|

وقتِ اشاعت :   February 22 – 2017

کوئٹہ:سب سے پیاری زبان مادری زبانی ہوتی ہے ،18 ویں ترمیم کا سلسلہ جب شروع ہوا تو نیشنل پارٹی نے مقامی زبانوں کو آئینی طو رپر محفوظ کرنے کی بات کی اور ہم نے بہت کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو مگر یہ مطالبہ نہیں مانا گیا، کسی بھی زبان کو جب تک حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی وہ زبان فروغ نہیں پاسکتی ، ہمارے اکابرین نے روز اول سے مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے جدوجہد کی تاکہ بچوں کی آگاہی کا علمی سلسلہ براہ راست قائم ہو ،ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کرکے جو اقدام اٹھایا وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھاجائے گا ۔ ان خیالات کا اظہار سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ ، بلوچی زبان کے معروف ناول نگار و دانشور منیر بادینی ،سینئر صحافی و دانشور عرفان احمد بیگ ،یونیسکو کے بلوچستان میں سربراہ قیصر جمالی ، ڈائریکٹر اکیڈمی ادیبات افضل مراد ، پشتو ادبی غورزنگ کے محمد یوسف ساحل ، بلوچی لبزانکی دیوان کے چیئرمین یاران بلوچ ، موسیٰ جان خلجی ، ہزارگی اکیڈمی کے علی ہمدم ، شیر احمد جمالدینی و دیگر نے کوئٹہ پریس کلب میں بلوچی لبزانکی دیوان کے زیر اہتمام مادری زبانوں کے عالمی دن کی مناسبت سے منعقدہ سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کیا ۔ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان و نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہا کہ 50 کی دہائی میں جب اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا گیا تو بنگالیوں نے احتجاج شروع کیا اور مجیب الرحمن سے جب پوچھا گیا کہ وہ کیوں احتجاج کررہے ہیں تو انہوں نے بتایا کہ زبان ہمالیہ سے زیادہ بھاری ہے مگر بدقسمتی سے ہم اپنی زبانوں سے انکار کررہے ہیں اور یہی زبانیں ہماری پہچان کا سبب ہے ۔ انہوں نے کہا کہ 18 ویں ترمیم کا سلسلہ جب شروع ہوا تو نیشنل پارٹی نے موقف اختیار کیا کہ ان زبانوں کو آئینی طو رپر محفوظ کیا جائے اور ہم نے بہت کوشش کی کہ ایسا ممکن ہو مگر یہ مطالبہ نہیں مانا گیا ۔ انہوں نے کہاکہ جب ہم نے صوبے میں حکومت بنائی تو ہم نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کرنے کے لئے قانون بنایا ۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کیا مگر اس سلسلے میں جو دشواریاں پیش آرہی ہیں ان کو دور کرنا ذمہ داران کا کام ہے وہ علاقوں کو مد نظر رکھ کر مسئلے کا حل نکالیں ۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے کہاکہ کسی بھی زبان کو جب تک حکومتی سرپرستی حاصل نہیں ہوگی وہ زبان فروغ نہیں پاسکتی ۔ انہوں نے کہا کہ میرے دور میں ہم نے ایک سال کو میر گل خان نصیر کا سال قرار دیا اور فیصلہ کیا کہ جو بھی اس سال گل خان نصیر پر کتاب لکھے گا ان کی چھپائی حکومت کرائی گی اس سے لکھنے اور پڑھنے پر بہت اچھا اثر پڑا ۔ انہوں نے کہاکہ جس اکیڈمی نے ہمیں اپروچ کیا ہم نے فنڈنگ کی ۔ جب تک ایک بلوچ ، پشتون ، پنجابی رہے گا یہ زبانیں ختم نہیں ہوسکتی ہم ان کو بچانے کی ہر صورت میں کوشش کریں گے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو مادری زبانوں میں پڑھائیں ۔ بلوچی زبان کے معروف ناول نگار و دانشور منیر بادینی نے کہا کہ زبان ہی وہ ذریعہ ہے جس کے ذریعے آپ دوسروں کو سمجھا سکتے ہیں اور لوگ آپ کو سمجھ سکتے ہیں دنیا میں شاہکار لیٹریچر مادری زبانوں میں ہے اس کی اہم وجہ زبان پر عبور ہے جس زبان پر عبور حاصل ہو اس میں لکھنے میں آسانی ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہاکہ جو زبان لکھی اور پڑھی جاتی ہو اوہ مٹتی نہیں ۔ انہوں نے کہاکہ اگر سب کو مادری زبانوں میں تعلیم دی جائے تو تمام مسائل حل ہوں گے ۔ سینئر صحافی و دانشور عرفان احمد بیگ نے سمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ دنیا کی سب سے پیاری زبان مادری زبانی ہوتی ہے بچہ ماں کی پیٹ میں آوازیں سننا شروع کردیتا اور 5 سال کی عمر تک 90 فیصد تک اپنی مادری زبان سمجھ لیتا ہے ۔ انہوں نے کہاکہ زبان احساسات ، جذبات ، تجربات اور رویوں کو سمجھنے کا ایک اہم ذریعہ ہے ۔ یونیسکو کے بلوچستان میں سربراہ قیصر جمالی نے کہا کہ 1999 میں یونیسکو نے 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن قرار دیا ۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبان ہمارے خیالات اور کلچر کی عکاسی کرتا ہے ، مقامی زبانوں کی ترقی وترویج کے لئے انہیں پڑھنے ، پڑھانے سمیت اسے ذریعہ تعلیم بنایا جانا ضروری ہے اس کے علاوہ مقامی زبانوں میں فلم ، ڈراموں سمیت سنیما کا فروغ بہت ہی اہمیت کا حامل ہے جس کے لئے سب کو کردار ادا کرنا چاہیے ۔ ڈائریکٹر اکیڈمی ادیبات افضل مراد نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل کرکے جو اقدام اٹھایا وہ تاریخ میں سنہری الفاظ میں لکھاجائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی زبانوں کی ترقی کے لئے ضروری ہے کہ انہیں نہ صرف پڑھایا جائے ان میں تحریر اور پڑھنا بھی اہم ہے جب تک انہی زبانوں میں لکھی گئی تحریروں اور کتابوں کر پڑھنے والا نہیں ہوگا اس وقت تک ان کو ترقی نہیں دی جاسکتی ہے ۔ ہزارگی اکیڈمی کے علی ہمدم نے کہا کہ 21 فروری دنیا بھر میں مادری زبانوں کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے مگر آج بھی بہت سی زبانیں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ہزارگی زبان جو یہاں کی مقامی زبانوں میں سے ایک ہے مگر ان کی ترقی و ترویج کے لئے حکومتی سطح پر انہیں کسی قسم کا تعاون حاصل نہیں جو افسوسناک ہے ۔ انہوں نے کہا کہ تمام زبانوں کو یکساں حیثیت دیئے بغیر ترقی ممکن نہیں ، حکومت کو چاہیے کہ بلوچی ، پشتو ، براہوی اور دیگر مقامی زبانوں کے ساتھ ساتھ ہزارگی کے فروغ کے لئے بھی اقدامات اٹھائیں ۔ موسیٰ جان خلجی نے کہاکہ علم کا حصول ماں کی گود سے شروع ہو تا ہے بچے کو اگر گھر میں بولی جانے والی زبان کی بجائے دوسری زبان میں تعلیم دی جائے تو ان کی ذہنی قوت پر اثر پڑے گا اسی لئے ہمارے اکابرین نے روز اول سے مادری زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنانے کے لئے جدوجہد کی تاکہ بچوں کی آگاہی کا علمی سلسلہ براہ راست قائم ہو ۔ انہوں نے کہا کہ جاپان ، ایران ، ترکی اور مغربی ممالک نے مقامی زبانوں کو ذریعہ تعلیم بنا کر آج دنیا میں ایک مقام بنا چکے ہیں ۔ انہوں نے کہاکہ سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر مالک کے دور میں صوبائی حکومت نے اسی مقصد کے لئے مادری زبانوں کو نصاب میں شامل شامل کرکے اس سلسلے کی بنیاد رکھی جو خوش آئند ہے ۔ پشتو ادبی غورزنگ کے محمد یوسف ساحل نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ مادری زبانوں کی فروغ وقت کی اہم ضرورت ہے باچاخان کو انگریز سامراج نے اس لئے سزا دی کہ انہوں نے پشتو پڑھانا شروع کیا تھاجو انگریز سامراج نہیں چاہتا تھا ۔ انہوں نے کہاکہ صوبائی حکومت نے نصاب میں مادری زبانوں کو شامل تو کیا ہے مگر ابھی تک یہ مکمل طور پر لاگو نہیں ہے جس پر نظرثانی اور مزید کام کی ضرورت ہے ۔ اس سے قبل بلوچی لبزانکی دیوان کے چیئرمین یاران بلوچ نے سمینار کے شرکاء کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ21 فروری کا دن مادری زبانوں کے حوالے سے انتہائی اہمیت کا حامل ہے ، مقامی زبانیں بلوچی ، پشتو، بروہی ، سندھی ایک گلدستے کی مانند ہیں ، گزشتہ دنوں سینٹ میں ان زبانوں کو مقامی زبانیں قرار دیئے جانے سے متعلق ایک بل پیش کیا گیا مگر بدقسمتی سے اس کی منظوری ممکن نہیں ہوسکی ۔ انہوں نے کہا کہ مقامی زبانوں کی ترقی کے لئے ہم سب کو مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے ۔