|

وقتِ اشاعت :   July 20 – 2018

تاریخی طور پر،انتخابات کے بعد سیاسی جماعتیں نتائج سے اختلاف کرتی رہی ہیں۔ماضی میں ان سیاسی جماعتوں نے دھاندلی کے الزامات لگائے ،جو انتخابات ہار گئیں۔زیادہ دور کیوں جائیں؟ عمران خان کی زیر قیادت ،پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی)کا سارا دھرنا اس وجہ سے تھا کہ 2013 کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی۔ پاکستان پیپلز پارٹی(پی پی پی ) نے بھی دعویٰ کیا تھاکہ بعض حلقوں میں ریٹرنگ افسروں کی طرف سے انتخابی نتائج کو تبدیل کیا گیا۔

مگر اس بار، دو بڑی جماعتیں — پی پی پی اور پاکستان مسلم لیگ- نواز(پی ایم ایل- ن)کھل کر یہ کہہ رہی ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے پورے زور و شور کے ساتھ قبل از انتخابات دھاندلی کی جا رہی ہے۔سول سوسائٹی کی سب سے معتبر تنظیم،ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان(HRCP) نے بھی اسی قسم کے خدشات کا اظہار کیا ہے۔پنجاب میں جو طاقت کا قلعہ ہے، ن لیگ کے ایسے امیدواروں پر جو منتخب ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں،اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا گیا۔ان کے لیے یہ آپشن ہے کہ یا تو وہ پی ٹی آئی میں شامل ہو جائیں یاپھرآزاد امیدوار کی حیثیت سے انتخاب لڑیں۔ورنہ انھیں قومی احتساب بیورو(نیب)کی طرف سے کرپشن کے مقدمات میں پھنسا دیا جائے گا۔

سندھ میں الیکٹ ایبلز سے کہا جا رہا ہے کہ وہ گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس(جی ڈی اے) میں شامل ہو جائیں۔ان کے اس شبہہ کو دور کرنے کے لیے کہ آصف زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کوئی ڈیل کر لی ہے،زرداری اور ان کی بہن کے خلاف نئے کیس کھول دیئے گئے ہیں۔کہا جاتا ہے کہ ان نئے کیسوں کا تعلق 35 بلین روپے کے کالے دھن کو سفید کرنے سے ہے۔مجھے بعض اوقات حیرت ہوتی ہے کہ یہ فلکیاتی اعداد و شمار کہاں سے آئے،کیونکہ کسی رپورٹر نے وفاقی تحقیقاتی ادارے یا نیب سے یہ نہیں پوچھا کہ وہ کیسے ان مبینہ اعداد و شمار تک پہنچے۔اب تک یہ کیس منی لانڈرنگ سے زیادہ بے نامی اکاؤنٹس کھولنے کا معاملہ نظر آتا ہے تاکہ ٹیکس نیٹ میں آنے سے بچا جا سکے۔

پیپلز پارٹی کے فرحت اللہ بابر نے بعض ایسے حاضر سروس انٹیلجنس حکام کے نام بھی بتائے ہیں ،جو پی پی پی کے امیدواروں کی وفا داریاں تبدیل کرانے کے لیے انھیں ہراساں کر نے اور ان پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مسلم لیگ ن نے بھی ایک جنرل کا نام لیا ہے۔فوج کے شعبہ ء تعلقات عامہ(آئی ایس پی آر)کو ایک پریس کانفرنس کر کے ان الزامات کی تردید کرنا پڑی۔پاکستان میں جو لوگ ماضی میں بھی اس طرح کی قبل از انتخاب دھاندلی دیکھ چکے ہیں ،ان میں سے کتنے لوگ اس تردید کو مانیں گے؟

پولیٹیکل انجنیئرنگ صرف پاکستان تک ہی محدود نہیں ہے دوسرے ملکوں کی اسٹیبلشمنٹس بھی تواتر کے ساتھ اسے استعمال کرتی ہیں۔وہ اس احمقانہ کہاوت پر پختہ یقین رکھتی ہیں کہ” مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے” ۔وہ اس بات کو بہت کم سمجھتی ہیں کہ اپنی پسند کا مقصدحاصل کرنے کے لیے جو طریقے اختیار کیے جاتے ہیں ،ان کی اپنی حرکیات ہوتی ہیں جو بعد میں دیگر تباہ کن نتائج کو جنم دیتی ہیں۔

پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ نے بارہا پولیٹیکل انجنیئرنگ کی۔ہم نے60 اور 80 کے عشروں میں بہت قریب سے دیکھا کہ اُس وقت بر سر اقتدار فوجی آمروں کے خلاف جمہوری تحریک کو کمزور کرنے کی غرض سے سندھ کی سندھی اور اردو بولنے والی آبادی کو تقسیم کرنے کے لیے پولیٹیکل انجنیئرنگ نے کس طرح کام کیا۔صوبے میں رہنے والے آبادی کے دو طبقوں میں نفرت پیدا کرنے کی اس قسم کی پالیسیوں کے سنگین نتائج برآمد ہو چکے ہیں۔80 کی دہائی میں ،جنرل ضیا ء حکومت کی حمایت نے کراچی میں مہاجر طلبہ کی ایک چھوٹی سی تنظیم کو ایک فسطائی سیاسی جماعت بننے میں مدد دی۔

اسٹیبلشمنٹ نے پاکستان پر اس کے قیام کے بعدکم و بیش نصف عرصہ تک براہ راست حکومت کی ،اور باقی عرصہ کے دوران در پردہ طریقے سے اس پر بالواسطہ حکمرانی کی۔اُس نے اِس یقین کے ساتھ جمہوری عمل کی افزائش میں رکاوٹیں ڈالیں کہ مقصد طریقوں کا جواز ہوتا ہے۔تاہم زیادہ تر صورتوں میں وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں ناکام رہی۔

حکمران جنتا نے1970 کے انتخابات میں ایک معلق پارلیمان لانے کے لیے پولیٹیکل انجنیئرنگ کی تاکہ جنرل یحییٰ خان کو صدر منتخب کرانے کی راہ ہموار کی جا سکے۔جب عوامی لیگ نے غیر متوقع طور پر انتخابات میں بھاری اکثریت حاصل کر لی تو اُن کی حکومت اور ذوالفقار علی بھٹو نے ،مستقبل کے آئین کی جزئیات پر آئین ساز اسمبلی سے باہر بات چیت کی کوشش کی۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ مشرقی بنگال میں مغربی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بغاوت شروع ہو گئی۔

بھٹو نے،1977 میں قومی اسمبلی کی 36 نشستوں پر دھاندلی کی تھی۔پاکستان قومی اتحاد(پی این اے ) کی قیادت میں ایک بڑی احتجاجی تحریک نے،چالاک جنرل ضیاء الحق کو حکومت کا تختہ الٹنے ، ملک میں مارشل لگانے اور11 سال تک حکومت کرنے کا موقع دیا۔جنرل ضیاء کو سیاسی حمایت درکار تھی ،اس لیے انھوں نے 1985 میں غیر جماعتی انتخابات کے لیے انجنیئرنگ کی۔ایک تابعدار وزیر اعظم کو یقینی بنانے کے لیے انھوں نے اس عہدے کے لیے اپنی مرضی سے محمد خان جونیجو کو چنا۔

تاہم، جونیجو نے اس جنرل سے انحراف کرتے ہوئے افغانستان کے ساتھ جنیوا معاہدے پر دستخط کر دیئے۔فوجی آمر کی پولیٹیکل انجنیئرنگ ناکام ہو گئی جس کے بعد انھوں نے1988 میں جونیجو حکومت اور پارلیمنٹ کو برطرف کر دیا۔بالآخر جنرل ضیا ء، جنھوں نے اس ملک کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا ،خود اپنے حلقے کی حمایت کھو بیٹھے اور قتل کر دیئے گئے۔

1988 میں ،دائیں بازو کی جماعتوں کے سیاسی اتحاد ،اسلامی جمہوری اتحاد(آئی جے آئی)کی پولیٹیکل انجنیئرنگ کے ذریعے اپنی پسند کے نتائج حاصل کرنے کی اسٹیبلشمنٹ کی کوشش صرف جزوی طور پر کامیاب ہو سکی۔پی پی پی کو حکومت کی تشکیل سے روکنے کا اس کا مقصد پورا نہ ہو سکا ،کیونکہ انتخابات میں یہ ایک بڑی پارٹی بن کر ابھری تھی۔مگر اسٹیبلشمنٹ نے پی پی پی کی حکومت کو بمشکل ڈیڑھ سال تک برداشت کیااور آئین کے بدنام آرٹیکل58(2b) کے ذریعے اسے نکال باہر کیا۔

اسٹیبلشمنٹ کی پولیٹیکل انجنیئرنگ کو واحد بڑی کامیابی 1990 کے انتخابات میں ملی،جب انتخابی نتائج نے آئی جے آئی کو حکومت بنانے کے قابل کر دیا تھا۔سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ اس بار پی ٹی آئی اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر ہے۔امکان ہے کہ پی ٹی آئی کی قیادت میں بننے والے اتحاد میں آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد شامل ہو جائے گی۔

اس وقت جو صورت حال ہے اس میں یہ ممکن نظر نہیں آتا کہ پی ٹی آئی مرکز میں حکومت بنانے کے لیے مطلوبہ نشستیں حاصل کرپائے گی۔عمران خان کے بعض کٹر حامیوں کو بھی امید نہیں ہے کہ وہ اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل کر لیں گے۔مگر سوال یہ ہے کہ کیا عمران خان جو جلد باز اور اپنی ہی ضد پر قائم رہنے والے انسان ہیں ،کولیشن کے ساتھ چل پائیں گے ،جس میں بہت سے معاملات پر سودے بازی کرنی پڑتی ہے؟

اگر چہ پی ٹی آئی کے منشور میں خارجہ پالیسی کو چلانے کے لیے ایک اداراتی فریم ورک بنانے کا ذکر کیا گیا ہے مگر عمران خان عام طور سے بھارت،افغانستان اور ایران کے ساتھ تعلقات سے متعلق معاملات پر بات نہیں کرتے۔دوسری طرف ،نواز شریف کا بیانیہ یہ ہے کہ سیاسی حکومت کو بھارت، افغانستان اور امریکہ کے ساتھ تعلقات جیسے خارجہ پالیسی کے انتہائی اہم معاملات پر فیصلے کرنے کی اجازت نہیں دی جاتی۔انھوں نے اپنی یہ بات آگے پہنچانے کے لیے انتہائی موقر اخبار ڈان کے ساتھ بات چیت کے موقع کو استعمال کیا۔ نواز شریف کے نکتہ نظر کے ابلاغ پر ، اس ذمہ دار اخبار کو اسٹیبلشمنٹ کے جس غیض و غضب کا سامنا کرنا پڑا،وہ ایک الگ کہانی ہے۔

بحیثیت مجموعی، میڈیا یہ شکایت کر رہا ہے کہ نواز شریف اور مریم صفدر کی کوریج کے معاملہ میں اس پر غیر اعلانیہ سنسر شپ عائد ہے۔بہرحال ،اب جب کہ پی ایم ایل- این کے یہ دونوں رہنما خود کو گرفتاری کے لیے پیش کر چکے ہیں،میڈیا میں ان کو زیادہ کوریج نہیں ملے گی۔یہاں میں مریم کو پورے نمبر دینا چاہوں گا،جنھوں نے اپنی مسکراہٹ کے ساتھ جو ان کے مزاج کا خاصہ ہے،حوصلہ کے ساتھ خود کو گرفتاری کے لیے پیش کیا۔