|

وقتِ اشاعت :   January 24 – 2017

دن بھر کی مصروفیات کے بعدانسان کا شام کوواپس گھر لوٹنا ،کچھ دیر ٹیلی وژن کے سامنے بیٹھ کر پانامہ لیکس اور دیگر خبریں ،صحافتی تجزیے سننا ،اخبارات کی شہ سرخیوں کو بمعہ کالم ایک نظر دیکھنا اور قریب بیٹھے ہوئے اپنے بچوں کو ہوم ورک کروانا کسی حد تک بورنگ مگر دلچسپ معمول ہے۔ تب ایک کپ چائے کی عدم دستیا بی ان تمام کاموں کا مزہ کر کرا کر دیتا ہے۔ چائے بنانے کے لیے گیس کی ضرورت ہوتی ہے۔سوئی میں آجکل گیس کی لوڈ شیڈنگ ہے۔رات آٹھ بجے سے لیکر صبح چھ بجے تک صبح آٹھ بجے سے لیکر دوپہر گیارہ بجے تک اور سہ پہر تین بجے سے لیکر شام چھ بجے تک ان اوقات میں گیس بند رہتی ہے یعنی سوئی کے عوام کو اس طرح گیس فراہم کی جا تی ہے۔ یہ مہربانی پی پی ایل کمپنی کی طرف سے کی جارہی ہے۔جبکہ دوسری طرف میڈیا پر سی پیک کے حوالے سے بلوچستان کی تقدیربدلی جارہی ہے ۔تقدیر بدل جاتی ہے دعاؤں کے اثر سے ۔بلو چستان کی تقدیر کو اب شایددعاؤں کے بجائے سی پیک کی ضرورت ہے۔سی پیک کی بلوچستان میں کنٹری بیوشن کتنی ہے اس پر میں اپنے گزشتہ کالم میں لکھ چکاہوں۔ اب آتے ہیں اصل موضوع کی طرف پاکستان میں پہلی بار قدرتی گیس 1952 میں سوئی بلوچستان کے مقام پر دریافت کی گئی۔گیس کی پہلی ٹرانسمیشن لائن اسلام آباد پہنچائی گئی ،اسلام آباد میں اس وقت گیس کے چولہے دن رات بغیر تعطل کھلے رہتے۔کپڑے دھونے کے بعد اسی گیس پر ہی سکھائے جاتے تھے۔سوئی سے دریافت ہونے والی یہ گیس پاکستان کی چھیاسٹھ فیصد ایندھن کی ضروریات پوری کرتی تھی اب یہ شرح چوالیس فیصد ہے ۔ گیس کی دریافت کے وقت علاقائی رہنماؤں اور پی پی ایل کے مابین یہ معاہدہ ہوا تھا کہ سوئی کے عوام کو پانی ،گیس اور بجلی کی فراہمی پی پی ایل کمپنی کی ذمہ داری ہو گی۔اب پی پی ایل کمپنی اس ذمہ داری کو بار گراں سمجھ کراپنے کندھوں سے پھینکنا چا ہتا ہے جس کے لیے وہ مختلف حیلے بہانے تلاش رہا ہے ۔سوئی ایک ریتیلا میدانی علاقہ ہے اور ساٹھ مربع کلو میٹر دور تک پانی کا کوئی نام ونشان نہیں۔سوئی میں پانی بذریعہ پی پی ایل گڈو(سندھ) سے لایا جاتا ہے پہلے پانی پی پی ایل فیلڈمیں آتا ہے اور اسکے بعدعوام تک پہنچایا جاتا ہے ۔پچھلی گرمیوں میں بالخصوص ماہ رمضان میں پی پی ایل صاحب نے یہ کہہ کر پانی فراہم کرنا میری ذمہ داری نہیں پانی کی ترسیل بھی کم کر دی جس سے عوام کا جینا مشکل ہوگیا تھا ۔پانی کی بندش ایک ایسے وقت میں کی گئی تھی جب سورج آگ برسا رہا تھا ۔پھر ایف سی سوئی رائفلز نے عوام کے لیے پانی کا بندوبست کیا جس سے عوام ان کے شکر گزار ہیں۔ در حقیقت پی پی ایل کمپنی مقامی لوگوں کو سوئی سے نکالنے کے درپے ہے تا کہ عوام نقل مقانی کرنے پر مجبور ہو۔جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کے دور حکومت میں ایک مقامی وڈیرے کو دو ارب روپے کی پیشکش بھی کی گئی تھی کہ مقامی آبادی کو کسی طرح سوئی سے سہری آباد منتقل کیا جائے مگر ایسا نہ ہو سکاکیونکہ عوام الناس کو بخوبی یہ علم ہے جو پی پی ایل سوئی میں پانی، بجلی اور گیس فراہم نہیں کررہی، وہ کمپنی سہری آبادمیں بنیادی سہولتوں کی بارش کیونکر برسائے گا۔جب کبھی حکام بالا سے ان محرومیوں کی شکایت کی گئی تو جواب میں پی پی ایل کمپنی مجنوں بن کر کہتا ہے کہ سائیں میں نے تو اپنی رعیت(سوئی کے عوام)کے لیے تو دودھ اور شہد کی نہریں جاری کی تھیں مگر عوام الناس سے وہ نہریں سنبھالی نہیں گئیں۔وزیر داخلہ بلوچستان جناب سرفرازاحمد بگٹی نے اعلان کیاکہ وہ سوئی کو ماڈل سٹی بنائیں گے اور سوئی میں سیاسی گہماگہمی بھی شروع ہو چکی ہے۔میر طارق مسوری بگٹی کی سوئی میں آمدبھی اسی سیاسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔وہ سوئی میں2018 کے الیکشن کے لیے سیاسی میدان بنایا جارہا ہے۔ ہر سیاستدان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ الیکشن میں کامیابی حاصل کرے مگر اس مرتبہ جیت اس سیاستدان کی ہو گی جو سوئی کے عوام کے لیے بنیادی سہولتوں پانی،گیس اور بجلی کی فراہمی کو یقینی بنائے گا اور پی پی ایل کمپنی کو ماضی میں کیے گئے معاہدوں کا پا بند بنائے گا۔عملی اقدامات سے ہی بہتری لائی جاسکتی ہے کھوکھلے نعرہ بازی سے کچھ نہیں ہو تا ۔