|

وقتِ اشاعت :   December 27 – 2018

پاکستان کی طرف سے افغان طالبان رہنماؤں کو بالآخر امریکا کے ساتھ براہ راست مذاکرات پر آمادہ کرنے کے بعد یہ دوسرا موقع ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے لیے امید کی کرن نظر آئی ہے۔امریکا کے خصوصی نمائندہ برائے افغانستان زلمے خلیل زاد اور افغان طالبان رہنماؤں کے درمیان مذاکرات18 دسمبر کو ابو ظہبی(متحدہ عرب امارات) میں ہوئے۔ پہلے یہ بات چیت دوحہ میں طے تھی مگر قطر اور خلیجی ملکوں کے درمیان کشیدہ تعلقات کی وجہ سے مقام تبدیل کر کے ابو ظہبی کا چناؤ کیا گیا۔پاکستان متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کو مذاکرات میں شامل کرنا چاہتا تھاکیونکہ طالبان کے ساتھ ان کے اچھے تعلقات ہیں اور یہ دونوں ملک افغان طالبان کی کچھ مالی مدد بھی کرتے ہیں۔یہ پہلا موقع ہے کہ امریکہ نے حقانی گروپ کو سامنے بٹھا کر اس سے بات چیت کی،حالانکہ اقوام متحدہ کی طرف سے انھیں دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔

خلیل زاد نے بات چیت کو ” نتیجہ خیز ” قرار دیا۔مگر کسی بھی فریق کی طرف سے بات چیت کے اگلے دور کے بارے میں نہ تو کوئی مخصوص وقت بتایا گیا اور نہ یہ تفصیل دی گئی کہ ان میں کن معاملات پر اتفاق رائے ہوا۔دونوں فریقوں نے قیدیوں کی رہائی کا ذکر کیا،خلیل زاد نے امریکن یونیورسٹی آف افغانستان کے دو پروفیسروں کی رہائی کے لیے کہا جنھیں طالبان نے اگست2016 میں اغوا کیا تھا ۔اس کے بدلے میں حقانی گروپ نے انس حقانی کی رہائی کا مطالبہ کیا،جو اس گروپ کے لیڈر سراج الدین حقانی کے بھائی ہیں۔انس کو افغان انٹیلیجنس نے2014 میں گرفتار کیا تھا۔

بات چیت کی کامیابی کا اصل اشارہ،دونوں فریقوں کی جانب سے ایک دوسرے کے قیدیوں کی رہائی سے ملے گا۔کہا جاتا ہے کہ اس ضمن میں پیش رفت ہوئی ہے۔افغان طالبان کے لیے بڑی اور اچھی خبر یہ ہے کہ صدر ٹرمپ افغانستان سے 7,000 امریکی فوجی واپس بلا رہے ہیں۔اس کا مطلب افغانستان میں امریکہ کی موجودگی میں50 فیصد کمی ہے۔صدر ٹرمپ کے اس فیصلہ سے اختلاف کرتے ہوئے ان کے وزیر دفاع میٹس استعفا دے چکے ہیں۔

اس سے قبل ،افغان طالبان، امریکا،چین اور روس کے درمیان چار فریقی مذاکرات کی راہ ہموار کرنے کے لیے پاکستان کی کوشش اس وجہ سے ناکام ہو ئی تھی کہ افغان انٹیلیجنس نے یہ راز فاش کر دیا تھاکہ افغان طالبان کے سپریم لیڈر، ملا عمر کئی ماہ پہلے پاکستان کے ایک ہسپتال میں انتقال کر چکے ہیں اور اس کے ساتھ مذاکرات کے حق میں ملا عمر کا ایک نقلی خط گمنام طریقے سے تقسیم کرایا گیا۔اس واقعہ نے افغان طالبان کواپنی تحریک کے نئے امیر اختر منصور کے اعلان پر مجبور کیا ،جومئی2016 میں اس وقت امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے جب وہ ایران کی سرحد عبور کر کے پاکستانی علاقے میں سفر کر رہے تھے۔عام طور سے باور کیا جاتا تھا کہ اختر منصور امریکا کے ساتھ امن مذاکرات کے حق میں نہیں تھے اور اسی لیے امریکیوں نے انھیں راستے سے ہٹا دیا۔

طالبان نے اس کے بعد ہیبت اللہ اخونزادہ کوافغان طالبان کا امیر منتخب کیا۔وہ افغان سرحد کے قریب پاکستان کے ایک گاؤں میں مدرسہ چلاتے تھے۔یہ حقیقت کہ ملا عمر کا انتقال پاکستان کے ایک ہسپتال میں ہوا،ان کے بعد منتخب ہونے والے امیر ملا اختر منصور ایران کے ساتھ ملنے والے ایک سرحدی شہر میں ڈرون حملے میں مارے گئے۔

اُس وقت ان کے پاس پاکستانی پاسپورٹ تھاجس پر وہ متعدد بار متحدہ امارات کا سفر کر چکے تھے اور یہ کہ افغان طالبان کا نیا لیڈر پاکستان میں رہائش پذیر تھا اور ایک کیمپ چلا رہا تھا، امریکا اور افغان حکومت کے ان الزامات کو سچ ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان ،افغان طالبان رہنماؤں کو پناہ دیتا ہے۔پاکستانی دفتر خارجہ کی طرف سے ان الزامات کی ہمیشہ تردید کی گئی ہے۔ دوسری جانب پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے قبائلی علاقوں میں حقانی گروپ کے لیڈروں کی موجودگی کی بھی تردید کی گئی، حالانکہ اسے بخوبی علم تھا کہ افغانستان اور امریکا ہماری تردید پر یقین نہیں کرتے۔

جب بھی امریکی اور افغان حکومت نے اس بات پر اصرار کیا کہ پاکستان کو مزید اقدامات کرنے چاہئیں ،پاکستانی حکومت نے اس ساری بحث کا رخ پاکستانی طالبان کے خلاف آپریشن کی طرف موڑدیا اور یہ موقف اختیار کیا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے گناہ شہریوں اور مسلح افواج کے اہل کاروں سمیت 70,000 افرادکی جانوں کی قربانی دی ہے۔یہاں یہ بات یاد رہے کہ ابتدا میں پاکستانی طالبان ہماری اپنی اسٹیبلشمنٹ کی تخلیق تھے۔

تاہم اسٹیبلشمنٹ اس وقت ان کے خلاف ہو گئی جب انھوں نے اپنے ہی آقاؤں کے خلاف بغاوت کر دی اور Frankenstein (1818 میں شائع ہونے والے میری شیلی کے ناول کا افسانوی کردار)بن گئے۔ ہم یہ دعویٰ بھی کرتے رہے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ کی وجہ سے پاکستان کو 123 بلین امریکی ڈالر کا مالی نقصان ہوا۔ امریکہ اور باقی دنیا اس خانہ جنگی میں پاکستان کی طرف سے دی جانے والی قربانیوں کا اعتراف نہیں کرتی کیونکہ جب ان لوگوں کی طرف سے یہ باتیں کی جا رہی تھیں کہ پاکستان،افغان طالبان اور حقانی گروپ کو پناہ گاہیں دے رہا ہے تو ہم دہشت گردوں کی ایک مختلف قسم کی بات کر رہے تھے جو اصل میں پاکستانی تھے اور انھوں نے حکومت کی رٹ کو چیلنج کر رکھا تھا۔

ان پاکستانی دہشت گرد گروپوں کا، جو اسامہ بن لادن کے نظریہ سے متاثر تھے،خیال تھا کہ انھیں بندوق کے ذریعے پاکستان میں اسلامی خلافت قائم کرنی ہے۔لہٰذا عمران خان کی یہ بات غلط ہے کہ ہم پاکستان میں دوسروں کی جنگ لڑتے رہے ہیں۔جیسا کہ اس سے پہلے بتایا جا چکا ہے ہم صرف ان لوگوں کے خلاف لڑے جنھوں نے اس حد تک پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی رٹ کو چیلنج کیا تھا کہ انھوں نے جی ایچ کیو اور دوسری فوجی تنصیبات تک پر حملے کیے۔

اس بار پاکستان ،افغان طالبان رہنماؤں کو ابو ظہبی میں مذاکرات کی میز پر لے آیا۔اس سے یہ لگتا ہے کہ انھوں نے افغانستان میں افغان طالبان اور حقانی گروپ کی شورش کی حمایت کرنے کی پالیسی واقعی تبدیل کر دی ہے اور یہ یقین کرنا چھوڑ دیا ہے کہ وہ 90 کی دہائی کی طرح کابل میں طالبان کی زیر قیادت حکومت قائم کر سکتے ہیں۔90 کے عشرے میں پاکستان کے علاوہ صرف سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے طالبان حکومت کو تسلیم کیا تھا۔

لگتا ہے کہ سوچ کی اس تبدیلی میں چین اور روس کی طرف سے اہم کردار ادا کیا گیا ہے جو پاکستان کو یہ سمجھاتے رہے ہیں کہ وہ اپنی قومی سلامتی کی پالیسی کو آگے بڑھانے کے لیے غیر ریاستی اداکاروں پر انحصار ختم کر دے۔

پاکستان کی پالیسی میں تبدیلی کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ افغانستان نے اُن پاکستانی دہشت گردوں کو پناہ دی جو اپنے خلاف آپریشن کے بعد سرحد پار بھاگ گئے تھے۔افغان انٹیلیجنس پاکستانی طالبان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ پر یہ دباؤ ڈالنے کے لیے استعمال کر رہی ہے کہ وہ افغان طالبان کو روکے جو افغان اور امریکی فوج کے کیمپوں پر سرگرمی سے حملے کرتے رہے ہیں۔

پاکستان کو لائن آف کنٹرولLoC پربھارت کی جانب سے جنگ بندی کی مسلسل خلاف ورزیوں پر بھی پریشانی ہے اور وہ بیک وقت مشرقی اور مغربی محاذوں پر گرما گرمی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ تاہم عمران خان کی حکومت مغربی اور مشرقی پڑوسیوں کے ساتھ دو مسلسل کامیابیوں کا دعویٰ کر سکتی ہے۔

یہ بات عیاں ہے کہ وہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی تائید سے ہی ایسا کر سکتے تھے ،لگتا ہے کہ امریکیوں کو بھی یہ بات سمجھ آ گئی ہے کہ خارجہ پالیسی کے ان معاملات پر اختیار کس کے پاس ہے کیونکہ زلمے خلیل زاد نے ابو ظہبی مذاکرات کے بعد پہلی ملاقات ،وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے نہیں بلکہ چیف آ�آرمی اسٹاف جنرل باجوہ سے کی تھی۔

(کالم نگار تک رسائی کے لیے: (ayazbabar@gmail.com)