|

وقتِ اشاعت :   December 30 – 2015

پاکستان کی نصف سے زائد آبادی نوجوانوں پر مشتمل بتائی جاتی ہے۔جسے کسی بھی ملک کے لیے رحمت سمجھا جا سکتا ہے۔مگر ریاست اور حکومت کی نااہلی کے باعث یہ رحمت ،زحمت بنتی چلی جا رہی ہے۔ نوجوانی کی آمد، مسائل و متعلقات سے آگاہی تو دور کی بات اس بابت سرے سے مکالمے کا ہی فقدان ہے۔ آئیے بعض حوالوں سے اس اہم موضوع کے مختلف تناظرات اور پہلوؤں کو دیکھتے ہیں۔ جوانوں کی فکری تشویش بچہ جب جوانی اور نو جوانی کے راستہ میں قدم رکھتا ہے اس میں عاقلانہ تجزیہ و تحلیل اور سمجھنے و برداشت کرنے کی سوچ اور فکر پیدا ہوتی ہے۔ وہ بھی اس طرح کہ پھر اپنے بزرگوں کی کسی بات کو بھی دلیل کے بغیر قبول نہیں کرتا ،مائیں اپنے بچوں کی سر نوشت اور مستقبل کے متعلق بہت زیادہ پریشان ہیں ،کہ کہیں ان کا بچہ منحرف اور کجروی کا شکار نہ ہو جائے۔ بعض ماں باپ جوانوں کے سوالوں کے بارے میں ان کی شخصیت کا احترام ملحوظ رکھتے ہوئے منطقی اور عاقلانہ برتا ؤ کرنے کے بجائے کبھی کبھی برا سلوک کرتے ہیں اور ان کو خاموش کر دیتے ہیں ،بڑوں کی طرف سے اس طرح کا سلوک جو عام طور پر شفقت اور ہمدردی کی بناپر ہوتا ہے جوانوں کے لیے اپنی معرفت اور تلاش کی راہ میں مزید مشکلات کا باعث ہو جاتا ہے۔ وہ احساس کرتا ہے کہ والدین اس کو سمجھ نہیں سکتے یہ صورت حال جوانوں اور ان کے گھرانوں کے لیے مثبت رفتار اور برتاؤ کے لیے مضر ہے۔ حالاں کہ علم ’’روان شناسی ‘‘ میں ثابت ہو گیا ہے کہ تشویش رکھنا ،جستجو کرنے کی حس اور رفتار و کردار عقلوں اور نظریات میں غورو فکر کرنا بھی رشد و نمو کی تبدیلیوں میں سے ہی ہے، جو نو جوانوں کی معرفت اور عقائد میں فطری طور پر وجود میں آتی ہے اور یہ بات والد ین یا ساتھ میں رہنے والے دیگر لوگوں کی پریشانیوں کا باعث نہیں ہونی چاہیے ،تاکہ جوانوں کی ہویت (کہ وہ کیا ہیں )فکر اور عقائد ،تشکیل پانے کے لیے زمین فراہم ہو سکے۔ اس لیے کہ یہ دور نہایت حساس ،ہیجان انگیز ،عجیب اور خوشنما ،جسمانی، فکری، باطنی و روحانی تبدیلیوں کا دور ہے اور وہ بھی گذشتہ اور مزید نئے تجربوں کے ساتھ ، بہ موقع دوسروں سے جدا ہونے کا مرحلہ نیز مستقل مزاجی اور اپنی ہویت اور حقیقت کی تلاش کا مرحلہ ہے۔ لہٰذا ان لوگوں کے لیے جو اپنے آپ کو پانا (یعنی اپنی حقیقت تک پہنچنا )چاہتے ہیں اور اپنے عقائد کو تقلیدی حالت سے اصلی عقیدوں میں تبدیل کرنے کے خواہش مند ہیں،زندگی کے مہم مسائل میں شک کرنا وسوسہ ہونا ،تنقید کرنا کوئی عجیب بات نہیں ہے بلکہ رشد و نمو کے دوران معمولی و عادی تبدیلی ہے۔ رشد و نمو کے اس مرحلہ میں درج ذیل مسائل پر توجہ دینا بہت ہی مناسب اور بہتر ہے : نوجوانی کا دور بچپنا، کمسنی اور بڑھاپے کا درمیانی دور ہے جس میں نہ وہ بچہ رہتا ہے کہ بڑوں کی ہر بات کو بے چوں و چرا مان لے اور نہ ہی سن رسیدہ ہے جو اکثر تبدیلیوں کو اپنی گذشتہ معلومات کے ذخیرہ اور عاقلانہ تجزیہ و تحلیل کرکے تحقیق اور چھان بین کر سکے ،بلکہ وہ نوجوان ہے۔ علم روان شناسی کے ماہرین (سائیکالوجسٹ)کے مطابق نوجوان شناخت و معرفت کے لحاظ سے اخذ کرنے والے مسائل جیسے مذہب ،اخلاق اور مختلف زندگیوں کے طور طریقو ں کو چھان بین کرنے کے بعد منظم طریقے سے اچھے برے کی تشخیص دے سکتا ہے۔ اس کے ذہن میں نظم و ترتیب کا لحاظ رکھتے ہوئے استدلال کیا جائے جس کے ذریعہ ایک مسئلہ کو حل کرنے کے لیے مختلف راہ حل میں مقایسہ و موازنہ کرنے کا امکان اورمہم ترین جواب کو منتخب کرنے کا زینہ فراہم ہو جائے ،فکر کے مضمون میں وسعت اور گہرائی آجائے لیکن تمام فکر ی پیشرفت اور تجزیہ و تحلیل کی تشکیل اور فیصلہ کی صلاحیت کے باوجود فکری قدرت اور مضبوطی کے لحاظ سے ابھی بھی بچپن اور بزرگی کے درمیانی مرحلہ سے گذر رہا ہے۔ اس کا فہم و ادراک اور فیصلہ کی طاقت اس قدر وسیع اور عمیق نہیں ہوتی ہے جو نرم اور مائل ہونے کو قبول کھلی ہوئی ،وسیع النظر اور دور جدید راہوں سے سازگار اور مناسب ہو جائے دوسرے لفظو ں میں رشد یافتہ نوجوان میں اس قدر پختگی نہیں ہوتی کہ اپنے استدلال کو ذاتی حیثیت دے سکے اور پیچیدہ مسائل کو حل کرنے کے لیے اپنے ذاتی تجربات اور اپنی ذاتی روان شناسی (سائیکالوجی )کے نظام (عقل و خرد ،تحریک اچھائیاں ،معاشرے ،ثقافت اور تاریخ میں حاصل کردہ معلومات )سے مدد حاصل کر لے لہٰذا زندگی کے بعض اصولوں میں شک و تردید کرنا ان کی مزید اور عمیق شناخت و معرفت کا مقدمہ ہے اور نگران و پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے ۔ جوانی کی شروعات اس لحاظ سے بہت اہم ہے کہ یہ اپنی پہچان کا مرحلہ ہے ۔اس زمانے میں اپنی پہچان کہ( میں کون ہوں )کے متعلق بنیادی سوال پیش آتے ہیں، ان سوالوں کو حل ہونا چاہیے۔ شخص (بذات ) خود ایسی بامعنی شخصیت بنائے کہ گزشتہ تعلقات و روابط کے علاوہ مستقبل کو بھی حیثیت دے۔ اریکسن کہتا ہے :شخص کی پہچان (ہویت ) کی تشکیل کو قبول کرنا کاملاًدشوار اور اضطراب آور کام ہے جس میں نوجوان کو مختلف آئڈیا لوجی (نظریات) اور نقوش میں سے مناسب ترین نقوش اور نظریات کو انتخاب کرنے کا تجربہ اور آزمائش کرنا چاہیے جو لوگ اپنی قوی ہویت اور پہچان کے احساس کے ساتھ اس مرحلہ سے نکلتے ہیں وہ لوگ اپنے اوپر اطمینان اور خود اعتمادی کی دولت سے حاصل شدہ ایک وسیع احساس کے ساتھ آنے والی بڑی عمر کا سامنا کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ اس عمر میں سماجی گروپ کہ نوجوان ان ہی کے جیسا ہونے کی کوشش کرتا ہے (یعنی ان کی تقلید کرتا ہے ) بہت مؤثر ہوتے ہیں ۔یہ گروپ شخص کی مطلوبہ ہویت اور شناخت کے نشوونما میں اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ خودکو پانے اور حقیقت کی راہ پر گامزن ہونے کے لیے نوجوان کے وجود میں بنیادی عقائد کے راسخ ہونے کے لیے اور تربیت کے لحاظ سے قانون پر عمل کرنے والوں میں شمار ہونے کے لیے درج ذیل طریقوں پر عمل کرتا ہے۔ تعلیم حاصل کرنا : جوان اورنوجوان ایک اصلی وظیفہ کی صورت میں علم حاصل کرتا ہے، تحصیل علم اور علم میں اضافہ قیمتی ترین گوہریعنی درّبے بہا جس کے حاصل کرنے کے بعد ہدایت کی راہ میں استفادہ کیا جاسکتا ہے ،زندگی میں طاقت کا بہترین ذریعہ علم ہے۔ فکر کرنا : علم حاصل کرنا یعنی دوسروں کی فکر سے استفادہ کرنا ہے جو کتاب وغیرہ کے صفحات پر تحریر ہے لیکن زندگی کے مراحل اور مختلف موقعوں پر ذاتی فکر یہی ہے جو راستہ اور راہ حل دکھا سکتی ہے ،دوسرے لفظوں میں اگر چہ تعلیم حاصل کرنے سے انسان کے سوچنے کی قوت میں اضافہ ہوتا ہے یعنی بالیدگی آتی ہے لیکن ہر فرصت اور نئے موقع اور موڑ پر سوچنا اور فکر کرنا ہی مناسب راہنما ہے جس کے ذریعہ حادثات اور مشکلات کا بہتر طور پر تجزیہ تحلیل کر سکتا ہے اور مناسب طریقے سے ان کا سامنا کر سکتا ہے۔ مثبت کام : اچھے کام انجام دینا ہمیشہ شخص کی موقعیت کی تقویت اور آسانی کا سبب ہوتاہے وہ بھی اسی طرح کہ علم کے تمام سر چشموں میں نیک اعمال کو رشد وکمال اور انسانوں میں پوشیدہ استعداد کی شکوفائی کے عنوان سے پہچان کرائی جاتی ہے۔ نوجوانوں کی سماجی ذمہ داریاں ہمہ جہتی خود سازی:علمی، اخلاقی اور جسمانی خود سازی وہ توقعات ہیں جو نوجوانوں سے کی جا سکتی ہیں اور خود نوجوانوں کو بھی اس خود سازی کی احتیاج ہے۔ نوجوان کو چاہیے کہ خود فیصلہ کرے اور اپنی زمین پر اپنی پسند کا بیج بوئے، اپنی ثقافتی دولت اور جمع پونجی سے استفادہ کرے، اپنے ارادے کو بروئے کار لائے، اپنی شخصیت اور اپنی خود مختاری کو اہمیت دے۔ دوسروں کی تقلید اور اغیار کے آئیڈیل کی نقل نہ کرے۔نوجوانوں کو تقلید کا اسیر نہیں ہونا چاہیے۔ جس روش اور جس راہ پر چل کر ان کا ذہن، ان کا ارادہ اور جذبہ ایمانی تقویت پاتا ہو اور جس پر چل کر وہ اخلاقی خوبیوں سے آراستہ ہو سکتے ہوں، اسی راستے کے بارے میں انہیں فکر کرنا چاہیے۔ ایسی صورت میں نوجوان اس ستون میں تبدیل ہو جائے گا جس پر ملک کی تمدنی زندگی اور اس قوم کی حقیقی تہذیب کا تکیہ ہے۔ آگاہانہ احساسِ ذمہ داری:نوجوانوں کے لیے جو چیزیں انتہائی اہمیت کی حامل ہیں ان میں ایک آگاہانہ احساس ذمہ داری ہے۔ نوجوان میں توانائی اور انرجی بھری ہوئی ہوتی ہے اور وہ حساس بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ احساس ذمہ داری سے مراد یہ ہے کہ انسان جس طرح زندگی، معیشت، روزگار، شادی بیاہ اور اپنی ذات سے متعلق دیگر چیزوں کی فکر میں رہتا ہے، ان اہداف و مقاصد کے لیے بھی فکرمند رہے جو اس کی ذاتی زندگی سے بالاتر ہیں، وہ اہداف جو صرف اس کی ذات تک محدود نہیں ہیں بلکہ ایک گروہ ، ایک قوم ، تاریخ اور تمام انسانیت سے متعلق ہیں۔انسان کے اندر ان اہداف کے تعلق سے بھی احساس ذمہ داری، فرض شناسی اور پابندی ہونا چاہیے۔ کوئی بھی انسان اور کوئی بھی معاشرہ اس وقت تک سعادت و خوش بختی کی بلند چوٹیوں پر نہیں پہنچ سکتا جب تک اس کے اندر یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی پیدا نہ ہو جائے۔ یہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی آگاہانہ انداز میں ہونی چاہیے، انسان کو پتہ ہونا چاہیے کہ وہ کس ہدف و مقصد کی جانب بڑھ رہا ہے اور راستے میں کون سی رکاوٹیں موجود ہیں۔ اسی کو آگاہانہ احساس ذمہ داری اور فرض شناسی کہتے ہیں۔معاشرے کے سلسلے میں نوجوانوں کی حساسیت:نوجوان اپنے معاشرے کے امور کے سلسلے میں بہت حساس ہوتا ہے۔ معاشرے یعنی اس فضا میں جس میں نوجوان سانسیں لے رہا ہے اگر تفریق و امتیاز ہو تو وہ آزردہ خاطر اور رنجیدہ ہوتا ہے، اگر گھر کے اندر تفریق نظر آئے تو نوجوان کبیدہ خاطر ہو جاتا ہے، اگر اسکول اور کلاس کے اندر اسے تفریق و امتیاز دکھائی دیتا ہے تو اس دلی تکلیف پہنچتی ہے۔ بعض افراد ایسے بھی ہیں جو ان سماجی برائیوں اور آفتوں کے سلسلے میں بے حسی کا شکار ہو گئے ہیں یا اپنی ذاتی زندگی اور امور میں مستغرق ہیں، یا پھر دیکھتے دیکھتے اسی کے عادی ہو گئے ہیں۔ نوجوان ایسا نہیں ہوتا۔ نوجوان جذباتی ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں انصاف و مساوات نہ ہو تفریق و امتیاز ہو تو نوجوان کو دکھ ہوتا ہے۔ اگر معاشرے میں بد عنوانیاں پھیل جائیں تو وہ نوجوان جو اپنے ملک کے وقار کا متمنی ہے یقیناًآزردہ خاطر ہوگا۔ اگر کہیں قومی جوش و جذبے کا معاملہ ہو تو وہاں نوجوانوں کی فرض شناسی قابل دید ہوتی ہے۔ ذمہ داریوں سے نمٹنے کے آلے تدبر اور غور و فکر کی عادت:ایک مجاہد نوجوان کے لیے جو چیزیں لازمی ہیں ان میں تعلیم کا حصول، سستی و کاہلی کا مقابلہ، گومگو کی کیفیت سے چھٹکارا اور غور و فکر کی عادت ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ مختلف امور میں غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، یہ بھی ایک طرح کا جہاد ہے۔ ہر انسان بالخصوص نوجوان نسل کے لیے بہت بڑے خطرات میں سے ایک یہ ہے کہ واقعات و حادثات اور معاشرے کی سطح پر رونما ہونے والی تبدیلیوں سے لا تعلق بنا رہے۔ نوجوانوں کے افکار و نظریات کو صحیح سمت و رخ عطا کرنا بہت بڑی ذمہ داری ہے اور بعض افراد ہیں جن کے دوش پر یہ فریضہ ہے۔ تاہم اس کے ساتھ ہی نوجوانوں کا بھی یہ فریضہ ہے کہ مختلف امور کے سلسلے میں غور و فکر کریں اور سوچ سمجھ کر اپنی راہ پر آگے بڑھیں۔ چھوٹے بڑے ہر واقعے کے سلسلے میں تدبر اور غور و فکر کرنے کی عادت ڈالیں، مطالعہ کریں، جائزہ لیں۔ اگر کسی نے غور و فکر اور تدبر کی اپنی عادت ڈال لی اور اہل فکر و نظر میں شامل ہو گیا تو دوسروں کے مشوروں سے بھی استفادہ کرے گا۔ جو چیزیں غور و فکر سے انسان کو روک دیتی ہیں ان میں بد عنوانی اور مایوسی کے دام میں پھنس جانا ہے۔ بنابریں نوجوانوں کا ایک بڑا جہاد مایوسی اور بد عنوانی کے علل و اسباب کا ازالہ کرنا ہے۔ نوجوانو ں کو چاہیے کہ اپنے طبقے کے اندر تلاش و جستجو، امید و بلند ہمتی، خود اعتمادی کے جذبے اور اس خیال کو کہ ” ہم کچھ بھی کر سکتے ہیں” تقویت پہنچائیں۔ عربوں کے یہاں ایک کہاوت ہے جس کا مفہوم ہے کہ ایک چیز دائرہ امکان میں ہے، یہ ہے کہ وہ چیز واقع ہو جائے۔ اس بات کی سب سے بڑی دلیل کہ نوجوان نسل سائنس و ٹکنالوجی کے میدان میں نئی ایجادات کر سکتی ہے، علوم کی سرحدوں سے گزر سکتی اور اس کے آگے جا سکتی ہے، یہ ہے کہ نوجوان نسل عملی طور پر ایسا کرکے دکھائے۔ علمی مساعی:نوجوانوں کو چاہیے کہ حصول علم کی راہ میں اور اپنی علمی توانائیاں بڑھانے کے سلسلے میں ہرگز کوئی کوتاہی نہ کریں۔ جو کامیابیاں حاصل کر چکے ہیں اس پر قناعت نہ کریں بلکہ اسے پہلا قدم ہی مانیں۔ نوجوان کوہ پیما کی مانند ہوتا ہے جسے چوٹی پر پہنچ جانے تک آگے بڑھنا ہی رہتا ہے۔ راستے کے شروعاتی پیچ و خم میں بسا اوقات آدمی کو پسینے چھوٹنے لگتے ہیں۔ ابتدائی کامیابیوں پر قانع نہیں ہونا چاہیے۔ نظریں چوٹی پر ٹکی ہونی چاہئیں۔ محنت و مشقت کرنی چاہیے، دشواریوں اور سختیوں کو برداشت کرنا چاہیے تاکہ چوٹی کو فتح کیا جا سکے۔ وقت کا بھرپور استعمال:نوجوانوں کو چاہیے کہ وقت کا بہترین استعمال کریں۔ البتہ یہ چیز وقت کو منظم کیے بغیر ممکن نہیں ہے۔ انہیں چاہیے کہ بیٹھ کر اپنی سمجھ سے اپنا نظام الاوقات تیار کریں۔ نظام الاوقات کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کا کوئی عمومی نمونہ نہیں ہے کہ میں کہوں کہ سارے لوگ اسی ایک نظام الاوقات کے مطابق کام کریں۔ ہر انسان اپنی عمر کے لحاظ سے، اپنی گھریلو زندگی کی مصروفیات کے لحاظ سے، اپنے وسائل کے لحاظ سے، اس شہر کے لحاظ سے جہاں وہ زندگی گزار رہا ہے، ممکن ہے کہ ایک مخصوص نظام الاوقات تیار کرے۔ نظام الاوقات ہر ایک کو تیار کرنا چاہیے اور اس کے ذریعے اپنے وقت کا بہترین استعمال کرنا چاہیے۔ مطالعے کی عادت:کتابوں کا مطالعہ کرنا ایسی تفریح ہے جس سے انسان کی فکری اور روحانی صلاحیتوں میں غیر معمولی ترقی ہوتی ہے اور اگر مطالعہ ذوق و شوق کے ہمراہ ہو تو بہت ہی زیادہ لذت بخش اور ترو تازگی کا سبب بنتاہے۔حکمت کی باتیں مطالعہ اور دانشوروں کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے حاصل ہوتی ہیں جس سے روح کو تازگی حاصل ہوتی ہے اور فکری صلاحیتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ نوجوانوں کو چاہیے کہ اپنے فاضل وقت کا کچھ حصہ مفید کتابوں کے مطالعہ میں گذاریں۔ اگر ابتدامیں کوئی خاص انسیت محسوس نہ ہوتو بار بار کی تکرار اور مفید کتابوں کے انتخاب اور مطالعہ کے ذریعہ دلچسپی پیدا کی جا سکتی ہے۔ اگرہم جوان نسل کو مفید کتابوں کے مطالعہ کا عادی بنا سکیں تو جوانوں کی فکری اور عقلی ترقی کی راہ میں ایک اہم قدم ہو گا۔ وہ لوگ جو ایک طرح کا کام کرتے کرتے تھک جاتے ہیں وہ بھی مطالعہ کے ذریعہ تازگی حاصل کر سکتے ہیں، اس کے علاوہ اپنی فکری صلاحیتوں میں اضافہ بھی کر سکتے ہیں اور اس طرح اپنی علمی و فکری استعداد میں بھی اضافہ کر سکتے ہیں۔ (اس تحریر کے لیے بنیادی حوالے نوجوانوں سے متعلق ویب سائٹ www.abp-youth.org سے لیے گئے ہیں)۔