|

وقتِ اشاعت :   December 29 – 2015

abid mirلکھنے والا زمین پہ رہ کر لکھتا ہے، اور اہلِ زمین سے جڑا ہوتا ہے، اس لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ زمین اور اہلِ زمین سے لاتعلق رہ سکے۔لکھنا ، پڑھنے سے تعلق رکھتا ہے۔ سو،ہر لکھنے والا اپنے قاری کا تعین ضروری کرتا ہے۔قاری بنا، تحریر کی کوئی وقعت نہیں۔ تحریر جب تک قاری تک رسائی نہ رکھتی ہو، اُس بچے کی مانند ہے جو ماں کے پیٹ میں تو موجود ہو،لیکن ابھی جنم نہ لیا ہوا۔قاری کا تعین کیے بنا لکھنے والا، گم راہ ہوجاتا ہے، یا اس کا لکھا بے اثر رہ جاتا ہے۔ اس پس منظر میں گل خان کا بالخصوص اردو کلام دیکھیں تو یوں لگتا ہے جیسے گل خان کا مخاطب و قاری صرف نوجوان ہیں۔ گل خان کی شاعری کا نہ صرف ایک بڑا حصہ براہِ راست نوجوانوں کو مخاطب کرتا ہے بلکہ دیگر موضوعات انھی کی دلچسپی سے متعلق ہیں۔ نیز زبان و بیان ایسا کہ جیسے نوجوان قاری کو قرات کی دعوت دے رہا ہو۔ گل خان چونکہ انقلاب فکر سے جڑا ہوا عملی شاعر ہے، اس لیے اسے بہ خوبی احساس ہے کہ کسی بھی سماج میں انقلاب کا ہر اول دستہ نوجوان نسل ہوتی ہے۔ اس لیے گل خان محض نوجوانوں سے مخاطب ہی نہیں ہوتے، بلکہ انہیں بیدار بھی کرتے ہیں۔ وہ کسی ماہر نفسیات کی طرح پہلے نوجوانوں کو طعنے دے کر انھیں خوابِ غفلت سے اٹھاتے ہیں ، پھر منزل کی نشان دہی کرتے ہیں، اور پھر منزل کی جانب جانے والا راستہ دکھاتے ہیں۔اسے کہتے ہیں؛ رہنما شاعر! گل خان ، نوجوانی کی نفسیات سے آگاہ ہیں، کہ ’طعنہ‘ جس کے لیے تازیانے کا کام کرتا ہے۔ اس لیے پہلے وہ نہایت مشاکی سے اسی ہتھیار کا استعمال کرتے ہیں۔ دیس کی صورتِ حال بتاتے ہیں اور نوجوانوں کی غفلت پہ طعنہ زنی کرتے ہیں؛ ’’گھٹا سر پہ ادبار کی چھا رہی ہے‘‘ فضا پے بہ پے آگ برسا رہی ہے جہنم کی صورت نظر آ رہی ہے غلامی ستم پر ستم ڈھا رہی ہے گلستاں نذرِ خزاں ہو رہے ہیں میرے دیس کے نوجواں سو رہے ہیں (نظم، میرے دیس کے نوجواں۔۔۔) یہ ساری نظم طعنوں کے تازیانوں سے بھری پڑ ی ہے۔وہ اجمالاً بتاتے ہیں کہ وطن تباہ ہو چکا، لیکن کسی کو کوئی احساسِ سود و زیاں ہے، نہ اس تباہی کا دکھ۔ بھوک ہے، فاقہ کشی ہے، غلامی ہے، محکومی ہے، لیکن دیس کے جواں ایسے سوئے ہیں کہ اٹھنا حشر کو معلوم ہوتا ہے۔ ساری صورت حال تفصیلاً بتانے کے بعد بالآخر وہ آخری تازیانہ استعمال کرتے ہیں اور ’غیرت‘ کا طعنہ دیتے ہیں۔۔۔قبائلی معاشرے کا سب سے بڑا طعنہ۔۔۔کارگر ہونے کے سو فیصد چانسز!! تمھیں غم کا دکھڑا سناؤں کہاں تک اشکوں کے موتی لٹاؤں کہاں تک کسی کو میں غیرت دلاؤں کہاں تک میں خونابہءِ دل بہاؤں کہاں تک میرے ساتھ کون و مکاں رو رہے ہیں میرے دیس کے نوجواں سو رہے ہیں (نظم، میرے دیس کے نوجواں۔۔۔) اس کے بعد ممکن ہی نہیں کہ کوئی ’باغیرت و باحیا‘ نوجوان سویا رہے اور اس آواز پہ لبیک نہ کہے۔ اور جوانی وہ سویا ہوا شیر ہے، جو ایک بار بیدار ہو جائے تو پھر اسے واپس عالم خوابیدگی میں لے جانا سہل نہیں ہوتا۔ جوانی کا شیر بیدار ہو جائے تو پھر یہ نچلا نہیں بیٹھتا۔ تب ہر دم الہٰ دین کے جن کی طرح اس کی زباں پہ یہ ورد جاری رہتا ہے کہ، ’’مجھے کام بتاؤ، میں کیا کروں، میں کس کو کھاؤں!‘‘ اور جوانی کے شیر کو کیا کام دینا ہے، اسے کیا کرنا چاہیے؟ ۔۔۔یہ گل خان کی شاعری سے بہتر کوئی بتا ہی نہیں سکتا۔ گل خان، پہلے نوجوانوں کو بیدار کرتے ہیں؛ اٹھو قوم کے نوجوانو اٹھو تم اٹھو دیس کے پاسبانو اٹھو تم مصائب نے گھیرا ہے قوم و وطن کو خزاں نے اجاڑا ہے اپنے چمن کو کسی نے لتاڑا ہے کوہ و دمن کو اٹھو قوم کے نوجوانو اٹھو تم اٹھو دیس کے پاسبانو اٹھو تم اور پھر آئندہ کا لائحہ عمل بتاتے ہیں کہ اٹھ کر انھیں کرنا کیا ہے؛ اٹھو اٹھ کے دورِ جہاں کو بدل دو زمیں کو ہلا دو، زماں کو بدل دو اٹھو اٹھ کے کون و مکاں کو بدل دو اٹھو قوم کے نوجوانو اٹھو تم یہ وہ لائحہ عمل ہے جو ہر عہد کے نوجوانوں کے لیے راہِ عمل ہے۔ اسے تو نوجوانی کا مینی فیسٹو قرار دے دینا چاہیے۔ پہلی ہی نصیحت دیکھئے؛’’دورِ جہاں کو بدل دو۔‘‘ ۔۔۔۔۔۔معروض و موجود سے بے اطمینانی؛ انقلاب کی شرطِ اولیں۔ تخلیقی عمل کی لازمی شرط بھی یہی ہے کہ جو رائج ہے، اس کی تقلید کی بجائے، اسے ڈھا دیا جائے، نیا تخلیق کیا جائے۔ نئی بات کی جائے۔ نیا عمل کیا جائے۔ زمانے کی رفتار کے ساتھ چلنے کی بجائے، زمانے کی رفتار بدلی جائے۔ سسٹم کا حصہ بننے کی بجائے سسٹم کو الٹ دیا جائے۔ ہر عہد کا معروض نوجوانوں کو نظام کی اصلاح سکھاتا ہے، نظام بدلنا نہیں۔ اصلاح میں اور بدل دینے میں جو لکیر بھر کا بنیادی فرق ہے، وہی تو انقلاب کا حقیقی درس ہے۔ اس لیے ہر عہد کے حکمران نظام سے ٹکر لینے والوں سے ڈرتے ہیں۔ نظام کا حصہ بننے والوں کے لیے سبھی راستے کھلے ہوتے ہیں، نظام بدل دینے کی جدوجہد کرنے والوں پہ زندگی حرام ہو جاتی ہے۔ ہر نظام ، کسی تارا مسیح کوبغاوت کے دروازے پہ چوکیدار لگا دیتا ہے کہ کوئی اس راہ کی جانب نہ جانے پائے، پھر بھی کچھ دیوانے اس راہ پر چل بھی پڑیں تواسے اس قدر پُرخار بنا دیا جاتا ہے کہ کوئی راہی آبلہ پائی کے بنا جا نہ پائے۔ اس کے باوجود ہر عہد اپنے وقت کا چے گویرا، اور بھگت سنگھ پیدا کر ہی لیتا ہے۔ اور گل خان نصیر جیسے شعرا کی شاعری ہی وہ بیج ہوتی ہے جس سے یہ باغی نسل جنم لیتی ہے۔ تبھی تو آمرانہ حکومتیں ایسی شاعری کی ’خاندانی منصوبہ بندی‘ کی ہر ممکن تدابیر کرتی ہیں۔ لیکن کسی قسم کے ’نظریاتی کنڈوم‘آج تک بغاوت کے بچوں کو جنم دینے سے روک نہ پائے۔ دوسری شرط دیکھئے؛’’زمیں کو ہلا دو، زماں کو بدل دو۔‘‘ زمین کو یا تو قدرتی زلزلہ ہلاتا ہے یا پھر انقلاب کا زلزلہ۔ انقلاب کا زلزلہ آ جائے تو دنیا کو ’جھنجھوڑ کے رکھ‘ دیتا ہے۔سو، زمیں کو ہلانے کا مطلب انقلاب سے جڑنا ہے۔ انقلابی جدوجہد سے جڑنا ہے۔یہ جدوجہد باریاب ہو گی تو زمانہ بدل جائے گا۔ وہ زمانہ جو ہم پہ صدیوں سے مسلط ہے۔استحصالی زمانہ، جبر و استبدادی زمانہ۔ جو محض دعاؤں اور بددعاؤں سے ، خالی خولی شاعری سے ، ادب سے نہیں بدلنے کا۔ اسے بدلنے کو اٹھنا ہوگا، یہ ازخود نہیں بدلے گا، اسے بدلنا ہوگا۔ اسی لیے شاعر نے کہا،’’اٹھو، اٹھ کے کون و مکاں کو بدل دو!‘‘۔۔۔ میرا محتاط خیال ہے کہ اس سے بڑی انقلابی بات شاید ہی شعرمیں کہیں کہی گئی ہو۔ ’کون و مکاں‘ کی اصطلاح زمانوں پہ محیط ہے۔ یہ مسلسل بے اطمینانی و بے چینی کا تقاضا کرتی ہے۔ گویا جو آج ہم بدلیں گے، آئندہ نسلوں کو اسے بھی بدلنا ہوگا۔ ہر عہد کو فانی ہو کر نئے عہد میں ڈھلنا ہوگا۔ کون و مکاں مسلسل تغیر میں رہیں ، یہی انقلاب کی حقیقی روح ہے۔ یہ حقیقی تخلیقیت ہے۔ تخلیق، انسان سے مسلسل نئے پن کا تقاضا کرتی ہے۔ تخلیق کار کے لیے اطمینان موت ہے۔ایک حقیقی تخلیق کار کو ہر پل کچھ نیا تخلیق کرنے پر مائل رہنا چاہیے۔ اور اس لیے لازم ہے کہ ’کون و مکاں‘ کو بدل دیا جائے۔یعنی ہر موجود بدل جائے، اور ’نیا پن‘ اس کی جگہ لے لے۔ نوجوانی کے بپھرے ہوئے شیر کے لیے ایک کارِ مسلسل۔۔۔انقلاب کی تکمیل کا عمل!!ع؛ ’’ہستی میں تغیر لازم ہے، تبدیلی سے گھبراؤ نہیں!‘‘ کیسا لافانی مصرعہ ہے!!۔ اسے ہماری جمودیافتہ سیاسی جماعتوں کے مینی فیسٹو کی اولین لائن ہونا چاہیے، جسے سیاسی کارکنوں کو صبح و شام دہراتے رہنا چاہیے۔ یہ ایک اور نظم جس کا عنوان ہی ہے؛’گھبراؤ نہیں‘، اسی خیال کا زبردست پھیلاؤ ہے۔ واضح طور پر اس نظم کا مخاطب نوجوان قاری ہی ہے۔ تبھی تو گل خان کا لہجہ اس قدر واضح طور پر تحمکانہ(مگر مشفقانہ) ہے۔ ذرا دیکھئے ہمارے بزرگ، نئی نسل کو درس کیا دے رہے ہیں؛ تعمیرِ جہانِ نو کے لیے یہ نقشِ کہن برباد کرو آموزشِ آدمِ نو کے لیے اک تازہ جہاں آباد کرو بوسیدہ، شکستہ قدروں کو پامال کرو، برباد کرو اک تازہ تصور لے کے اٹھو اور فکر و عمل آزاد کرو آقاؤں کے بندھن توڑ کے اب مزدور کا جیون شاد کرو مالک کے محل کی اینٹوں سے دہقان کا گھر آباد کرو اب لے کے اٹھو آئین نیا، دستورِ کہن برباد کرو اب رزم میں ہو یا بزم میں ہو، اک طرز نیا ایجاد کرو ایسی شاعری ریاستوں کے لیے ’زہرہلاہل‘ ثابت ہوتی ہے۔ اس لیے ایسی شاعری اور اس کا شاعر قید بامشقت کے حق دار قرار پاتے ہیں۔ یہ شاعری اگر اپنے مخاطبین میں نفوذ کر جائے تو استحصال اور استحصالیوں کا وجود ہی نہ رہے۔ اس بند کے تو ہر مصرعے پر ایک اسٹڈی سرکل ہو سکتا ہے۔ ’آموزشِ آدمِ نو‘ کی ترکیب پر ہی پوری ایک کلاس لی جا سکتی ہے۔ ’فکر وعمل کی آزادی‘ پہ تو ایک روزہ سیمینار منعقد کیا جا سکتا ہے۔ ’مزدور کا جیون شاد‘ کرنے اور’دہقان کا گھرآباد‘ کرنے تک ایک سیاسی زندگی گزاری جا سکتی ہے۔’دستورِ کہن کی بربادی‘ اور ایک ’نئے طرز کی ایجاد‘ ایک پوری تحریک کا مینو فیسٹو بن سکتی ہے۔ نوجوان ،گل خان نصیر کا مسلسل مخاطب رہتے ہیں۔مختلف مواقع پر وہ انھیں مختلف انداز میں، مختلف حیلے بہانوں سے جھنجوڑتے رہتے ہیں؛ اٹھو اے نوجوانو! اب عمل کا وقت آیا ہے یہ طفلانی تسلی اور یہ آہ و فغاں کب تک بھروسہ تم کو کرنا چاہیے اب زورِ بازو پر یہ لاحاصل حکایات اور یادِ رفتگاں کب تک گل خان نصیر کا عمومی تخاطب نوجوان ہیں، لیکن یہ بات واضح ہے کہ بلوچ نوجوان ان کا خاص الخاص ’ہدف‘ ہیں۔ انھیں وہ مسلسل اکساتے رہتے ہیں۔ ان تک اپنی بات پہنچانا، ان کے لیے ’پارٹی لائن‘ کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس حوالے سے گل خان نصیر کی نظم ’’اٹھ اے بلوچ نوجواں‘‘ کو تو بلوچ نوجوانوں کے نصاب کا لازمی حصہ ہونا چاہیے۔ یہ نظم ہر بلوچ نوجوان کو زبانی ازبر ہونی چاہیے۔ وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ جو بلوچ نوجوان دن میں ایک بار اس نظم کا ورد کر لے،’نظریاتی و فکری بدہضمی‘ سے محفوظ رہے گا۔ یہ نظم اس قدر آسان فہم، سادہ اور رواں ہے کہ اسے کسی تفہیم کی ضرورت ہی نہیں۔ میں محض اس خیال سے اسے یہاں درج نہیں کر رہا کہ نوجوان سہل پسندی سے محفوظ رہیں، اور خود گل خان کے مجموعہ کلام سے اسے ڈھونڈ کر پڑھ لیں۔بزرگوں سے سنا ہے کہ پیاسا خود کنویں تک چل کے جاتا ہے۔۔۔اور شکر خورے کو شکر مل ہی جاتی ہے۔(شکر جیسی میٹھی شاعری ہی تو ہے گل خان کی!!)