|

وقتِ اشاعت :   March 3 – 2019

کوئٹہ/اندرون بلوچستان: کوئٹہ سمیت بلوچستان کے تیس سے زائد اضلاع میں ریکارڈ توڑ طوفانی بارشوں اور برفباری نے تباہی مچادی۔بجلی ، گیس اور مواصلات کا نظام درہم برہم ہوگیا۔مکانات گرنے اور ریلوں میں بہنے سمیت مختلف واقعات میں سات افراد جاں بحق اور بیس سے زائد زخمی ہوگئے۔طوفانی بارش کے بعد ندی نالے بپھرگئے ۔

سیلابی ریلے آبادیوں میں داخل ہوگئے ،ہزاروں مکانات منہدم، ریلوے پٹریاں،گیس پائپ لائن،رابطہ سڑکیں اور پل سیلاب میں بہہ گئے ،بجلی کے کھمبے اور درخت گر گئے ۔درجنوں مال مویشیوں ہلاک ،کروڑوں روپے مالیت کی زرعی فصلوں اور املاک کو نقصان پہنچا۔

برف جمنے ،رابطہ سڑکیں اور پل بہنے سے کوئٹہ،قلعہ عبداللہ، زیارت، پشین، قلعہ سیف اللہ، مستونگ اور سبی کو دیگر اضلاع سے ملانے والی شاہراہیں آمدروفت کیلئے بند ہوگئیں ۔مسافر ویگن اور بسوں سمیت ہزاروں گاڑیاں پھنس گئیں ۔پٹڑی بہنے سے پاک ایران ٹرین سروس بھی معطل ہوگئی۔بلوچستان حکومت نے قلعہ عبداللہ میں ایمرجنسی نافذ کرکے پاک فوج سے مدد طلب کرلی۔امدادی سرگرمیوں کا آغاز کردیا گیا ۔محکمہ صحت نے بھی بلوچستان بھر میں ہیلتھ ایمرجنسی نافذ کردی۔

بارشوں اور برفباری کے باعث ڈیم بھی بھر گئے جس سے خشک سالی کا خطرہ بھی ٹل گیا۔ تفصیلات کے مطابق بلوچستان میں جمعرات کو ہمسائیہ ملک سے گزشتہ روز بادلوں کے مضبوط سسٹم کے داخل ہونے کے سبب بارش اوربرفباری کا نیا سلسلہ شروع ہوا جس نے جمعہ اور ہفتہ کی پوری شب پورے صوبے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

صوبے کے تیس سے زائد اضلاع میں زبردست بارش اور برفباری ہوئی ۔ کوئٹہ، قلعہ عبداللہ اور زیارت میں بارش کا کئی سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ قلعہ عبداللہ میں چوبیس گھنٹوں کے دوران150ملی میٹر جبکہ کوئٹہ میں123ملی میٹر سے زائد بارش ہوئی ۔ کوئٹہ میں تقریباً تین سے پانچ انچ برف بھی پڑی۔ زیارت ، توبہ کاکڑی، توبہ اچکزئی، کان مہترزئی، ہرنائی، ہربوئی سمیت دیگر بالائی اورپہاڑی علاقوں میں دو سے تین فٹ تک برف پڑی۔ 

محکمہ موسمیات کے مطابق کوئٹہ میں ہفتہ کی شام پانچ بجے تک 123ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔ سبی 53،خضدار،دالبندین38، بارکھان37،قلات 34، لسبیلا18، تربت، پنجگور13ژوب09، نوکنڈی 08، جیوانی، اورماڑہ 01بارش ہوئی۔ اس زبردست بارش اور برفباری کے نتیجے میں صوبے میں خشک سالی کا تقریباً خاتمہ ہوگیا ۔کوئٹہ میں فروری2017کے بعد پہلی مرتبہ اس شدت کی برفباری ہوئی ۔

محکمہ موسمیات کا کہنا ہے کہ اتوار کو بعض علاقوں میں وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہے گا تاہم بیشتر علاقوں میں مطلع صاف ہوجائیگا ۔ کوئٹہ میں جمعہ کی شام کو موسلا دھار بارش کا سلسلہ شروع ہوا جو پوری رات جاری رہا ۔ ہفتہ کی صبح برفباری کا سلسلہ شروع ہوا جو دوپہر تک جاری رہا جس سے ہر شے نے سفید چادر اوڑھ لی۔ مکانات، سڑکیں اور درخت برف سے ڈھک گئے۔کوہ چلتن، تکتو، مردار اور دیگر پہاڑمکمل طور پر برف سے ڈھک گئے۔

برفباری کے سبب شہر کا ہر منظر دلفریب ہوگیا۔ شہری حسین موسم سے لطف اندوز ہونے کیلئے گھروں سے باہر نکل آئے تاہم انہیں سڑکوں پر برف جمنے کی وجہ سے مشکل پیش آئی۔شہریوں نے اس کے باوجود تفریحی مقامات ،پہاڑوں اور کھلے میدانوں کا رخ کیا اور کیمرے کی آنکھ سے یادگار لمحات کو محفوظ منایا۔ 

سرد موسم میں شہریوں نے گرم گرم پکوانوں کا بھی لطف اٹھایا ۔ برفباری کے کچھ دیر بعد سورج نکل آیا اور اس کے بعد دوبارہ بادل چھا گئے اور بارش کا سلسلہ شروع ہوا جس سے برف پگل گئی اور پانی کا زبردست بہاؤ شروع ہوگیا۔ بارش اور برف کا پگلتا ہوا پانی گھروں، گلیوں اور سڑکوں پر جمع ہوگیا۔ 

نکاسی آب کے ناقص نظام کے سبب کئی علاقوں میں پانی ریلوں کی شکل آبادیوں میں داخل ہوا جس سے شہریوں کو سخت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور وہ دن بھر گھر سے پانی کی نکاسی میں مصروف دکھائی دیئے۔ 

کوئٹہ کے ہزار گنجی مری کیمپ ، کچلاک ، مشرقی بائی پاس، مغربی بائی پاس، غوث آباد، نواں کلی ، اغبرگ سمیت کئی علاقوں میں بارش اور برفباری کے سبب کچے اور بوسیدہ مکانات کو شدید نقصان پہنچا۔ قمبرانی روڈ پر مکان کی چھت گرنے سے ایک خاتون زخمی ہوئی۔ کلی شیخا ن میں پانی داخل ہونے سے کچھی آبادیوں کو نقصان پہنچا۔ کوئٹہ میں برفباری کے سبب کئی درخت اور بجلی کے کھمبے بھی گر گئے۔ 

ایک درخت تو برف کے وزن کے سبب رکشے پر گرا تاہم کوئی جانی نقصان ہوا۔ کوئٹہ میں بارش اور برفباری کے بعد شہر ی گھروں تک محصور ہوگئے ۔ شہر کی تقریباً تمام مارکیٹیں اور دکانیں بھی بند رہیں کیونکہ سڑکوں پر پانی اور برف جمع تھا اور شہریوں کو آمدروفت میں سخت پیش آرہی تھی۔کئی علاقوں میں طلبہ میٹرک کے امتحانات میں شریک نہ ہوسکے ۔ سریاب روڈ پر مل کے قریب پانی گھروں میں داخل ہونے کے خلاف شہریوں نے احتجاج کیااور سڑک ٹریفک کیلئے بند کی۔ 

اسی طرح شہر میں بجلی کا نظام بھی درہم برہم ہوگیا ۔سریاب ، موسیٰ کالونی، پشتون آباد، پشتون درہ، سمنگلی ، بروری ، نواں کلی سمیت شہر کے کئی علاقوں میں اڑتالیس گھنٹوں سے بجلی غائب ہیں جس سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ بیشتر علاقوں میں گیس بھی غائب رہی جس سے شہری سردی سے ٹھٹھرتے رہے۔رپورٹ کے مطابق کوئٹہ کے نواحی علاقے پنجپائی میں بھی بارش سے مکانات کو نقصان پہنچا ہے ۔

ایک 60سالہ شخص چھت گرنے سے جاں بحق ہوگیا ۔پنجپائی گردگاپ شاہراہ پر ایک گاڑی بہہ گئی تاہم لیویز اہلکاروں نے گاڑی میں سوار تین افراد کو زندہ بچا لیا گیا۔مستونگ میں بھی زبردست بارش اور برفباری ہوئی جس سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ لکپاس کے مقام پر برف جمنے کی وجہ سے کوئٹہ کراچی شاہراہ بند ہوگئی۔ مستونگ اور کوئٹہ کا بھی آپس میں رابطہ منقطع ہوگیا۔ 

بارش کے سبب کئی کچے مکانات کو بھی نقصان پہنچا۔ حالیہ بارشوں سے سب سے زیادہ پاک افغان سرحدی ضلع قلعہ عبداللہ متاثر ہوا ۔ قلعہ عبداللہ کے علاقے سب ڈویژن قلعہ عبداللہ ، تحصیل گلستان، چمن میں دو دنوں تک مسلسل طوفانی بارش ہوئی جبکہ بالائی علاقوں میں برفباری ہوئی۔ضلع میں بارش کا پندرہ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ۔

انتظامیہ نے ضلع میں ہنگامی صورتحال کے پیش نظر ایمرجنسی نافذ کردی اور پاک فوج سے بھی مدد طلب کرلی۔ضلع میں طوفانی بارش سے ندی نالے بھپر گئے اور سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کرلیا۔قلعہ عبداللہ سے مقامی صحافی حیات اللہ نے بتایا کہ ضلع میں اڑتالیس گھنٹوں تک مسلسل بارش کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوگئی۔ قلعہ عبداللہ بازار پانی میں ڈوب گیا ۔سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کیا جس سے لوگوں میں خوف و ہراس پھیل گیا اور انہوں نے مکانات کی چھتوں پر پناہ لی۔ 

خواتین اور بچوں کو سیڑھیوں کی مدد سے گھروں سے نکال کر محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔ شہریوں نے آر ایچ سی قلعہ عبداللہ کے ڈاکٹر کالونی سمیت قریب کے دیہاتوں میں پناہ لی۔ سیلابی ریلوں کے باعث انتظامیہ بھی بروقت علاقے میں نہ پہنچ سکی جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو میں حصہ لیا۔ایک موقع پر شہر پر تباہی کے اثرات منڈ لانے لگے تاہم پانی کے مختلف سمتوں میں نکل جانے سے اثرات ختم ہوگئے ۔ 

بارش اور ریلوں کے سبب سینکڑوں کچے اور بوسیدہ مکانات منہدم ہوگئے ہیں ۔ قلعہ عبداللہ کے علاقے حبیب زئی اور گلستان کے علاقے عبدالرحمان زئی میں چھتیں گرنے سے دو بچے جاں بحق ہوگئے۔کوئٹہ چمن شاہراہ پر واقع مشہور باغک پل بھی سیلابی ریلے کی نذڑ ہوگیا جس سے ٹریفک کی آمدروفت معطل ہوگئی جبکہ سیلابی ریلوں کے سبب قلعہ عبداللہ کا چوبیس گھنٹے سے زائد تک دیگر علاقوں سے زمینی رابطہ کٹا رہا۔ 

ایف سی نے متاثرین کو دوپہر کا کھانا پہنچایا جبکہ اسسٹنٹ کمشنر قلعہ عبداللہ جہانزیب شیخ اور ڈی ایس پی جمیل احمد لیویز اور پولیس کی بھاری نفری کے ہمراہ صورتحال کا دن بھر جائزہ لیتے رہے ۔انتظامیہ کے مطابق صرف قلعہ عبداللہ بازار اور قریبی دیہاتوں میں چار سو مکانات کے کمرے، چھتیں اور دیواریں منہدم ہوئی ہیں۔ 

ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ شفقت انور نے بتایا کہ ضلع کا سب سے متاثرہ علاقہ سب ڈویژن قلعہ عبداللہ رہاجہاں ایک ہزار سے زائد مکانات پانی میں ڈوبے ہوئے ہیں جس کے نتیجے میں انہیں شدید نقصان پہنچا ہے۔ رابطہ سڑکیں اور پل بھی ریلوں میں بہہ گئے ہیں جس سے آمدروفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ 

انہوں نے بتایا کہ بارشوں کا سلسلہ تھمنے کے بعد نقصانات کی صحیح معلومات مل سکیں گی۔ انہوں نے بتایا کہ متاثرہ افراد کی امداد کیلئے پندرہ ٹرکوں پر مشتمل امدادی سامان بھیجا جارہا ہے جو ہمیں کچھ دنوں قبل پی ڈی ایم اے کی جانب سے خشک سالی سے متاثرہ علاقوں کی امداد کیلئے ملا تھا۔

ہم نے مزیدا مداد کیلئے بھی صوبائی حکومت سے رابطہ کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ قلعہ عبداللہ کے قریب دو بچوں کے ندی میں بہنے کی بھی اطلاع ہیں ۔دوسری جانب چمن کے علاقوں گلدارہ باغیچہ، کلی ٹھیکیدار، روغانی، پرانا چمن سمیت دیگر علاقوں میں پانی جمع ہوگیاجس سے زائد گھروں کی دیواریں اور کمرے منہدم ہوگئے۔ کلی ٹاکئی ، کلی ٹھیکیدار، گلدار باغیچہ کچے مکانات کی چھت گرنے سے نو سالہ بچے سمیت2افراد جاں بحق اور9افراد زخمی زخمی بھی ہوئے۔

ضلعی انتظامیہ نے متاثرہ علاقوں اور بوسیدہ مکانات سے شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقلی کی ہدایت کی۔کوڑک ٹاپ پر ڈیڑھ سے 2 فٹ تک برف پڑ نے سے کوئٹہ چمن بین الاقوامی شاہراہ گزشتہ رات سے ہر قسم کی ٹریفک کے لئے بند ہے۔اسسٹنٹ کمشنر کی سربراہی میں لیویز فورس بلڈوزروں کی مدد سے مسلسل 20 کلومیڑ کے پہاڑی موڑوں سے برف ہٹا رہی ہے تاہم برفباری کی وجہ سے مشکلات کا سامنا ہے۔ 

کوئٹہ چمن شاہراہ پر دو دیگر مقامات پر بھی پل تباہ ہونے اور سڑک بہنے سے بند رہی۔ قلعہ عبداللہ کا علاقہ گلستان بھی بارشوں سے شدید متاثر ہوا ۔درجنوں کچے مکانات گر گئے ۔کوئٹہ چمن ریلوے سیکشن کی پٹڑی کا کئی فٹ حصہ سیلاب سے متاثر ہوا۔220 کے وی کا ایک کھمبا بھی گرگیا جس کے بعد گلستان کو بجلی کی فراہمی منقطع ہوگئی ۔

عبدالرحمان زئی میں گاؤں کے ٹیوب ویل اور قبرستان پانی میں ڈوب گیا ۔ پانی گھروں کے اندر داخل ہونے کے باعث لوگ اپنی مدد آپ کے تحت ریسکیو کا کام شروع کردیا اور رات گئے تک لوگ گھروں سے پانی نکالتے رہے۔

گلستان میں سیلابی پانی کا ریلہ ایک قبرستان میں بھی داخل ہوا جہاں قبروں کو شدید نقصان پہنچا۔ڈپٹی کمشنر قلعہ عبداللہ نے بتایا کہ ضلع کے بالائی علاقے توبہ اچکزئی کا رابطہ ضلع سے منقطع ہے جس کی بحالی کا کام جلد شروع کیا جائیگا۔ 

ایران سے ملحقہ بلوچستان کے ضلع کیچ میں جمعرات کی صبح شروع ہونیوالا بارش کا سلسلہ جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب شدت اختیار کر گیاجس سے تربت، بلیدہ،مند، تمپ،سامی اورہوشاپ میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔

کیچ ندی اور نہنگ ندی میں سیلابی کیفیت پیدا ہوگئی۔اسی طرح کیچ سے ملحقہ ایرانی سیستان و بلوچستان میں بندٹوٹنے سے سیلابی ریلا نہنگ ندی میں داخل ہوگیا جس سے رود بن پل بہہ گیا۔میرانی ڈیم بھی پانی سے بھر گیا ۔ سیلابی کیفیت پیدا ہونے سے میرانی ڈیم، نہنگ اور کیچ کور سے متصل آبادی میں خوف و ہراس پھیل گیا۔

ناصر آباد کے قریب کیچ ندی اور نہنگ ندی سے سیلابی ریلا آبادی میں داخل ہوا جس سے کئی افراد پھنس گئے ۔ندی نالوں کے سیلابی پانی نے کئی بستیوں میں مکانات اور املاک کو نقصان پہنچایا۔سینکڑوں ایکڑ اراضی پر پھیلے کھجور کے باغات تباہ ہوگئے.۔ 

زعمران کے علاقے میں طوفانی بارش سے دکانیں گرگئیں۔ندیوں کے قریب والے علاقوں میں ایف سی اور انتظامیہ نے آبادی کو محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کیلئے ہدایات جاری کیں اس سلسلے میں مساجد میں باضابطہ اعلانات کرائے گئے۔ خطرے کے پیش نظر کئی گاؤں اور دیہات کے مکین محفوظ مقامات پر منتقل ہوئے۔

کیچ کور پل کو ٹریفک کیلئے بند کردیاگیا۔ کیچ کور کے حفاظتی بند میں شگاف کے باعث یوسی کوشقلات، پٹھان کہور میں لوگوں میں سراسیمگی پھیل گئی۔ندیوں کے قریب آبادی کو انتظامیہ کی جانب سے لوگوں کو الرٹ رہنے کے احکامات دیئے گئے۔مند میں تین افراد سیلابی ریلے میں پھنس گئے ۔

آسکانی کور آبسر میں بھی طغیانی پیدا ہوگئی جس سے خواتین اور بچے سمیت16افراد پھنس گئے جنہیں ایف سی اور مقامی انتظامیہ نے فوری ریسکیو ٹیمیں تشکیل دے کربحفاظت نکال دیا۔ ایف سی ہیلی کاپٹروں کی مدد سے تمام افراد کو ریسکیو کرنے کے بعد ایف سی ہیڈ کوارٹر میں طبی امدا د دیا گیا۔

ریسکیو آپریشن کی نگرانی کمانڈنٹ ایف سی ہارون شاہد، ایف سی کرنل شاہد چوہدری، میجر ابراہیم بلوچ ، اے سی تربت خرم خالد ، اے ڈی سی سراج کریم نے کی۔اس موقع پر تحصیلدار تربت شیر جان دشتی ،ایس ایچ او شاہ آباد اللہ داد بلوچ سمیت انتظامی افسران بھی موجود تھے۔

بلیدہ میں بندات ٹوٹنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں ۔خیر آباد سمیت کئی مقامات پر نخلستان اور باغات زیر آب آگئے۔دوسری جانب بارشوں اور ندی نالوں میں پانی جمع ہونے کے سبب میٹرک کے جاری امتحانات شدید متاثر ہوئے ہیں بلیدہ، دشت اور تمپ میں کئی امیدوار امتحانی مراکز نہ پہنچ سکے۔

ایف سی کے کرنل شاہد نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کیچ میں سیلابی کیفیت پیدا ہونے کے بعد تربت،تمپ، منداور میرانی ڈیم میں چارایمرجنسی کیمپ قائم کئے گئے جہاں کسی بھی ہنگامی صورت میں لوگوں کو محفوظ کیا جاسکے گا۔ 

پنجگور میں سیلابی ریلے میں سے این 85سی پیک شاہراہ کا ایک حصہ بہہ گیا جس سے آمدروفت معطل ہوگئی۔ انتظامیہ کے مطابق آمدروفت کی بحالی کا کام جاری ہے۔بلوچستان حکومت کے ترجمان کے مطابق صوبہ بھر میں حالیہ با رشوں اور بر ف با ری سے متا ثر ہ خا ند انوں کی فور ی امد ادکے لئے متا ثرہ اضلا ع کی انتظا میہ اور لیو یز فور س پو ری طرح متحر ک ہے ۔ 

متا ثرین کو محفو ظ مقا مات تک پہنچا نے اور انہیں خوراک اور دیگر ضروری اشیا ء کی فر اہمی کی جا رہی ہے ۔ادھر زیارت میں بھی برفباری کا کئی سال پرانا ریکارڈ ٹوٹ گیا۔ ضلع میں گزشتہ دو روز سے برفباری کا سلسلہ جاری ہے جس سے پہاڑوں سمیت ہر شے نے سفید چادر اوڑھ لی۔شدید برفباری کی وجہ سے کئی درخت گر گئے اورباغات کو نقصان بھی پہنچا ہے۔

کوئٹہ زیارت شاہراہ سمیت دیگر رابطہ سڑکوں پر برف جمنے کی وجہ سے ضلع کا پورے ملک سے رابطہ منقطع ہے۔ ڈپٹی کمشنر زیارت کے مطابق زیارت میں شدید برفباری کی وجہ سے ضلع کی تمام سڑکیں ہر قسم کی ٹریفک کیلئے بند ہے اس لئے شہری غیر ضروری سفر سے گریز کریں اور ایمر جنسی کی صورت میں یا رہنمائی حاصل کرنے کیلئے مندرجہ ذیل نمبرز پر رابطہ کریں۔0833920052پر رابطہ کریں ۔

پشین میں بھی موسلا دھار بارش ہوئی جس سے کلی لمڑان ،کلی تراٹہ،کمالزئی،کربلا ،مچان،کلی بسو،سیمزئی،حرمزئی،خیر آباد،توبہ کاکڑی،ولمہ،زیارت،سرٹال،کچ یاسین زئی،خدائیدازئی،ہیکل زئی،سرانان ،شادیزئی،بٹے زئی،برشور ،خانوزئی،مندوزئی ،شادیزئی،بوستان اور گانگلزئی میں نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔

ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوگئی۔سیلابی ریلے آبادی والے علاقوں میں داخل ہوئے۔حرمزئی کے دیہات سیمزئی میں سیلابی ریلے میں بہہ کر65سالہ حاجی پیر محمد جاں بحق ہوگئے۔طوفانی بارش سے ابراہیم زئی کا ڈیم ٹوٹ گیا جبکہ علی زئی ڈیم میں بھی گیارہ مقامات پر شگاف پڑ گئے جس سے قریبی علاقے زیر آب آگئے ۔

کلی ملکیار میں ندی نالوں میں طغیانی سے پانچ دیہاتوں کا زمینی رابطہ منقطع ہوگیا۔ علاقے کے واحد گرلز اسکول میں بھی پانی جمع ہوگیا جس سے تدریسی سرگرمیاں متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔ سرخاب مہاجر کیمپ میں شدید بارش اور پانی جمع ہونے سے دو سو سے زائد کچے مکانات منہدم ہوگئے جس سے بڑی تعداد میں افغان مہاجرین بے گھر ہوگئے تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ کلی کربلا میں سیلابی ریلے کئی افراد پھنس گئے ۔

ڈپٹی کمشنر میجر (ر) اورنگزیب بادینی نے ڈسٹرکٹ کے مختلف تحصیلوں کا دورہ کرکے بارش سے ہونیوالے نقصانات کا تفصیلی جائزہ لیا اور متاثرہ ڈیم کے پانی رخ تبدیل کرکے علاقے کو تباہی سے بچادیا جبکہ اس موقع پر ڈپٹی کمشنر نے محکمہ ایریگیشن سمیت دیگر متعلقہ محکموں کو بارشوں سے پیدا ہونیوالی صورتحال سے نمٹنے کی فوری ہدایت کی۔ ادھر پشین کے پہاڑی علاقے توبہ کاکڑی میں دو دن سے برفباری کا سلسلہ جاری ہے جس سے علاقے میں نظام زندگی مفلوج ہوگیا ہے۔ 

علاقے کے ایک مکین محب اللہ کاکڑ نے ٹیلیفون پر بتایا کہ انہوں نے بتایا کہ برشور سے انیس کلومیٹر دور کالا باغ کے مقام پر تین فٹ سے زائد برف پڑی ہے۔برشورکا رابطہ دو دنوں سے باقی پورے ضلع سے منقطع ہے جس سے لوگوں کو سخت مشکلات کا سامنا ہے۔ بجلی بھی تین دنوں سے غائب ہیں ۔ہرنائی ، شاہرگ ، کھوسٹ اور ملحقہ علاقوں میں بھی زبردست بارش اور برفباری ہوئی ۔نشیبی علاقے زیر آب آنے اور زبردست بارش سے کچے مکانات کو نقصان پہنچا ہے۔

اسپین تنگی کلی چھاپ میں ایک دینی مدرسہ کے تین کمرے منہدم تاہم طلباء محفوظ رہے۔شاہرگ کلی مرغہ میں بجلی کاکرنٹ لگنے سے پائند خان نامی شخص جاں بحق ہوگیا۔ پہاڑوں پر برفباری کے باعث کوئٹہ ہرنائی اور کوئٹہ پنجاب شاہراہ کئی گھنٹوں تک ٹریفک کیلئے بند رہی۔ ڈپٹی کمشنر ہرنائی عظیم جان دمڑ کے مطابق کھوسٹ سے کچھ تک چالیس کلومیٹر تک کی سڑک پر برف کو نجی ٹریکٹروں کی مدد سے ہٹایا گیاجس کے بعدہرنائی کوئٹہ شاہراہ کو ٹریفک کیلئے بحال کردیاگیا۔ 

ہم نے زیارت کی حدود میں بھی کام کیا تاکہ وہاں کی انتظامیہ کی مدد کی جاسکے۔ ضلعی انتظامیہ نے مسلسل بارش کے باعث تمام محکموں کو الرٹ جاری کیا اورڈی سی آفس ہرنائی میں کنٹرول روم قائم کیا۔کمشنر ژوب ڈویژن کے مطابق ژوب ڈویژن میں سب سے زیادہ متاثرہ ضلع قلعہ سیف اللہ ہے جس کے نواحی علاقوں کان مہترزئی، مسلم باغ، کنچوغی اور ملحقہ علاقوں میں دو دنوں سے شدید برفباری کا سلسلہ جاری ہے۔برفباری کے نتیجے میں یہ علاقے مکمل طور پر رابطے سے کٹ گئے ہیں۔

مواصلاتی رابطے بھی ممکن نہیں جس کی وجہ سے نقصانات کی معلومات حاصل نہیں ہورہی۔ اطلاعات ہیں کہ کچے مکانات کو برفباری سے بڑے پیمانے پر نقصانات ہوئے ہیں۔ 

مال مویشی کی بھی اموات ہوئی ہیں۔انہوں نے بتایا کہ کان مہترزئی کے مقام پر کوئٹہ قلعہ سیف اللہ شاہراہ بھی بند رہی جس سے پنجاب سے آنے اور جانے والی سینکڑوں مسافر بسوں کے علاوہ بڑی تعداد میں دیگر چھوٹی بڑی گاڑیاں بھی پھنس گئے۔ 

ان بسوں اور گاڑیوں میں سوار ہزاروں بھی پھنس گئے جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے اور انہیں سخت سردی میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے بتایا کہ ضلعی انتظامیہ قومی شاہراہ کو بارہ گھنٹے بعد ٹریفک کیلئے ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب بحال کردیا جس کے بعد ڈیڑھ سے زائد مسافر بسوں کو کوئٹہ اور ڑوب کی طرف روانہ کردیاگیا تاہم برفباری کا سلسلہ جاری رہنے کی وجہ سے شاہراہ کی دوبارہ بندش کا خدشہ ہے اس لئے شہری کوئٹہ قلعہ سیف اللہ شاہراہ پر سفر کرنے سے گریز کریں۔ 

انہوں نے بتایا کہ دکی میں بارشوں سے کچے مکانات کو نقصان پہنچنے کی اطلاع ہے۔ ژوب اور شیرانی بھی بارش ہوئی ہے تاہم وہاں کسی جانی یا بڑے پیمانے پر کسی مالی نقصان کی اطلاع نہیں۔چاغی سے مقامی صحافی علی رضا رند نے بتایا کہ ضلع میں جمعہ اور ہفتہ کی درمیانی شب بارش کا سلسلہ شروع ہوا جو پوری رات ہفتہ کی صبح تک جاری رہا۔ محکمہ موسمیات کے مطابق چاغی کے صدر مقام دالبندین میں چوبیس گھنٹوں کے دوران 44 ملی میٹر بارش ریکارڈ کی گئی۔

موسلا دار بارش کے نتیجے میں ندی نالوں میں طغیانی پیدا ہوگئی اور سیلابی ریلوں نے آبادیوں کا رخ کرلیا۔ ریلے میں بہہ کر افغان مہاجر کیمپ گردی جنگل کا رہائشی جاں بحق ہوگیا ۔دالبندین کے قریب سیلابی ریلوں سے پاک ایران ریلوے سیکشن کی پٹڑی کو بھی شدید نقصان پہنچا۔سینکڑوں فٹ پر مشتمل ریلوے پٹڑی کا نچلا حصہ بہہ گیا جس کے بعد کوئٹہ اور تفتان سے آنے والی کارگو ٹرینوں کو روک دیا۔

کوئٹہ اورزاہدان آنے جانے والی دو مال بردار ٹرینوں کو پیشوک اوردالبندین اسٹیشن پر روکاگیا۔دالبندین کے نواحی علاقوں کلی کوئی خان اور کلی محمد رحیم میں سیلابی ریلہ داخل ہونے سے متعدد کچے مکانات منہدم ہوگئے جبکہ درجنوں خاندان اپنے گھر بار چھوڑ کر محفوظ مقامات کی طرف منتقل ہوگئے اس کے علاوہ ضلع چاغی کے مختلف علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہوگیا اور متعدد مقامات پر سیلابی ریلوں کے باعث کچے راستے مسدود ہوگئے۔

اطلاع ملنے پر ڈپٹی کمشنر چاغی فتح خان خجک، ایس پی محمدہاشم، اسسٹنٹ کمشنر حبیب ناصر، میونسپل کمیٹی دالبندین کے ایڈمنسٹریٹر حاجی غلام عباس بوہڑ اور پاک فوج و ایف سی کے افسران نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کرکے صورتحال کا از خود جائزہ لیا جہاں سرکاری و نجی مشنری کی مدد سے سیلابی ریلے کے سامنے بند باندھ کر پانی کا راستہ روکا گیا جبکہ میونسپل کمیٹی دالبندین کے ایڈمنسٹریٹر حاجی غلام عباس بوہڑ کی زیر نگرانی متعدد علاقوں کے گلی محلوں اور گھروں میں داخل ہونے والے برساتی پانی کی نکاسی کی گئی اور یہ سلسلہ دن بھر جاری رہا۔

دریں اثناء ڈپٹی کمشنر چاغی فتح خان خجک نے سیلابی صورتحال سے متاثرہ علاقوں کے درجنوں خاندانوں میں خیمے، راشن اور ضروری امدادی اشیاء بھی تقسیم کی۔ ڈپٹی کمشنر فتح خان خجک، اسسٹنٹ کمشنر حبیب ناصر، سپرنٹنڈنٹ آف پولیس چاغی محمد ہاشم، میونسپل کمیٹی دالبندین کے ایڈمنسٹریٹر حاجی غلام عباس اور تحصیلدار دالبندین محمد ہاشم دن بھر امدادی کارروائیوں کی نگرانی کرتے رہے۔

نوشکی میں بھی زبردست بارش ہوئی۔ ضلع کے علاقوں کشینگی، گلنگور، گوری ،قادر آباد، قاضی آباد، مل کوچکی،احمدوال اور ملحقہ علاقوں میں بھی طوفانی بارشوں نے تباہی مچادی ۔ درجنوں میویشی سیلابی ریلوں میں بہہ کر ہلاک ہوگئے۔موسلا دھار بارش سے خیصار نالے میں شدید طغیانی پیدا ہوگئی جس سے متعد دیہات خطرے میں پڑ گئے ۔ 

دو دیہاتوں کلی محمد حسنی اور کلی فقیران کے حفاظتی بندات ٹوٹ گئے جبکہ نوکجو کلی جمالدینی ،کلی احمد وال گومازگی سمیت ضلع کے مختلف علاقوں بندات سیلاب میں بہہ گئے جس سے فصلوں اور زرعی ٹیوب ویلوں کو شدید نقصان پہنچا ۔کلی بادینی ،کلی جمالدینی فقیران سمیت کئی دیہاتوں کے زمینی رابطے تاحال منقطع ہیں ۔

ضلعی انتظامیہ ، پاک فوج ، پولیس اور لیویز کے اہلکارنے مختلف علاقوں میں سیلابی ریلوں میں پھنسے افراد کو ریسکیو کیا ۔ اسی طرح سیلابی ریلوں کو آبادی میں داخل ہونے سے روکنے کیلئے بھاری مشنری تعینات کی گئی۔ 

ڈپٹی کمشنر نوشکی عبدلرزاق بلوچ ،کمانڈر 110 ونگ نوشکی ،ایس پی نوشکی پولیس خالد باقی نے فورس کے جوانوں کے ہمراہ متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا۔نوشکی کے قریب کوئٹہ تفتان ریلوے پٹڑی کو مختلف مقامات پر سیلابی ریلوں سے نقصان پہنچا جس سے پاکستان اور ایران کے درمیان ٹرین سروس معطل ہوگئی۔ کوئٹہ تفتان آر سی ڈی شاہراہ کو بھی سیلابی ریلوں سے نقصان پہنچا ہے جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔ 

دوسے نالہ میں سیلابی ریلہ آنے سے دو گھنٹے تک آر سی ڈی شاہراہ ٹریفک بند رہی۔ طوقی آباد کے قریب نالہ میں گاڑی سیلابی ریلہ میں بہہ گئی تاہم ڈرائیور محفوظ رہا۔ احمد وال میں ۱۱ ہزار کے وی کا تار ٹوٹنے سے جانوروں کے باڑ میں بیس جانور ہلاک ہونے کی اطلاع ملی ہے ۔کراچی سے ملحقہ ضلع لسبیلہ کے علاقے اوتھل ، بیلہ اور لاکھڑا میں بھی طوفانی بارشوں نے تباہی مچا دی۔ بارش اس قدر شدید تھی کہ نکاسی آب کا نظام درہم برہم ہوگیا۔نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔

اوتھل اور بیلہ میں نشیبی علاقے زیرآب آگئے اور تمام گلیاں اورسڑکیں ندی نالوں کا منظر پیش کرنے لگیں۔اوتھل شہر کے وسطی علاقے شیدی محلہ میں گھر کی چھت گرنے سے 6 بچے چار سالہ صاحبہ بنت نظر محمد ،تین سالہ منصور ولد نظر محمد ،چار سالہ شاہ زیب ولد سیف اللہ،پانچ سالہ کائنات بنت روزی خان ،تین سالہ فضیلہ بنت روزی خان اور نادیہ بنت سیف اللہ زخمی ہوگئے جنہیں فوری طور پر ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹرہسپتال اوتھل منتقل کردیا گیا۔2 شدید زخمی بچوں فضیلہ اور نادیہ کو کراچی ریفر کردیا گیا۔

علاوہ ازیں درجنوں کچے دیگر مکانات کو بھی شدید نقصان پہنچا۔اکثر محلوں اور بازار میں بارش کا پانی گھروں اور دکانوں میں داخل ہونے سے قیمتی سامان کو نقصان پہنچا۔لوگ اپنی مدد آپ کے تحت گھروں سے پانی نکالا۔

اس موقعے پر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ کی ہدایت کے باوجود میونسپل کمیٹی اوتھل کی کارکردگی صفر رہی۔جب کہ اوتھل میں کھانٹا ندی اور لنڈا ڈھورہ میں طغیانی کے خطرے کے پیش نظر ڈپٹی کمشنر لسبیلہ شبیر احمد مینگل نے الرٹ جاری کرنے کے علاوہ خود بھی بارش میں علاقے کا دورہ کرتے رہے۔

پولیس اور ایدھی کی رضا کار ٹیموں نے بھی مختلف علاقوں کا دورہ کرکے پانی میں پھنسے لوگوں کو ریسکیو کیا۔خضدار سے نمائندہ آزادی کے مطابق ضلع میں جمعہ کی صبح شروع ہونے والی بارش ہفتے کی شب بھی وقفہ وقفہ سے جاری رہی موسلا دھار بارش ہونے کی وجہ سے نشیبی علاقے زیر آب اور ندی نالوں میں طغیانی بھی آ گئی ۔

اسماعیل آباد خضدار اور تحصیل وڈھ کے علاقوں روستو میں متعدد مکانات کی دیوریں منہدم ہونے کی اطلاعات بھی موصول ہوئی ہیں جبکہ کرخ میں سیلابی ریلے کی وجہ سے خضدار رتو دیرو قومی شاہراہ ٹریفک کے لئے بند ہوگئی۔ سیلابی ریلے کے دونوں اطراف میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں جس سے خضدار آنے اور شہداد کوٹ جانے والے مسافرشدید پریشانی کا شکار رہے ۔

کسی بھی ممکنہ صورتحال سے نمٹنے کے لئے ڈپٹی کمشنر خضدار نے ضلع بھر میں ہائی الرٹ کر کے تمام ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کرنے کے علاوہ متاثرہ مقامات کا بھی دورہ کیا اور متاثرین کی بحالی کے لئے اقدامات اٹھائے جبکہ بارش کے باعث بجلی کی متعدد فیڈروں سے سپلائی معطل رہی جس کے باعث صارفین کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا بارش کی باعث سردی کی شدت میں بھی اضافہ محسوس کی جا رہی ہے۔

بارشوں کے سبب خضدار کے تمام چھوٹے بڑے ڈیموں میں پانی کی سطح بلند ہوگئی تاہم ان ڈیموں سے اس وقت تک آبادیوں کو کوئی خطرہ نہیں۔د ریں کمشنر قلات ڈویژن بشیر احمد بنگلزئی نے قلات ڈویژن میں حالیہ بارشوں کے بعد کے صورتحال سے نمٹنے اور اس حوالے سے جاری امدادی سرگرمیوں کی نگرانی کے لئے کمشنر سیکرٹریٹ میں جاری کنٹرول روم کی مدت میں مزید توسیع کردی گئی ہے ۔

ڈویژنل سطح پر اسسٹنٹ کمشنر ریونیو انجینئرعائشہ زہری کو فوکل پرسن مقررکردیا گیا ہے کنٹرول روم نمبر3285 084841اور03350326517اسسٹنٹ کمشنر ریونیو قلات ڈویژن و فوکل پرسن عائشہ زہری کے مطابق کنٹرول روم کے قیام کا مقصد امداد و بحالی کی سرگرمیوں کو مربوط کرنا ہے متاثرہ علاقوں کے عوام ہمہ وقت اپنے مسائل اور مشکلات سے متعلق کنٹرول روم سے رابطہ کر سکتے ہیں۔

قلات میں بھی موسلا دھارش بارش ہوئی ۔ پہاڑوں پر برف پڑی ۔نشیبی علاقے زیر آب آگیا متعدد علاقوں میں بارش کا پانی گھروں میں داخل ہو نے سے شہریوں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تاہم بارش اور برف باری سے شہریوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔شہریوں کا کہنا تھاکہ خشک سالی کے اثرات اب ختم جائیں گے ۔ بارانی علاقوں میں گندم سیب آڑو خوبانی چیری اور دیگر فصلوں کو تقویت ملے گی ۔

بارش کی وجہ سے سردی کی شدت میں مزید اضافہ ہوگیا جبکہ سوئی گیس کی مکمل بندش کی وجہ سے شہری شدید سردی میں ٹھٹھرتے رہے۔شہید سکندرآباد سوراب میں بھی بارشوں سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے۔ سڑکوں اور گلیوں میں پانی جمع ہوگیا۔ ڈپٹی کمشنر ڈاکٹر خدائے رحیم میروانی کی خصوصی ہدایت پر لیویز اہلکار الطاف حسین کی سربراہی میں لیویز اہلکارسوراب سٹی کے مختلف کلیوں میں جاکربارشوں سے ہونے والے نقصانات کا جائزہ لیا۔

ضلع بولان کے علاقے گوکرت کے برساتی نالے میں طغیانی کے سبب کوئٹہ سبی شاہراہ بند ہوگئی جس سے دونوں اطراف میں سینکڑوں گاڑیاں پھنس گئیں ۔مسافر کوچز اور ویگن کے مسافر سخت سردی میں ٹھٹھرتے رہے ان کے پاس کھانے پینے کا سامان بھی ختم ہوگیا۔

سوئی سدرن کوئٹہ کے ترجمان کاشف صدیقی نے بتایا کہ مچھ کے قریب ندی کے درمیان میں سے گزرنے والی چار انچ قطر کی گیس پائپ لائن سیلابی ریلے سے بہہ گئی جس سے مچھ شہر کو سوئی گیس کی فراہمی معطل ہوگئی ۔سبی، لہڑی، بختیار آباد اور اطراف کے علاقوں میں گزشتہ روز شروع ہونے والا بارش تاحال وقفے وقفے کے ساتھ جاری ہے ۔ شدید بارش سے نظام زندگی مفلوج ہوگیا۔ دکانیں اور مارکیٹیں بند رہیں ۔ لوگ گھروں تک محصور ہوکر رہ گئے ۔

شہر کی گلیاں اور سڑکیں تالاب میں بد ل گئیں جس کی وجہ سے شہریوں اور راہ گیروں کو شدید پریشانی و مشکلات کا سامنا ہے ۔شدید بارشوں کے باعث شہر بھر میں بجلی کی سپلائی معطل ہو گئی ہے اور 24 گھنٹے گررنے کے باوجود بجلی کی سپلائی بحال نہ ہو سکی۔بارشوں کے سبب دیہی علاقوں کا سبی سے زمینی رابطہ بھی منقطع ہے ۔محکمہ آبپاشی کے حکام نے بتایا ہے کہ ہرنائی ،سبی اور بولان میں بارشوں کے باعث مٹھڑی کے مقام پر دریائے ناڑی میں درمیانے درجے کاسیلاب ریکارڈ کیا گیا ۔

مٹھڑی ویر کے مقام پر پانی کا اخراج 11 ہزار کیوسک ہے ۔دریائے بولان میں پانی کا اخراج 3ہزار کیوسک (3 فٹ)پانی زیادہ ہو سکتا ہے جبکہ تلی ندی میں بھی بارشوں کے بعد سیلابی ریلہ گذر رہا ہے ۔ ڈپٹی کمشنر سید زاہدشاہ کی جانب سے کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کے لیے ایمرجنسی نافذ کرکے کنٹرول قائم کردیا ہے ۔

ہنگامی صورت میں عوام کنٹرول روم 08339230250پررابطہ کریں تاہم آخری اطلاعات تک کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے اور بارش کا سلسلہ تا حال وقفے وقفے کے ساتھ جاری ہے۔کوہلو میں اڑتالیس گھنٹوں تک وقفے وقفے سے بارش کا سلسلہ جاری رہا ۔

مسلسل بارش سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں کوہ جاندران ،ٹکیل اور ملحقہ پہاڑی سلسلوں پر ہلکی برفباری کے باعث سردی میں اضافے کے باعث شہری گھروں میں محصور ہوگئے ہیں ۔ضلع میں بارش کے باعث بجلی کے تمام فیڈر ٹرپ کرنے کی وجہ سے ضلع میں گزشتہ چوبیس گھنٹوں سے بجلی کی فراہمی معطل ہونے سے شہریوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

ڈپٹی کمشنر کوہلو منوار حسین نے لیویز لائن میں کنٹرول روم قائم کرکے شہریوں کو ناخوشگوار واقع کی اطلاع دینے کی ہدایت کردی ہے ۔ دریں اثناء دکی اور اس کے علاقوں ناصرآباد ،تھل اسماعیل شہر ،یارو شہر ،بنی کوٹ ،ناناصاحب زیارت اور لونی میں دو روز سے بارش کا سلسلہ جاری ہے ۔شدید بارش کی وجہ سے نشیبی علاقے زیر آب آگئے ہیں۔ ناصر آباد کے علاقے میں کلی ضبطو خان ناصر میں سیلابی پانی زمین سرک جانے کی وجہ سے کوئلہ کانوں میں داخل ہونا شروع ہوگیا جس سے سینکڑوں کانکنوں کی زندگی خطرے میں پڑ گئی۔

واقعے کی اطلاع ملتے ہی ڈپٹی کمشنر دکی اعجاز احمد جعفر اور اسسٹنٹ کمشنر دکی میران بلوچ اور میونسپل کمیٹی کے چیف آفیسر عبدال خان ترین موقع پر پہنچ گئے ۔ڈپٹی کمشنر دکی اعجاز احمد جعفر نے سیلابی پانی کو کوئلہ کانوں میں داخل ہونے سے روکنے کے لئے ایف سی کو فوری طور پر طلب کرلیا ۔میونسپل کمیٹی کا عملہ اور مشینری جائے وقوعہ پر پہنچ گئی ۔

ریسکیو آپریشن شروع کرکے سیلابی ریلے کی بہاو کا رخ تبدیل کرکے نکاسی آب کے مین نالے کی طرف کردیا گیا ۔ڈپٹی کمشنر دکی اعجاز احمد جعفر کے مطابق کوئلہ کانوں میں موجود مزدوروں کو فوری طور پر کانوں سے نکلنے کی ہدایت کرکے سیلابی پانی کا رخ مشینری کے ذریعے تبدیل کرکے برساتی نالے کی جانب تبدیل کردیا گیا۔انہوں نے کہا کہ بروقت کاروائی کی وجہ سے سینکڑوں کوئلہ مزدوروں کو بچھا لیا گیا۔

شدید بارشوں کی وجہ سے کلی ضبطو خان ناصر سمیت دیگر علاقوں میں متعدد کچے مکانات کی دیواریں گرگئی ہیں تاہم ابتک کوئی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی ہے ۔ڈپٹی کمشنر دکی اعجاز احمد جعفر نے اسسٹنٹ کمشنر دکی میران بلوچ کی نگرانی میں بارشوں سے نقصانات اور امدادی کاروائیوں کے لئے فوری طور پر کنٹرول روم قائم کرکے نمبر 0824666812 جاری کردیا ہے ۔جعفرآباد، گنداخہ ، ڈیرہ اللہ یار اور اوستہ محمد بھی بارش کا سلسلہ وقفے وقفے سے جاری رہا۔

بارش کی وجہ سے شاہراہوں پر بارش کا پانی جھیل کا منظر پیش کرنے لگا ۔اوستہ محمد میں جناح روڈ ،علی آبادروڈ،حسین آباد محلہ ،یعقوب محلہ ،علی گوہر چوک،سینما روڈ ،گڑھی خیرو پھاٹک میں کا بارش کا پانی ٹہر گیا۔شہریوں کو بھی آمدورفت میں شدید مشکلات کا سامناکرنا پڑا اور وہ مسلسل بارش کی وجہ سے شہری گھروں میں محصور ہو کر رہ گئے۔

زیار ت کان مہترر زئی، چمن ،میں بر ف با ری سے بند سڑ کوں کی بحالی کے لئے لیو یز اہلکا رکو شاں ہیں جبکہ بھا ری مشینر ی کا استعما ل کیا جا رہا ہے لک پا س سمیت دیگر بند شا ہر ا ہوں کو صا ف کر کے عا رضی طور پر ٹریفک کی روانی بحال کر دی گئی ہے آبی گز ر گا ہوں کی صفا ئی کے لئے بھی اقداما ت کئے جا رہے ہیں تا کہ سیلا بی پا نی کی روانی میں خلل نہ ہو ۔

ڈ و یژنل کمشنر اور ڈپٹی کمشنر اپنے اپنے علا قوں میں امدادی سر گر میوں کی نگرا نی کر ر ہے ہیں اور پو ری حکو متی مشینری بھر پو ر فعال اور متحرک کردار ادا کر رہی ہے ۔صوبے میں طوفانی بارشوں اور برفباری کے باعث ہنگامی صورتحال کے پیش نظر محکمہ پی ڈی ایم اے کی جانب سے بھی امدادی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رہا اور وزیراعلیٰ بلوچستان اور صوبائی وزیر پی ڈی ایم اے کی خصوصی ہدایت پر قلعہ عبداللہ و دیگر اضلاع میں ایمرجنسی کے نفاذ کے بعد پی ڈی ایم اے نے ضلعی انتظامیہ اور متعلقہ اداروں کے ہمراہ امدادی سرگرمیوں کو بلا تعطل جاری رکھا اور مذکورہ متاثرہ علاقوں میں بھاری مشینری اور ضروری اشیا فراہم کی گئی ڈی جی پی ڈی ایم اے عمران زرکون تمام امدادی و بحا لی سرگرمیوں کی نگرانی کر رہے ہیں ۔

محکمہ صحت بلوچستان نے شدید بارش اور برفباری کے بعد صورتحال کا جائزہ لینے کیلئے کنٹرول روم قائم کرتے ہوئے صوبے کے تمام ہسپتالو ں میں ایمرجنسی نافذکر دی گئی ۔

ہفتہ کے روز سیکرٹری صحت حافظ عبدالماجد کے جاری کردہ حکم نامے کے مطابق بلوچستان کے تمام ہسپتالوں میں ایمرجنسی نافز کی دی گئی ہے جبکہ محکمہ صحت کے عملے کو 24 گھنٹے ڈیوٹی پر رہنے کی بھی ہدایت جاری کر دی گئی اس کے علاوہ بارش اور برفباری کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال سے نمٹنے کیلئے کنٹرول روم قائم کر دیا گیا جس کی نگرانی ڈاکٹر کمالان گچکی ، ڈاکٹر محمد حیات ، روح الامین اور شوکت بلوچ کر رہے ہیں ۔