|

وقتِ اشاعت :   April 13 – 2016

ہر ملک اور ریاست میں مرکز پرست رویّے اپنی بالا دستی چاہتے ہیں ۔ تسلط کی مضبوطی ہی ان کی جمع پونجی میں اضافے کا باعث ہے ۔ خطے کی سلامتی اور ریاست کی طاقت کیلئے یہ ایک ضروری امر ہے کہ مرکز مضبوط اور مستحکم ہو لیکن یہ استحکام ملک /ریاست کی دیگر اقوام اور ثقافتوں کیلئے ان کے وسائل پر قبضہ ثابت نہ ہو ۔ وسائل پر غیر منصفانہ تقسیم محرومیوں کو جنم دیتی ہے اور یہی محرمیاں بغاوتوں پر اقوام کو اکساتی ہیں ۔ فطری طور پر متعد د اقوام مسلح جدو جہد کے ذریعے اپنے حقوق حاصل کرنے کی کوشش کرتی ہیں ۔ مسلح جدو جہد کے ذریعے یقیناًدوسروں کے حقوق غصب ہوتے ہیں جو اچھا شگون نہیں ہے ۔ لیکن بسا اوقات مرکز پرست طاقت کے ظالمانہ رویّے اقوام کو مسلح جدو جہد پر اکساتے اور مجبور کرتے ہیں ۔ سقوطِ ڈھاکہ نے پاکستان کو دولخت کیا جس کی بنیادی وجہ وسائل پر مرکز کا غیر قانونی قبضہ اور’’ بنگلہ‘‘ ثقافت پر ظالمانہ یلغار تھی ۔ اس صورت میں بنگلہ بولنے والوں کو اپنی بقاء کی جنگ لڑنا پڑی ۔ نتیجہ ۔۔۔۔؟ نتیجہ سب کے سامنے ہے ۔ سقوط ڈھاکہ نے پوری دنیا میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر سوالیہ نشان چھوڑ دیئے تھے ۔ اور یہ داغ تا حال ہماری اسٹیبلشمنٹ نہیں دھو سکی ۔ پاکستان سے بنگلہ دیش کی علیٰحد گی کو قدرے بھارتی سازش سے بھی الگ نہیں کیا جا سکتا ۔ جب کوئی بھی ریاست اپنے شہریوں کی شناخت مٹانے لگتی ہے ۔ یا ان کے ادبی، ثقافتی ، علمی اور مالی و معاشی وسائل پر قبضہ کرنے لگتی ہے ۔ تو ردِ عمل میں بقاء کی جدو جہد کا عمل شروع ہو جاتا ہے ۔ تاریخ میں تو یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ یہ جدو جہد مسلح جد و جہد میں بھی تبدیل ہو جاتی ہے ۔ اس لئے ضروری ہے کہ قومیتی جد و جہد کا ادراک ریاستی ادارے بر وقت کر لیں تو بہتر ورنہ اس ضمن میں اگر ضروری فیصلے نہ کیے گئے تو معاملہ خطرناک انداز میں پیش آسکتا ہے ۔ یہاں یہ ذکر بھی ضروری ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کیلئے بھاڑے کا کام کرنے والے کچھ لوگ بھی قومیتی تحریکوں اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان نقصان کا باعث بنتے ہیں ۔ اس حوالے سے سوشل میڈیا پر کچھ لوگ متحرک نظر آر ہے ہیں جو بظاہر تو قوم پرست ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں ۔ مگر در اصل یہ عناصر اسٹیبلشمنٹ کے اشاروں پر ترقی پسند قوم پرست دانشوروں کی کردار کشی کا عمل سر انجام دیتے رہتے ہیں تا کہ اس تحریک سے عقل و دانش سے مالا مال ہستیاں دلبر داشتہ ہوتیہوئے دستبردار ہو کر گوشہ نشیں ہو جائیں یا دھرتی کے حقوق اور وسائل کی سلبی میں مرکز پرست لابی کے معاون رہیں ۔ اگر دھرتی زادے اوپرے اور غیبی بیج پہچان لیں تو وہ دن دور نہیں جب یہ قومیتی تحریکیں کامیابی سے ہمکنار ہو جائیں ۔ سرائیکی قومیتی تحریک کو جس انداز سے چلایا جا رہا ہے ۔ اطمینان بخش عمل ہے کیونکہ اس میں تشدد کا عنصر موجود نہیں ہے ۔ لیکن یہاں بھی ایسے’’ گھس بیٹھیے ‘‘موجود ہیں جو اس نظری، فکری اور قومیتی تحریک کو نقصان پہنچانے کے عمل میں پیش پیش ہیں ۔ یہ لوگ شاید بلکہ یقینی طور پر غیروں کا ایجنڈا لے کر اس صف میں داخل ہو گئے ہیں ۔ جن کی سر کوبی وقت کی ضرورت ہے ۔ اگر اسی طرح انہیں ایوارڈز سے نوازا جاتا رہا تو سرائیکی دھرتی اور سرائیکی ثقافت سے تعصب رکھنے والی مرکز پرست لابی کو مضبوط دلیل فراہم ہو جائے گی کہ یہ ’’ گھس بیٹھیے‘ معیار کا درجہ رکھتے ہیں ۔ کل کلاں ان بوز نہ نما ء قوم پرستوں کو مرکز انعام و اکرام سے نواز دے گا کہ یہ اہل سرائیکی میں انتشار و خلفشار کا بیج بونے میں کامیاب ہوئے۔ چونکہ ظہور دھریجہ ایک عظیم دھرتی زادے ہیں ۔ انہوں نے عالمی سطح پر سرائیکی کا مقدمہ پیش کیا اس لئے ان کا دلی احترام کرتاہوں ’’ ایرے غیرے‘‘ اور ’’ صغیرے وغیرہ ‘‘ کو ایوارڈ نوازنے سے قبل ایک بار ضرور سوچیں اور ان کی خدمات اور منطق پر ضرور نظر دوڑا لیں ۔ بات کیا تھی۔۔۔؟ محض تنقید برائے اصلاح ۔۔ مگر اس ’’ایرے غیرے ‘‘ نے تو آسمان سر پر ٹھا لیا ۔ جس طرح انڈہ دینے والی مرغی پانچ روپے کاا نڈہ دے کر چیخنے چلانے لگتی ہے ۔ ایسے کر ائے کے قاتل سرائیکی تحریک کے پر امن فلسفے کا قتل کر رہے ہیں اور باہم تصادم کا باعث بن رہے ہیں ۔