|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2019

وزیراعظم عمران خان بلوچستان کے دورے پر پہلے کوئٹہ تشریف لے آئے۔ کوئٹہ کے باسیوں کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی اور وہ گنجان آباد شہر سے دور پندرہ منٹ کی گرما گرم تقریر بطور لیکچر سناکر گوادر چلے گئے۔ تقریر کم تجاویز زیادہ تھے۔ ٹی وی پر نشر کی جانے والی تقریر میں وہ جام کمال کے معترف نظر آئے جبکہ چیف آف آرمی اسٹاف کے کارناموں کے پل باندھتے نظر آئے۔ 

انہوں نے اپنے دورے کے دوران دو منصوبوں مغربی روٹ جس کی منظوری نواز دور حکومت میں دی جا چکی تھی کی سنگِ بنیاد رکھ کر قلابازیاں کھاتے ہوئے نظر آئے۔ جب کہ وزیراعظم ہیلتھ کمپلیکس کا سنگِ بنیاد رکھنے پردست بہ دعا ہوئے ،ساتھ میں یہ اعلانِ کرم فرمایا کہ دونوں منصوبے فوج کی مدد سے تیار کیے جائیں گے۔ 

اس موقع پر انہوں نے بیرونی امداد کا ذکر بھی فرمایا جو فوج کو متحدہ عرب امارات سے حاصل ہوگی۔ جبکہ افتتاح کرنے کے لیے کوئی ایسا بڑا منصوبہ تھا ہی نہیں کہ جس پر وزیراعظم اپنا ہاتھ صاف کرتے۔ ہم نے ان کو دورانِ تقریر شاکر ہی پایا، دورانِ تقریر وہ شکر بجا لاتے ہوئے دکھائی دئیے۔ وزیراعلیٰ کو زمینی فرشتہ قرار دے کر سب کو گدگدی ہونے پر مجبور کیا۔ جب تک ان کی تقریر جاری رہی وہاں موجود شرکاء بحیثیت طالبعلم ان کی لیکچر ہی سنتے اور شاباشیاں دیتے رہے۔ 

میں دوست کو دیکھتا رہا دوست مجھے دیکھتا رہا ہم نے ایک دوسرے کو دیکھ کر ہی مسکانوں سے ایک دوسرے کو جواب دینے میں ہی عافیت سمجھی۔ ورنہ تقریر کا خاکہ بگڑ جاتا اور نہ جانے کون سی آفت نازل ہوتی کہ اس آفت کی پیمائشی پارے کو سرد رکھنے کے لیے ہمیں فائر برگیڈ کی دو ٹانگوں والا پیہہ گھسیٹ کر لانا پڑتا اور اس انتقامی آگ کو بجھانا پڑتا جو ہماری نوک جھونک سے بھڑک سکتی تھی۔

ماضی میں بلوچستان کو نظر انداز کیا گیا۔ بلوچستان کے احساس محرومی کو ختم کرنا ہوگا۔ ماضی کی کوتاہیوں پر بلوچستان والوں سے معافی مانگنی ہوگی۔ حاکموں کی زبانی یہی فقرے سن سن کر اب یہ بچوں کے بھی زبان زدعام ہوچکے ہیں۔ اب لفظِ’’ احساس محرومی ‘‘اپنا نام بار بار سن کر ذرا شرما نے لگا ہے۔ اب تو یہ حال ہوگیا ہے کہ تنگ آکر رونے لگا ہے۔ اب تو ہم حرفِ تسلی لیے حاضر ہوجاتے ہیں کہ کہیں حاکموں کی بدنامی نہ ہوجائے ورنہ نیکی نامی ان کے حصے میں لکھی کب گئی ہے۔ خیر چھوڑئیے ان باتوں کو۔۔

کسی نے ایک بابا سے کہا تھا کہ عمران خان آئے ہیں خوشحالی لائے ہیں بابا کہنے لگے کہ کون عمران خان۔۔ ہمارے پڑوس میں ایک ہی عمران خان تھے اللہ کو پیارے ہوگئے اس کے بعد عمران کی آواز کانوں سنائی نہیں دی۔کہنے لگے نہیں بابا عمران خان وزیراعظم پاکستان۔۔ ہو گا کوئی خان ہمیں اس سے کیا غرض۔

عمران خان کی بلوچستان آمد کو یہاں کا عام آدمی، سوشل ایکٹوسٹ، صحافی، طالبعلم کس طرح دیکھ رہا ہے۔ہم نے یہی جاننے کے لیے ان کی رائے لی۔

صحافی رشید بلوچ کہتے ہیں کہ ’’ عمران خان کی آمد اور اعلانات نہ ہی بریک تھرو ثابت ہوں گے اور نہ ہی تبدیلی آئے گی۔ وہی اعلانات سابقہ حکومتیں کر چکی ہیں وہی موجودہ حکومت کرنے جا رہی ہے‘‘۔ وہ کہتے ہیں کہ جب تک مال مویشی، زراعت، فشریز اور کوئلے کے کانوں پر توجہ نہیں دی جاتی اقدامات اٹھائے نہیں جاتے اس وقت تک خوشحالی اور تبدیلی خواب ہی ہوں گے۔

سوشل ایکٹوسٹ خالد میر کہتے ہیں’’ بلوچستان پر نہ اس کا کوئی ’’کنٹرول‘‘ ہے نا کوئی فیصلہ وہ کر سکتا ہے، بلوچستان کے اکثر فیصلے آج کل کہیں اور ہو رہے ہیں، اختیارات نچلی سطح کو انتقال ہوگئے ہیں‘‘۔

صحافی و تجزیہ نگار جلال نورزئی کہتے ہیں ’’ اس میں نئی بات تو تھی نہیں، البتہ امراضِ قلب کا ہسپتال فوجیوں کی ملکیت ٹھہری۔ بلوچستان کی دولت اس پر خرچ ہوگی‘‘۔

اسد حسنی کہتے ہیں کہ عمران خان کی نیت پر شک نہیں کیا جا سکتا ہے جہاں تک بات بلوچستان کی ہے وہ سیاسی حوالے سے علاقہ خاص سے آپریٹ ہوتا ہے ۔ عمران شایداین ایف سی ایوارڈ و معدنی ذخائر کی مد میں رائیلٹی میں اضافہ کرے‘‘۔ نصراللہ ساجدی عمران خان کی آمد کو بلوچستان کی ترقی سے جوڑتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’’مسنگ پرسنز اور سی پیک کے حوالے سے اچھی پیشرفت ہورہی ہے‘‘۔

وزیر اعظم عمران خان اس کے بعد ایکسپو 2019کی اختتامی تقریب میں شرکت کے لیے گوادر چلے گئے۔ گوادر میں کیا کیا اعلانات ہوئے یہی سوال وہاں کے صحافی بہرام بلوچ سے کیا۔ ’’ وہی اعلانات جو سابقہ حکومتیں کر چکی تھیں وزیراعظم نے انہی کو دہرایا۔گوادر کے بنیادی مسائل پانی، بجلی، روزگار، تعلیم کی شکل میں اب بھی موجود ہیں‘‘۔

جس روز عمران خان کوئٹہ کا دورہ کر رہے تھے اسی روز ترقیاتی منصوبوں کو نظرانداز کرنے پر اپوزیشن اراکین کا احتجاج جاری تھا، بھاگ کے نوجوان پانی کی تحریک لے کر’’ تادمِ مرگ بھوک ہڑتال‘‘ پہ بیٹھے ہوئے تھے۔ بلوچستان کے کسان حالیہ بارشوں سے ہونے والی نقصانات پر بے بسی کی تصویر بنے ہوئے تھے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے احتجاج پر تھے۔ بچے اسکولوں سے باہر نعرہِ مستانہ بلند کر رہے تھے۔ جب کہ مجھ جیسے کہیوں نے سرسبز بلوچستان کا خیالی نقشہ ذہن میں سجائے خیالی پلاؤ پکاتے نظر آئے۔ 

اب بھلا جنت اور دوزخ کس نے دیکھاہے لیکن مولانا طارق جمیل اپنے لیکچرز میں جنت کا وہ خاکہ پیش کرتے ہیں کہ دل ہی دل میں مرنے کا خیال آتا ہے۔ اب اگر بلوچستان کی ترقی سمجھ میں نہیں آتی ہے تو حاکمِ وقت کی تقاریر اور لیکچرز سے اس کا خاکہ تو بنا سکتے ہیں اور خاکہ دیکھ دیکھ کر دل کو خوش تو کیا جا سکتا ہے۔

میرے پاس ویسے بھی عمران خان کی دردمندارنہ، نوازشریف کی صحت مندانہ، آصف زرداری کے پیارانہ تقاریر کا وہ خزانہ موجود ہے کہ جب بھی بلوچستان کی احساسِ محرومی دل پر گراں گزرتی ہے تو سن لیتا ہوں تو دل کا بوجھ ہلکا ہوجاتا ہے۔ یہی فارمولہ آپ بھی آزما سکتے ہیں آزمانے میں کیا حرج ہے۔