|

وقتِ اشاعت :   February 7 – 2018

کوئٹہ کی ایک یخ بستہ صبح، بروز منگل 6 فروری 2017 بھری نیند میں تھا کہ اچانک سے سیل فون کی گھنٹی کانوں میں کہیں دْور بج رہی تھی، تب نیند چھوڑ کر جاگنا پڑا۔ جب تک میں اْٹھا، فون کی بیل بند ہو چکی تھی۔

لیکن بیل بند ہونے کے ساتھ ایک میسج کی آمد سے بہت ہی دل رنجیدہ پیغام موصول ہْوا، جس کو پڑھ کر میں ایک لمحے کے لیے خاموش ہو گیا اور بار بار اْسی میسج کو پڑھنے لگا۔

میسج کْچھ یوں درج تھا:
جناب دوست! لالا صدیق بلوچ اب ہمارے درمیان نہیں رہے، اْن کا انتقال ہو چْکا ہے۔

اس میسج پر بھروسہ ہی نہیں ہو رہا تھا۔ میں حیران تھا اور سمجھ نہیں پا رہا تھا کہ اچانک سے یہ کیا ہوگیا۔ فوراً ہی اپنے فیس بک کی ٹائم لائن پر جا کر معلومات لینا شروع کی تو صرف انہی کا نام اور تصویر دیکھنے کو ملے۔

انسان جب زندہ ہمارے درمیان ہوتا ہے تو ہم کبھی بھی اْس سے دور ہو جانے یا اْن کے بچھڑ جانے کا تصور نہیں کر پاتے، پر جب جْدا ہو جاتے ہیں تو دل خون کے آنسو رونے لگتا ہے۔ ایسا ہی تھا ہمارا رشتہ۔ ماس کمیونیکیشن کے تمام طلبا بشمول میں لالا بلوچ سے بہت متاثر تھے۔ کیونکہ انہوں نے اپنی زندگی میں آزادی رائے کو ہمیشہ ترجیح دی تھی اور میڈیا پر بندش و آمریت خلاف بولتے رہے۔

مجھے یاد ہے، میری لالا سے ملاقات ڈیلی آزادی اخبار کوئٹہ کے ہیڈ آفس میں ہْوئی، جہاں وہ اپنی نشست سنبھالے ہْوئے تھے۔ یہ سال 2016 تھا۔ جب میرا ایم اے میڈیا اینڈ جرنلزم کا پہلا سال شروع ہو چْکا تھا۔ بہت شوق تھا لکھنے، پڑھنے کا اور آج بھی ہے۔ لالا بلوچ کا پوتا بیبرگ بلوچ جو کہ میرا خاص دوست ہے، اْس نے ملایا مجھے اس معروف شخصیت سے؛ 18 مئی 2016 کی شام۔

میرا پہلا لکھا آرٹیکل اسی ڈیلی آزادی کوئٹہ اخبار میں 21 مئی 2016 کو شائع ہْوا جس کا عنوان تھا؛ “لہو سے گھرا ہْوا ہوں’’۔ بہت ہی کم الفاظ پر مشتمل یہ آرٹیکل، جسے میری حوصلہ افزائی کے لیے شائع کیا گیا تاکہ میں آنے والے دنوں اور بھی محنت کر سکوں۔ لالا صدیق بلوچ کا اپنی زبانی یہ کہنا تھا مجھ سے کہ بیٹا لکھو، زیادہ سے زیادہ لکھو لیکن کوشش کرو سوشل ایشوز پر اپنے معاشرے کے مسائل کو سامنے لا کر اْن پر اپنے خیالات کا اظہار کرو تاکہ سب لوگ پڑھیں اور جان سکیں ہمارے مسائل کیا ہیں۔

یہ الفاظ جو 2016 میں مجھے لالا صدیق بلوچ نے بتائے، اْنہی کے بیٹے جناب آصف بلوچ نے بھی مجھے یہی باتیں کہیں اور لکھنے کا مشورہ دیا۔ لالا صدیق بلوچ اب ہمارے ساتھ نہیں رہے لیکن وہ جو سوچ وہ ہمارے درمیان چھوڑ کر گئے ہیں ہمیں اْس کا خاص خیال رکھنا اور اس پہ عمل کرنا ہوگا۔

صحافت کی دْنیا میں وہی میرے پہلے اْستاد رہے ہیں جن سے میں بہت متاثر ہوا ہوں۔ لالا صدیق بلوچ کا سیاسی اور صحافتی دنیا میں بہت ہی خاص اور آزاد کردار رہا ہے۔ اْن کا اپنا کہنا تھا کہ، “موت کے خوف سے سیاسی سوچ نہیں بدل سکتا’’۔ اور آپ نے بالکل ویسا ہی کیا۔ ہمیشہ سچ کو سامنے لا کر تمام مسائل سے عوام کو آگاہی دیتے رہے۔

بشکریہ حال حوال