|

وقتِ اشاعت :   August 10 – 2018

بلوچستان کے دیگر حلقوں کی نسبت گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کو اس وجہ سے زیادہ اہم قرار دیا جارہا تھا کہ گوادر سی پیک اور پورٹ سٹی کا شہر ہے۔مقتدر حلقے گوادر کو پاکستان کی شہ رگ سمجھتے ہیں۔جہاں سی پیک پروجیکٹ کے تحت بلین ڈالرز پروجیکٹ کے معاہدوں پر دستخط کے بعد گوادر کے لئے تو کوئی بڑا پروجیکٹ نہیں نظر آرہا ہے۔مگر یہ ضرور کہا جارہا ہے کہ گوادر میں بڑے منصوبوں پر کام شروع ہوگا۔

حالیہ انتخابات میں گوادر کی صوبائی اسمبلی کی نشست کو بلوچ سیاسی جماعتوں نے جیتنے کے لئے اپنی تمام تر توانائیوں خرچ کیں۔ گوادر کی یہ نشست چونکہ گزشتہ 25 سالوں سے کلمتی اور سید فیملی کے پاس رہا ہے۔ 

اس مرتبہ سید فیملی کا ایک طبقہ کلمتی فیملی کے میر حمل کلمتی کے حمایت کی بجائے بی اے پی کے میر یعقوب بزنجو کی حمایت میں کام کررہا تھا۔جبکہ 2013 کے انتخابات میں ماضی کے حریف نوری خاندان اور کلمتی فیملی کے حلیف بننے کے بعد اس مرتبہ بھی بی این پی کے پلیٹ فارم پر یہ دونوں خاندان سیاسی حلیف بن کر میدان میں تھے۔ گوادر کی تاریخ میں جتنے بھی انتخابات ہوئے تھے۔ اس میں اتنا جوش وخروش نہیں تھا،جتنا حالیہ انتخابات میں نظر آیا۔ 

ان انتخابات میں بظاہر تو کئی سیاسی جماعتوں کے امیدوار میدان میں تھے مگر انتخابات سے قبل سیاسی مبصرین بی اے پی کے میر یعقوب بزنجو اور بی این پی کے میر حمل کلمتی کے درمیان ون ٹو ون مقابلے کی توقع کررہے تھے۔ جو بی این پی کے امیدوار کی جیت کی صورت میں میر حمل کلمتی کی فتح پر منتج ہوئی ۔ گوادر قبائلی علاقہ تو نہیں ہے مگر یہاں بھی بلوچستان کے قبائلی علاقوں کی طرح سیاسی پارٹیوں سے زیادہ برادری کی سیاست میں اہم رول ہوتا ہے۔ 

گوادر کی سیاست میں ماضی میں بھی سیاسی پارٹیوں سے زیادہ اہم اثر سیاسی اور مذہبی شخصیت کی رہی ہے لیکن حالیہ الیکشن میں یہ عنصر ماضی کی طرح زیادہ موثر ثابت نہیں ہو سکی۔ کیونکہ اس مرتبہ ایک چیز دیکھنے کو یہ ملا کہ ہر امیدوار ضلع گوادر کے ان دیہی علاقوں تک الیکشن کمپیئن کررہا تھا،شاید وہ پہلی بار ان علاقوں کی حالت زار اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے۔حالانکہ گوادر میں نیشنل پارٹی اور بی این پی کے سیاسی ورکروں کی اچھی تعداد موجود ہے۔ 

بی این پی کے امیدوار میر حمل کلمتی کی جیت کے بعد یہ گوادر کی تاریخ میں پہلی بار ہوا کہ ایک امیدوار نے مسلسل تیسری مرتبہ گوادر کی صوبائی نشست پر کامیابی حاصل کرلی۔سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کے ووٹ بینک سے بی این پی کو فائدہ پہنچا۔ گوادر چونکہ رقبے کے لحاظ سے ایک بڑا ضلع ہے اور یہاں کے نوجوان پہلی مرتبہ تبدیلی کے لئے بڑی تعداد میں الیکشن کے دن گھروں سے نکلے تھے۔

اچھے مستقبل کا خواب لے کر گوادر کے نوجوانوں کی بڑی تعداد میں انتخابی عمل میں شریک ہونے سے یہ تاثر پیدا ہوگیاہے کہ اب آئندہ انتخابات میں گوادر میں جو بھی امیدوار الیکشن لڑے گا، اس کو تعلیم پر فوکس کے ساتھ اچھی تعلیمی اداروں کے قیام کو بھی اپنے سیاسی اور انتخابی منشور میں ڈالنا ہوگا۔

حالیہ انتخابات میں گوادر کے نوجوانوں نے پہلی بار خاندان اور برادری کی سیاست سے ہٹ کر بی این پی کو اس لئے سپورٹ کیا کہ انکے ذہن میں ایک پڑھا لکھا گوادر کا خواب ہے۔ سی پیک اور پورٹ سٹی کا شہر گوادر میں اس وقت سب سے بڑا ایشو پینے کے صاف پانی کا ہے۔ 

گوادر میں بے روزگاری کے ساتھ تعلیمی سہولیات کا فقدان ہے۔ ضلع گوادر کے زیادہ تر علاقوں میں صحت کی ابتر صورتحال ہے۔ گوادر کے دیہی علاقوں میں سڑکوں کا نام ونشان نہیں ہے۔ گوادر کے زیادہ تر علاقوں میں منشیات کا استعمال سرعام ہے۔

گوادر کے بہت کم طالب علم ملک کے دیگر تعلیمی اداروں میں پڑھ رہے ہیں۔ گوادر میں یونیورسٹی کے قیام کا خواب اب تک تو تعبیر نہ پاسکا البتہ تربت یونیورسٹی کے گوادر کیمپس میں چند ڈپارٹمنٹس کے کلاسز جاری ضرور ہیں۔ان تمام ایشوز کے ہوتے ہوئے تعلیم یافتہ نوجوانوں کے ذہن میں بار بار ایک سوال گونج رہا تھا کہ ہمیں اچھے تعلیمی ادارے فراہم کئے جائیں۔ 

گوادر کے نوجوانوں کا سب سے بڑا ڈیمانڈ گوادر یونیورسٹی کے قیام کا ہے ۔بی این پی کے امیدوار نے انتخابی کمپیئن کے وقت تعلیم کے حوالے سے جس مثبت سوچ کے ساتھ کام کرنے کا عندیہ دیا اور ماضی میں میر حمل کلمتی نے ضلع گوادر میں تعلیم کی بہتری کے لئے جو مثبت اقدامات کئے تھے۔

لہذا ضلع گوادرکے نوجوانوں کے بہتر مستقبل اور یہاں آنے والی ترقی سے مستفید ہونے کے لئے گوادر یونیورسٹی کا قیام بی این پی کی اولین ترجیح ہونی چاہئے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ پانچ سال بعد پھر گوادر میں تعلیمی ایمرجنسی کا نعرہ لگے۔