|

وقتِ اشاعت :   April 6 – 2019

دو بڑی سیاسی جماعتیں جو اب اپوزیشن میں ہیں اور باری باری حکمرانی کرتی رہی ہیں نیب آرڈیننس میں ترمیم نہ کرنے کی اپنی سنگین غلطی پر کف افسوس مل رہی ہوں گی۔شاید یہ غلطی دانستہ کی گئی کیونکہ پی پی پی اور پی ایم ایل(این)کی قیادت نیب کے آج کے انتہائی طاقت ور قانون کو اپنے مخالفین کے خلاف استعمال کرنے کے لیے برقراررکھنا چاہتی تھی۔ا نھوں نے یہ نہیں سوچا تھا کہ یہ قانون عمران خان کی حکومت کی طرف سے،جو خود کو کرپشن کا صفایا کرنے کی چیمپئن کہتی ہے ،اُن کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔

نیب، سابق صدر جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی طرف سے نومبر1999 میں سیاست دانوں کو بلیک میل کرنے کے لیے قائم کیا گیا تھا۔انھوں نے کنگز پارٹی قائم کرنے کے لیے اسے موثر طریقے سے استعمال کیا اور پی ایم ایل (این) سے پی ایم ایل (کیو)اور پی پی پی سے پیٹریاٹ گروپ نکالا۔کیونکہ اس کا مقصد بد نیتی پر مبنی اور در اصل سیاسی جماعتوں سے کرپشن کا خاتمہ کرنا نہیں تھا اس لیے نیب قانون میں خود کو بے گناہ ثابت کرنے کی ذمہ داری بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اس اصول کی بجائے کہ کوئی فرد اس وقت تک بے گناہ ہے تا وقتیکہ وہ قصوروار ثابت نہ ہو جائے، ملزم پر ڈال دی گئی۔

نیب، ملزم افراد کو ان کے معلوم ذرائع آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے پر پوچھ گچھ کے لیے بلانے کی بجائے ان کی گرفتاری کایک طرفہ فیصلہ بھی کر سکتا ہے۔نیب آرڈیننس کے سیکشن9(a)(v) کے مطابق ” اگر عوامی عہدے پر فائز کوئی شخص یا کوئی دوسرا فردیا اس کے زیر کفالت کوئی فرد یا بے نامی دار (کوئی اثاثے رکھتے ہیں یا اثاثوں کے ضمن میں ناقابل تنسیخ پاور آف اٹارنی کے مالک ہیں)یا ایسے مالی وسائل رکھتے ہیں جو ان کے ایسے معلوم ذرائع آمدنی سے مطابقت نہیں رکھتے جن کا وہ (معقول طریقے سے ) جواب نہیں دے سکتا(یا ایسا معیار زندگی قائم رکھے ہوئے ہے جو اس کے آمدن کے وسائل سے کہیں زیادہ ہے)تووہ بد عنوانی کے جرم کا ارتکاب کرتا ہے یا کرپٹ حرکات کاارتکاب کر چکا ہے ” ۔

یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ بد عنوان سیاست دانوں کا صفایا کرنے کے نام پر پاکستان میں سیاست دانوں کی کرپشن کے حوالے سے خصوصی قوانین بنائے گئے۔ملک قائم ہونے کے دو سال بعد1949 میں لیاقت علی خان نے بدعنوانی پر قابو پانے کے لیے پبلک افسروں کے خلاف قانون متعارف کرایا۔لیاقت علی خان ،جن کی دیانت داری کا اعتراف کیا جاتا تھا،اپنے ہی ساتھیوں کے بارے میں اچھی رائے نہیں رکھتے تھے اور یہ حقیقت اس بات سے ظاہر ہوتی ہے کہ انھوں نے 1949 میں Public and Representative Office Disqualification Act (PRODA) نافذ کیا۔

اس ایکٹ کے تحت اُن ٹریبونلز کی جانب سے جو اس مقصد کے لیے قائم کیے گئے تھے، سیاست دانوں کو اقربا پروری، رشوت اور بد عنوانی جیسے جرائم پر10 سال کی مدت کے لیے نا اہل قرار دیا جا سکتا تھا۔ وزیروں اور ارکان اسمبلی کے خلاف گورنر جنرل اور صوبائی گورنرز کی طرف سے الزامات عائد کیے جا سکتے تھے۔اس کے علاوہ ایک عام شہری بھی اگر وہ5,000 روپے سیکیورٹی جمع کرانے کی استعداد رکھتا ہو، شکایت داخل کر سکتا تھا۔

تمام فوجی آمروں نے دعویٰ کیا کہ وہ کرپشن کا خاتمہ کریں گے جس نے معاشی افزائش کو سست کر رکھاہے۔اینٹی کرپشن قوانین نہ صرف سیاست دانوں کے خلاف استعمال کیے گئے بلکہ انھیں ایسے سول سرونٹس کے خلاف بھی استعمال کیا گیا جن کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ یہ فوجی حکومت کے ساتھ تعاون نہیں کریں گے۔ایوب خان نے آئین منسوخ کرنے کے بعد مرکزی اور صوبائی کابیناؤں کو برطرف کیا ،اسمبلیوں کو توڑا اور سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد کر دی۔کابینہ کے 150 ارکان اور600 سے زیادہ سابق ارکان اسمبلی کے خلاف کرپشن کی فرد جرم لگائی گئی۔ان میں حسین شہید سہر وردی اور فیروز خان نون بھی شامل تھے۔ سول سرونٹس کے خلاف کی جانے والی تحقیقات کے نتیجہ میں 1,662 سرکاری افسروں کو برطرف کر دیا گیا یا قبل از وقت ریٹائرمنٹ لینے پر مجبور کیا گیا ۔

ایوب خان نے مارچ،1959 میں Elective Bodies (Disqualification) Order (EBDO) نافذ کیا جس کے تحت ان لوگوں کومقدمہ کا سامنا کرنے یا سیاست سے ریٹائر ہونے کے لیے کہا گیا جن پر نا مناسب طرز عمل یا کرپشن کا شبہہ تھا۔ جن لوگوں کو مجرم پایا گیا ان پر پابندی لگا دی گئی کہ وہ دسمبر،1966 تک کوئی عوامی عہدہ اپنے پاس نہیں رکھ سکتے۔میاں ممتاز دولتانہ اور ایم اے کھوڑو جیسی اہم سیاسی شخصیات بھیEBDO کا نشانہ بنیں۔

1969 میں جب جنرل یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے اقتدار سنبھالاتو303 سرکاری افسروں کو نکال دیا۔پلڈاٹ کے صدر احمد بلال محبوب کے ایک آرٹیکل کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو نے نہ صرف 1,300 کے قریب سرکاری افسروں کو برطرف کر کے بلکہ بہت سے ایسے تحفظات کو واپس لے کر جو ان افسروں کو یک طرفہ برطرفی کے خلاف حاصل تھے، سویلین چیف مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر کی حیثیت سے حاصل وسیع اختیارات سے فائدہ اٹھایا۔یہ آرٹیکل ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا اور پاکستان کے بارے میں سیاسی مورخین کی ایک بڑی تعداد نے بھی بھٹو کی طرف سے سینئر سرکاری افسروں کو برطرف کرنے پر تنقید کی ۔

1990 کی دہائی میں بے نظیر بھٹو کی حکومت کو غلام اسحاق خان نے فوج کی مکمل حمایت سے 18 ماہ کے اندر برطرف کر دیا۔بے نظیر کے شوہر آصف علی زرداری کے خلاف متعدد مقدمات بنائے گئے ۔اس کے32 ماہ بعد اسی غلام اسحاق خان کو عبوری حکومت میں پی پی پی کے نمائندے کے طور پر آصف زرداری سے،ان پر عائد کیے جانے والے تمام الزامات کو چھوڑ کر وزیر کی حیثیت سے حلف لینا پڑا ۔

مجھے ذاتی طور پر تجربہ ہے کہ اُن دنوں میں زرداری کے خلاف من گھڑت خبریں شائع کرانے کے لیے کس طرح خفیہ ایجنسیوں کو استعمال کیا جاتا تھا۔صرف یہی نہیں،1990 کے انتخابات میں پی پی پی کو شکست دینے کے لیے انٹیلجنس نے دائیں بازو کی جماعتوں پر مشتمل اسلامی جمہوری اتحاد بنایا۔پی پی پی کے خلاف اس اتحاد کو انٹیلجنس کی فنڈنگ کی کہانی اس وقت منظر عام پر آئی جب اصغر خان نے جنرل اسد درانی اور آرمی چیف جنرل اسلم بیگ کے خلاف کیس دائر کیا۔اگر چہ سپریم کورٹ نے بہت تاخیر کے بعد ان دونوں کے خلاف فیصلہ دیا مگر ان کے خلاف کوئی کارروائی اس وجہ سے نہ کی گئی کہ انھوں نے یہ موقف اختیار کیا کہ انھوں نے جو کچھ بھی کیا اپنے سپریم کمانڈر اور صدر،غلام اسحاق خان کے کہنے پر کیا۔

اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کی حکومت کو صرف32 ماہ برداشت کیا ۔اگر چہ انھوں نے خود کو سپریم کورٹ سے بحال کروا لیا تھا مگر جنرل کاکڑ کی طرف سے ان پر اور ان کے ساتھیوں پر استعفا دینے کے لیے دباؤ ڈالا۔

میں یہ نہیں پوچھ رہا کہ آصف زرداری کے خلاف الزامات سچ ہیں یا نہیں بلکہ میں یہ کہہ رہا ہوں کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ ہر مرتبہ حکومت کی تبدیلی سے مطلوبہ انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے انٹیلجنس کی طرف سے خاصی پولیٹیکل انجنیئرنگ کی گئی۔

کرپشن کو اکھاڑ پھینکنے کے نام پر کیے جانے والے تمام دعوے اور اقدامات پاکستان میں کرپشن مافیا کو ختم کرنے میں ناکام رہے ،اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ کرپشن قوانین کو انتخابی نتائج اور اپنی پسند کی حکومت لانے کے لیے جوڑ توڑ کی خاطر استعمال کیا جاتا ہے۔اس بار وہ ایک ایسی نئی حکومت لائے ہیں جس کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ اس پر کنٹرول رکھ سکتے ہیں۔

کالم نگار تک رسائی کے لیے:(ayazbabar@gmail.com)