|

وقتِ اشاعت :   April 30 – 2016

عرب لکھاری خلیل جبران نے کہا تھا کہ تمام جانداروں کے بچوں کے لئے پناہ گاہیں موجود ہیں صرف انسان کا بچہ بے سہارہ ہے۔ اِس کے پاس نہ تو غار ہے اور نہ ہی گھونسلہ، پاکستان کی ریاستی مشینری کے اندر صرف بلوچ ہی بے بس و بے سہارا ہے خلیل جبران کے انسان کے بچے کی طرح ،غیر تو اس کے سرے سے تھے ہی نہیں اب میرٹ اور ایمر جنسی کے بعد اس کا اپنا بھی کوئی اپنا نہیں رہا ۔ بے روزگار ہے تو روٹی کا خوف، روزگار کی تلاش میں ہے ،عزت نفس کا خوف اور روزگارمیں، کرسی کا خوف۔ عیاں ہے کہ اتنے خوف میں آزادی (ذہنی، جسمانی، معاشی، سیاسی یا سماجی) کو نسا باقی رہ پاتا ہے۔ فرانزفینن نے ٹھیک کہا ہے کہ آباد کار مقامی افراد کے اندر کئی آباد کار پیدا کر دیتا ہے جس کا مقامی آبادی کو نہ شعور ہوتا ہے اور نہ ہی احساس وادراک۔ نیلسن منڈیلا نے کہا تھا کہ غلامی کی بدترین شکل وہی ہوتی ہے جب غلام اپنی غلامی پر فخر محسوس کرے۔ ظاہر ہے کہ لارڈمکالے کا نصاب اور ڈوگر معلوماتی کتابیں پڑھ کر بیوکریٹس خصوصی طور پر بلوچ بیوکریٹس کو کونسا سارتر کا فلسفہ خودمتعینی رکھنا ہے۔ بقول اکبر الہ آبادی ،بی اے کیا، نوکری کی اور مر گئے۔ بات فینن کی ہے کہ آباد کار ہر مقامی شخص کے اندر سینکڑوں آباد کار پیدا کر دیتا ہے۔لیکن اِن مقامی افراد کے اندر یہ آباد کار صرف پیدا نہیں ہوتے بلکہ آباد ہوتے ہیں، پرورش پاتے ہیں اور کچھ تو خوشحال بھی بن جاتے ہیں ایک بیچارے مقامی افراد کے اندر موجود سینکڑوں آباد کار اُسے کیسے محسوس ہونے دیتے ہیں کہ ان کے درمیان وہ مقامی ’’شخصیت،، کا کیا بنا؟ ایک سال پہلے کچھ بیوروکریٹس کے ساتھ ائیرپورٹ روڈ جانا ہوا تو سب مجھ ( ماسٹر) کوطعنے دینے لگے’’یہ فرق ہوتا ہے سریاب روڑ اور ’’ائیرپورٹ روڑ کا ،،( جیسے ائیرپورٹ روڈ ان کا اور سریاب روڑ میری وراثتی جاگیرہو) دراصل وہ ائیرپورٹ روڑ پہ لگے ان اسٹریٹ لائٹس کی طرف اشارہ کر رہے تھے جو سولر سسٹم کی مدد سے نئے نئے نصب کیے گئے تھے۔ دوست نے کہا’’ اگر یہ سریاب روڑ پر ہوتے،، تو دوسرے دن سب ان کے بیٹریاں اٹھاکرلے جاتے ،ائیرپورٹ ورڑ پر لگے ہیں کہ اب تک محفوظ ہیں۔،، میں نے جواب دیا ’’سریاب والے بچے تو نہیں چراتے! بیٹری کی خبرنہیں،، اوربازار سے لے آئیں گے گر ٹوٹ گیا تیرے جام عجم سے میرا جام سفال اچھا ہے اس بات کو دوسال بیت چکے ہیں اب ایک ہفتے پہلے (22اپریل) کو ائیرپورٹ سے کسی کو لانے کا اتفاق ہوا تو راستے میں دیکھا کہ ایک سال کے اندر وہ تمام بلبس بیٹریوں اور سولر سسٹم سمیت غائب ہیں اگر ایک کھمبے پر ایک نظرآتا تو میں قسم نہ کھاتا۔ سڑک پر جاتے ہوئے مجھے اپنا وہ جملہ یاد آیاکہ’’سریاب والے بچے تو نہیں چراتے،، اس دن انھوں نے ایک اور بات بھی کی تھی کہ اسی لئے سریاب روڑپر آئی ٹی اور وومن یونیورسٹی کی بسیں طلبا اور طالبات اٹھانے نہیں جاتیں۔ میں نے از خود اخذکیا کہ شاید سریاب والوں نے ان کو کبھی جلایا یانقصان پہنچایا ہو گا۔ لیکن پھر ایک دن آئی ٹی یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے بتایا کہ سریاب کی طرف ان دونوں یونیورسٹیوں نے کبھی سروس ہی شروع نہیں کی تو نقصان پہنچانے کااحتمال کیونکر ہو۔ میں نے طالب علم سے پوچھا کہ ان یونیورسٹیوں کے بسوں کو کبھی کہیں نقصان پہنچاہے؟،، تو انھوں نے جواب دیا کہ ’’ دو بسیں پشتون آباد میں جلائی گئی ہیں اور تین بسیں علمدار روڑ پر ۔۔۔لیکن لیکن یہ وہاں پر اب بھی بس سروسز دے رہی ہیں۔۔۔۔۔؟،،میں سمجھ گیا یہ بچہ اب تک ڈوگر کی کتابیں رٹنے سے قاصر رہا ہے اور اس نے اب تک ڈی ایم جی اور سی ایس پی ٹریننگ حاصل نہیں کی ہے۔