|

وقتِ اشاعت :   October 9 – 2018

جو پارٹی ” نیا پاکستان” بنانے کے نعرے پر بر سر اقتدار آئی تھی،وہ اب تک اپنے منی بجٹ اور ڈیم فنڈ کے قیام کے سوا اورکوئی نئی چیز دینے کے قابل نہیں ہو سکی۔اس کے برعکس، سابق حکومت کے اس فیصلے کو ختم کر کے کہ نان فائیلرز اپنے نام پر کاریں اور جائیداد نہیں خرید سکیں گے ،نئی حکومت نے ٹیکس کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے پچھلی حکومت کے ا یک مثبت قدم کو واپس لے لیا ہے۔

پچھلی حکومت کے اس قدم کو واپس لینے کے حق میں یہ دلیل دی جاتی ہے کہ اس سے سمندر پار پاکستانیوں کو پاکستان میں جائیداد یا کاریں خریدنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔یہ غیر سنجیدہ خیال ہے جو حکومت کو بعد میں آیا۔وزیر خزانہ اسد عمر سے ،جنھیں مینجمنٹ کا گرو کہا جاتا ہے، بہتر سوچ کی توقع تھی۔

وہ یہ شرط عائد کر سکتے تھے کہ سمندر پار پاکستانیوں کو اپنا این آئی سی او پی پیش کر کے کاریں اور جائیداد خریدنے کی اجازت ہو گی یا انھیں یہ ثبوت پیش کرنا ہو گا کہ وہ غیر سکونتی پاکستانی ہیں اور جس ملک میں رہائش پذیر ہیں وہاں کے ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔

اسی طرح سے نیا پاکستان کے وزیر اعظم کو دیا میر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے لوگوں سے چندہ مانگنے کی خاطر چھلانگ لگا کر سپریم کورٹ کی بینڈ ویگن میں سوار نہیں ہونا چاہیئے تھا۔وہ آبیانہ کے علاوہ ایک ڈیم ٹیکس متعارف کر کے آسانی سے رقم جمع کر سکتے تھے۔بین الاقوامی ایجنسیوں نے ہمیں بارہا کہا ہے کہ نہروں سے سیراب ہونے والی اراضی کے لیے آبیانہ کی موجودہ شرحیں بہت کم ہیں۔اس سے آبپاشی کے انفرا اسٹرکچر کی مینٹی نینس کی لاگت بھی پوری نہیں ہوتی۔

مثال کے طور پر: سندھ میں چاول کی فصل کے لیے جس میں بہت زیادہ پانی استعمال ہوتا ہے آبیانہ کی شرح ،نہروں سے سیراب ہونے والے زیادہ تر علاقوں میں محض89 روپے فی ایکڑ ہے؛بیشتر ایسے علاقوں میں گندم کی فصل کے لیے یہ شرح39 اور53 روپے کے درمیان ہے۔پھلوں کے باغات کے لیے یہ شرح 142 روپے فی ایکڑ ،کپاس کے لیے اس کی شرح80 اور93 روپے کے درمیان فی ایکڑ اور جبکہ نہروں سے سیراب ہونے والے زیادہ تر علاقوں میں کماد کی فصل کے لیے آبیانہ کی شرح 137 اور181 روپے کے درمیان ہے۔دوسرے صوبوں میں بھی نہروں اور ٹیوب ویل سے سیراب ہونے والی زرعی اراضی کے آبیانہ کی شرحیں سندھ سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔

حکومت کو ہر سال کاشت کاروں کو رعائت دینا پڑتی ہے۔حکومت کو چاہیئے کہ وہ ملک میں 8 ملین سے زیادہ زرعی فارمز پر آبیانہ کے نرخ بڑھائے۔

ہمارے دریاؤں کا تقریباً 90 فیصد پانی زرعی زمینوں کے لیے استعمال ہوتا ہے اس لیے اگر حکومت اس وعدے کے ساتھ زرعی استعمال کنندگان پر ڈیم ٹیکس عائد کرنے کے لیے ہمت سے کام لے کہ جب دیا میر بھاشا ڈیم تعمیر ہو جائے گا تو اس ٹیکس کو واپس لے لیا جائے گا تو میرے خیال میں اس کی زیادہ مخالفت نہیں کی جائے گی۔یہ ڈیم ٹیکس پارلیمینٹ کے ایک ایکٹ کے ذریعے نافذ کیا جانا چاہیئے جس میں واضح طور پر یہ ذکر ہو کہ جب ڈیم بن جائے گا تو یہ ٹیکس ختم کر دیا جائے گا۔

حکومت کو بجلی پیدا کرنے والے پلانٹس کی لاگت کو بھی ڈیم سے الگ کرنا چاہیئے تاکہ وہ مناسب کاروباری طریقے اختیار کرتے ہوئے بینکوں سے رقم لے سکے۔جیسا کہ نظر آ رہا ہے ،غیر ملکی بینک بھارتی دباؤ کے باعث دیا میر بھاشا ڈیم پر سرمایہ کاری سے پیچھے ہٹ گئے ہیں۔بھارت کا کہنا ہے کہ یہ ڈیم گلگت بلتستان کے متنازع علاقہ میں تعمیر کیا جا رہا ہے جو ایک زمانے میں کشمیر کا حصہ تھا۔گلگت بلتستان کے عوام نے 1948 میں ریاست کشمیر سے آزادی کے لیے جنگ لڑی تھی اور اپنی رضامندی سے پاکستان میں شامل ہوئے تھے۔لہٰذا اس علاقے پر بھارت کا دعویٰ کوئی ٹھوس جواز نہیں رکھتا۔

حکومت بجلی پیدا کرنے والے پلانٹ کی لاگت کو جو4 بلین ڈالر کے قریب ہے،الگ کر کے پراجیکٹ کے اس حصے کے لیے کاشت کاروں پر بوجھ ڈالنے سے بچ جائے گی، اور ڈیم سے جو بجلی پیدا ہو گی اس کے منافع سے قرضے چکائے جا سکیں گے۔

اگرچہ مشترکہ مفادات کی کونسل دیا میر بھاشا ڈ یم کی تعمیر کی منظوری دے چکی ہے مگر ماہرین کو تشویش ہے کہ اِس سے اُس پانی میں مزید کمی واقع ہو گی جو ماحولیاتی اسباب کی بنا پر انڈس ڈیلٹا سے سمندر میں چھوڑا جانا چاہیئے۔1991 کے آبی معاہدے میں کہا گیا تھا کہ 10 MAF پانی ڈیلٹاؤں سے سمندر کی طرف چھوڑنے کی اجازت دی جائے گی تاکہ سمندرکے آس پاس کے علاقوں کو بنجر ہونے سے بچایا جا سکے۔اس وقت چار سے پانچMAF پانی کوٹری بیراج کی طرف جاتا ہے ،جس سے سنگین ماحولیاتی مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔

مشکل یہ ہے کہ ہم مجموعی آبی حکمت عملی کے حصے کے طور پر پانی کا ذخیرہ کرنے کے بارے میں نہیں سوچ رہے۔اس کی بجائے ہماری توجہ ڈیموں پر ہے۔ہم جس بات کو سمجھ نہیں پارہے ،وہ یہ ہے کہ انڈس سسٹم میں پانی کی دستیابی تاریخی طور پر 145 MAFسے زیادہ نہیں رہی۔ چنانچہ پانی کا ذخیرہ کرنا ،شاید ڈیموں کی تعمیر سے بھی زیادہ ضروری ہے۔

بعض ماہرین کے مطابق ،اوپر کی سطح کا49 فیصد سے زیادہ پانی بخارات اور نہروں سے رسنے کی صورت میں بخارات بن کر ضائع ہو جاتا ہے ،جس کا نتیجہ بعض اوقات سیم اور تھور کی صورت میں نکلتا ہے۔1980 کی دہائی میں بھارت کی دو کاروباری شخصیات سے میری ملاقات ہوئی جنھوں نے بتایا کہ مشرقی پنجاب میں پانی کو رسنے سے بچانے کے لیے نہروں کی اینٹوں کے نیچے ایک مخصوص قسم کی کوٹنگ کی جاتی ہے۔وہ ان اینٹوں کو برآمد کرنے یا پاکستان میں اس کا پلانٹ لگانے میں دلچسپی رکھتے تھے مگر جب میں نے اس معاملہ پر اس وقت کے سیکرٹری زراعت سے بات کی تو انھوں نے کہا ” ہمیں بھارتی کاروباری لوگوں سے کسی بھی قسم کا تعلق رکھنے کی اجازت نہیں ہے” ۔

پاکستان ڈرپ اریگیشن اورSprinkler ٹیکنالوجی سے بھی فائدہ نہیں اٹھا رہا۔موجودہ حکومت کو یہ معلوم کرنے کے لیے زیادہ تگ و دو نہیں کرنی پڑے گی کہ پھلوں کے باغات اور فارمز میں پانی کس طرح محفوظ کیا جاتا ہے ،کیونکہ جہانگیر ترین خان اپنے فارمز میں اس قسم کی ٹیکنالوجیز استعمال کر رہے ہیں۔

پاکستان ایگریکلچر ریسرچ کونسل(PARC) نے ملیر میں ایک ڈرپ ٹیکنالوجی پائیلٹ پراجیکٹ شروع کیا تھا ،مگر وہی ہوا جو بیشتر حکومتی پائیلٹ پراجیکٹس کے ساتھ ہوتا ہے، سندھ کے کاشت کاروں کو چند سال پہلے تک اس بارے میں معلوم نہیں تھا۔

کاشت کاروں اور آبپاشی کے محکموں کو پانی ذخیرہ کرنے سے بہت کم دلچسپی ہے کیونکہ پانی کے نرخ مضحکہ خیز حد تک کم ہیں جیسا کہ اوپر بتایا جا چکا ہے اور حکومت غریب کاشت کاروں کی مدد کے بہانے ان کی اعانت کرتی ہے۔شہروں میں واٹر میٹرنگ سسٹم نصب ہونا چاہیئے تاکہ لوگ استعمال کے مطابق پانی کی قیمت ادا کریں۔امیروں کے پاس وسیع اور سر سبز لان ہیں اور غریبوں کو پینے کے لیے پانی نہیں ملتا۔(ayazbabar@gmail.com)