلوچستان میں بارش کے پانی استعمال میں لانے کے لیے ڈیمز نہ ہونے کے برابر ہیں، جس سے سالانہ تربیلا جتنا صوبے کا پانی ضائع ہوتا ہے، وفاقی حکومت کو صوبے میں 200بڑے، درمیانے اور چھوٹے ڈیمز کی تعمیر کا پی سی ون بھجوایا ہے۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان نے شرکاء کے مختلف سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ چاغی ضلع میں ریکوڈک ، سیندک منصوبوں کے علاوہ بڑے پیمانے پر قیمتی معدنیات کی کانکنی کی جاتی ہے لیکن بدقسمتی سے وہاں کے لوگوں کو پینے کا پانی تک دستیاب نہیں، ایسی صورتحال میں عوام میں بددلی اور مایوسی پیدا ہوگی، معدنی پیداوار کا منافع ایک ایک فیصد ایسے علاقوں کی تعمیر و ترقی اور عوام کی فلاح و بہبود پر خرچ کیا جائے تاکہ عوام کو یہ احساس ہو کہ وہ اپنے وسائل کے مالک ہیں، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ گوادر پورٹ کو بلوچستان کے حوالے کرنے اور اس کے ریونیو سے بلوچستان کو حصہ دیا جائے اور ملازمتیں بھی دی جائیں ، انہوں نے کہا کہ پاک چائنا اقتصادی راہداری کا فائدہ پہلے گوادر، پھر بلوچستان اور پھر ملک کے دوسرے حصوں کو ہونا چاہیے، عوام کو یہ یقین دلانا ہوگا کہ یہ ترقی ان کے لیے ہے، انہوں نے کہا کہ اقتصادی راہداری سے متعلق وزیر اعلیٰ ریفارمز یونٹ کے سربراہ ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی نے بلوچستان وژن پالیسی دی اور تمام شعبوں کی ترقی اور راہداری سے استفادہ کرنے سے متعلق تفصیلی رپورٹ پیش کی ہے، وزیر اعلیٰ نے کہا کہ بلوچستان کے لوگوں کے متعلق منفی تاثر درست نہیں بلوچستان میں قابل اور لائق لوگوں کی کوئی کمی نہیں، انہوں نے کہا کہ میں غیر ضروری محاذ آرائی کے بجائے منطق اور دلیل پر یقین رکھتا ہوں، لیکن جہاں بلوچستان اور اصولوں کی بات ہوگی میرا موقف بالکل واضح اور دو ٹوک ہوگا، نیشنل مینجمنٹ کورس کے شرکاء کے بعض سوالات کا چیف سیکریٹری بلوچستان سیف اللہ چٹھہ نے تفصیل سے جواب دیا اور حکومتی اقدامات، گڈ گورننس، ترقیاتی عمل سے متعلق حکومتی پالیسیوں سے انہیں آگاہ کیا ، اس موقع پر پرنسپل سیکریٹری محمد نسیم لہڑی، صوبائی سیکریٹری داخلہ اکبر حسین درانی، سیکریٹری خزانہ مشتاق احمد رئیسانی ودیگر اعلیٰ حکام بھی موجود تھے۔