|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2018

انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ الیکشن 2018 کے سیاسی انجنیئرز معلق پارلیمان چاہتے ہیں۔نواز شریف جیسی اکثریتی جماعت کی حکومت کے مقابلے میں مخلوط حکومت کو قابو میں رکھنا ہمیشہ آسان ہوتا ہے۔اب، جبکہ انھوں نے اپنی خواہش کے مطابق نتیجہ حاصل کر لیا ہے،پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی)جو اسٹیبلشمنٹ کی منظور نظر تھی،نہ صرف مرکز بلکہ پنجاب میں بھی جو طاقت کا قلعہ ہے اکثریت حاصل کرنے میں مصروف ہے۔

اس صورت حال نے عمران خان کوآزاد امیدواروں کی حیثیت سے منتخب ہونے والے انہی لوگوں کی حمایت حاصل کرنے پر مجبور کر دیا ہے جن کے بارے میں وہ ماضی میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور کہتے تھے کہ یہ لوگ ہمیشہ بکنے کے لیے تیار رہتے ہیں۔

اس بات پر حیرت نہیں ہے کہ کامیاب آزاد امیدواروں سے بات چیت کی ذمہ داری جہانگیر ترین اور علیم خان کو سونپی گئی ،جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ پی ٹی آئی کے بینکرز ہیں۔

اطلاعات یہ ہیں کہ آزاد امیدوار کی حیثیت سے کامیاب ہونے والے بعض ارکان اس رقم کی فوری ادائیگی چاہتے ہیں جو وہ انتخابات میں خرچ کر چکے ہیں۔بعض صورتوں میں انتخابی اخراجات کی یہ رقم کچھ منافع کے ساتھ بڑھا دی جاتی ہے۔پاکستان مسلم لیگ(ق) جیسی چھوٹی جماعتیں کچھ عوامی عہدے چاہتی ہیں۔

پی ٹی آئی نے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان سے بھی رابطہ کیا ہے۔ اگرچہ ماضی میں عمران خان ایم کیو ایم کو جرائم پیشہ لوگوں کی جماعت کہتے رہے ہیں مگر اب ان کے حامیوں کا کہنا ہے کہ االطاف حسین سے تعلق ختم کرنے کے بعد ایم کیو ایم پاکستان ،مخلوط حکومت کا ساتھ دینے کے لیے پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ، دونوں کے لیے قابل قبول ہے۔

ُٰ پی ایم ایل (ق) کی طرف سے ان لوگوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی کوشش کی جارہی ہے جنھیں پی ایم ایل (ن)کا فارورڈ بلاک کہا جاتا ہے۔اگر ایسا ہو گیا تو گجرات کے چودھری ،عمران خان سے بڑا حصہ مانگ سکتے ہیں۔

جب عمران خان اپوزیشن میں تھے تو انھیں ،اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی مدد حاصل کرنے کی خاطر صرف اپنے اصولوں پر سمجھوتہ کرنا پڑتا تھا مگر اب جبکہ وہ مرکز اور پنجاب میں حکومت بنانے کی بہتر پوزیشن میں ہیں تو ان کے لیے حقیقت پسندی سے کام لینا بہتر ہو گا۔بدقسمتی سے حقیقی سیاست کی یہی حرکیات ہیں۔

آئیے،اب ان کی تقریر کا تجزیہ کریں جس پر عوام نے خوش گوار رد عمل ظاہر کیا۔پرائم منسٹر ہاؤس میں ،جو ان کی بنی گالہ کی رہائش گاہ سے چند ایکڑ ہی بڑا ہو گا،قیام نہ کرنے کی خوش کن باتوں کو عوام نے دلچسپی سے سنا۔ریکارڈ درست رکھنے کے لیے عرض ہے کہ سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی بھی کبھی پرائم منسٹر ہاؤس میں منتقل نہیں ہوئے تھے اور روزانہ پروٹوکول کے ساتھ پی ایم ہاؤس میں اپنے دفتر آتے تھے۔

میریٹ ہوٹل کے سامنے منسٹرز انکلیو میں منتقل ہونے کے بارے میں عمران خان کا منصوبہ اچھا نظر آتا ہے مگر انھیں روزانہ پورے SOP پروٹوکول کے ساتھ اپنے دفتر آنا ہو گاجو خود پی ایم ہاؤس ہے۔ گورنر ہاؤسز کو تعلیمی ادارے بنانے کی باتیں بھی نئی نہیں ہیں۔ماضی میں بہت سے حکمرانوں نے شروع میں ایسے وعدے کیے تھے مگر جب بیوروکریسی نے انھیں اس قسم کے اقدامات سے پیدا ہونے والے مسائل کے بارے میں بتایا تو یہ وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔

تاہم ایوان وزیر اعظم اور ایوان صدر کے اخراجات کم کرنے کی بہت گنجائش ہے، جو اربوں روپے میں ہیں۔غیرملکی دوروں کے لیے وفود کا حجم کم کرتے ہوئے اور خبری اداروں کو اس بات کا پابند کر کے کہ اگر وہ صدر یا وزیر اعظم کے سرکاری دورے میں اپنے اسٹاف کو بھیجنا چاہتے ہیں تو خرچ خود خود برداشت کریں،یہ اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں۔پیسہ بچانے کے لیے سیاست دانوں اور صحافیوں کے مفت کے تفریحی دورے ختم کر دیئے جائیں۔

عمران خان نے جن اصلاحات کا وعدہ کیا ہے،اگر وہ ان میں سے نصف پر عمل کرنے میں بھی کامیاب ہو گئے تو لوگوں کو یقین آ جائے گا کہ وہ اپنے قول کے پکے ہیں ،کیونکہ اس قسم کے اقدامات کی اصل اصلاحات سے زیادہ پی آر ویلیو ہوتی ہے۔

عمران خان اور ان کے نامزد وزیر خزانہ، میرے دوست اسد عمر کی حقیقی آزمائش گرتی ہوئی معیشت کو سنبھالنا ہو گا۔جیسا کہ سب جانتے ہیں ،سب سے بڑا چیلنج اخراجات جاریہ کے خسارے پر قابو پانا ہے۔

پچھلی حکومت کے مطابق یہ خسارہ80 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے۔ہمیں بتایا جاتا ہے کہ درآمدی اخراجات میں دو عوامل کی وجہ سے اضافہ ہوا ہے— یعنی سی پیک منصوبوں کی وجہ سے مشینری کی درآمد میں اضافہ اورتیل، گیس اور پام آئل کی زیادہ درآمدات۔

حیران کن سوال یہ ہے کہ کیا سی پیک پر سرمایہ کاری کے حصے کے طور پرچین نے مشینری کے لیے فنڈنگ نہیں کرنی تھی ؟اگر ایسا ہی تھا تو پھر یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ ہمیں مشینری کے لیے رقم اسی طرح سے ادا کرنی ہے جیسے کہ باقاعدہ درآمدات کے لیے شروع میں ادا کی جاتی ہے؟سی پیک کے تحت درآمد کی جانے والی مشینری پر ان پراجیکٹس کی طرف سے سرمایہ کاری کی جانی تھی جو اس مقصد کے لیے تھے اور یہ بھی کئی سالوں پر محیط تھی۔

پی ٹی آئی کی ٹیم کو یہ سوال پوچھنے چاہیءں۔انھیں سی پیک کے ہر پراجیکٹ کے لیے الگ الگ فنانشل اسٹرکچرنگ کرنی چاہیئے، کیونکہ پچھلی حکومت کی طرف سے ابھی تک عوام کے ساتھ معلومات شےئر نہیں کی گئیں۔اگر کرپشن کو روکنا ہے تو تمام حکومتی لین دین،جیسا کہ عمران خان نے وعدہ کیا ہے،شفاف ہونا چاہیئے۔

اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ چینی کمپنیاں اپنے منصوبوں اورخاص طور سے اس درآمد شدہ مشینری کی لاگت زیادہ بتائیں جو ان کے ملک سے آنی ہے۔اسے صرف ایک ایسی ذہین معاشی ٹیم ہی چیک کر سکتی ہے جو 62 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے وعدے سے مسحور نہ ہو۔اس براہ راست غیر ملکی سرمایہ کاری میں چین سے کیا ملا ؟ یہ ایک اور اہم سوال ہے۔

عمران خان اکثر یہ تنقید کرتے رہے ہیں کہ شریف فیملی ان منصوبوں پر کمیشن لیتی رہی،جسے کہ ثابت نہیں کیا جا سکا مگر عوام کو یہ بتا تے ہوئے اسے ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ ہر پراجیکٹ کی لاگت کتنی زیادہ بتائی گئی۔

عمران خان حکومت کے سامنے ایک اور اہم معاشی چیلنج سرکاری شعبے کے اداروں کی تباہی کو روکنا ہے۔پی ٹی آئی کے منشور میں سرکاری شعبے کے ان اداروں کی نجکاری کے بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی۔اس منشور میں ان کمپنیوں میں ایسی پروفیشنل مینجمنٹ لانے کا وعدہ کیا گیا ہے جو سیاسی مطالبات کو خاطر میں نہ لائے۔

یہ بھی ایک پرانا راگ ہے جو ہم نے ضیا الحق کے دور میں سنا تھا اور کامیاب نہیں ہوا تھا۔اس حوالے سے صرف دو ہی کامیاب مثالیں ہیں اور یہ حبیب بینک لمیٹڈ اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی ہیں۔90 کی دہائی میں نواز شریف حکومت نے ان بینکوں کے معاملات ٹھیک کرنے کے لیے شوکت ترین اور زبیر سومرو کو ان بینکوں کا پریذیڈنٹ مقرر کیا اور جب یہ کام ہو گیا تو انھیں پرائیویٹائز کر دیا گیا۔

عمران خان کی ٹیم کو یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیئے کہ اگر کسی چیز کو پرائیویٹائز کیا جاتا ہے تو یہ51 فیصد سے زیادہ نہ ہو،تاکہ منافع ملک کے اندر رکھا جا سکے اور اس کا سرمایہ بڑھتا رہے۔اس وقت پرائیویٹائزڈ اداروں میں سے غیر ملکی سرمایہ کاری کا منافع واپس ان ملکوں میں چلا جاتا ہے،جس کی وجہ سے اخراجات جاریہ کا عدم توازن بڑھ رہا ہے۔

جیسا کہ اوپر کہا جا چکا ہے ،موجودہ چیلنج یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے رجوع کر کے اخراجات جاریہ کے خسارے کو کم کیا جائے۔اگر عمران خان کی ٹیم ایسا کرنے پر تیار ہو گئی تو اسے بہت سی سبسڈیز اور معاشی اصلاحات کو چھوڑنا پڑے گا جیسا کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے۔ صرف یہی نہیں، امریکہ واضح طور پر کہہ چکا ہے کہ وہ پاکستان کوچینی درآمدات پر سرمایہ کاری کے لیے آئی ایم ایف کے ذریعے بیل آؤٹ نہیں لینے دیں گے۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ مالی اصلاحات کرنے اور پاک امریکہ تعلقات میں کسی حد تک برابری لانے کی کوشش میں عمران خان کے ہاتھ بندھے ہوئے ہوں گے۔بہر حال، اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے عمران خان کی حمایت اس واضح مفاہمت کے ساتھ کی گئی ہے کہ وہ نواز شریف کی طرح خارجہ پالیسی اور قومی سلامتی کی پالیسی میں مداخلت کی کوشش نہیں کریں گے۔اور اگر انھوں نے ایسا کیا تو ان کا انجام بھی پچھلے حکمرانوں سے مختلف نہیں ہو گا۔

یہاں میں ایک واقعہ کا ذکر کرنا چاہتا ہوں۔جب مشرف نے اقتدار سنبھالا تو اصلاحات کی بہت باتیں ہوتی تھیں۔میں نے تیل اور گیس کی صنعت کے متعدد انتظامی افسروں کی موجودگی میں ان سے کہا” سر،جب بھی کوئی نئی حکومت بھی آتی ہے وہ اصلاحات کی باتیں کرتی ہے۔

ان پر تیزی سے عمل درآمد کے لیے جب ان کا پاؤں ایکسیلیٹر پر ہوتا ہے تو ان سے کہیں بھاری بیورو کریسی کا پاؤں بریک پر ہوتا ہے،چنانچہ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ کہیں پہنچ جائیں گے تو ایسا نہیں ہوتا” ۔ مجھے پاکستان کے عوام کے مفاد میں یقین ہے کہ عمران خان یہ بریک نہیں لگنے دیں گے۔