|

وقتِ اشاعت :   April 10 – 2019

ہمارے ہاں گمان یہی ظاہر کیا جارہا ہے کہ کتابوں کا دور ہی ختم ہو گیا۔ کتاب پڑھنے والے کم رہ گئے ۔ سوچتا ہوں کہ اگر کتابیں پڑھنے والے کم ہی رہ گئے ہیں توکتابیں اتنی حساب سے مارکیٹ میں آ کیوں رہی ہیں۔ دراصل ہم بیٹھے بیٹھے ہی اندازہ لگا لیتے ہیں کہ یہ دور ختم ہوا وہ دور شروع ہوا۔ رخ اور انداز ضرور بدل گئے مگر سلسلے ختم نہیں ہوئے بلکہ چل رہے ہیں۔

کتاب دوستوں کا کتاب سے جو رشتہ کل تھلک تھا وہ آج بھی ہے۔ سعدیہ سردار لاہور سے پرانی کتابوں کا کاروبار آن لائن کرتی ہیں۔ فیس بک پہ ان کا پیج ’’پرانی کتابوں‘‘ کے نام سے موجود ہے۔ وہ کتاب کا ٹائٹل، فہرست اور قیمت درج کرتے ہیں گاہک فورا ہی کمنٹ کرکے کتاب پر اپنا قبضہ جما ہی لیتے ہیں۔ گا ہکوں میں ایک بڑا نام رؤف کلاسرا بھی ہے۔ پڑھنے والے اب بھی موجود ہیں۔ اب تو آن لائن کتابیں موجود ہیں۔

اب یہ روش اتنی تیزی سے پھیلتی جا رہی ہے کہ سوشل میڈیا کے ذریعے کتابوں تک رسائی آسان ہوگئی ہے۔ مشعل جیسے ادارے کی قیمتی کتابیں اب آن لائن دستیاب ہو چکی ہیں، بلوچی اکیڈمی کتابیں آن لائن کر رہی ہے، سنگت اکیڈمی نے یہ سلسلہ کافی عرصہ پہلے سے شروع کیا تھا۔

زامر کے نام سے ایک ادارہ کتابیں پی ڈی ایف میں کنورٹ کرکے آن لائن کر رہی ہے جس میں مختلف اداروں سے چھپنے والی بلوچی، براہوئی کتابیں ہوتی ہیں اب یہ خدا جانے کہ کتابوں کی آن لائن اپلوڈنگ ایک مجوزہ طریقہ کار کو بنیاد بنا کر کیا جا رہا ہے یا دیسی ٹوٹکوں سے ،بہرکیف معلومات کی رسائی کو آسان بنایا جا رہا ہے۔ 

اب آتے ہیں موضوع کی طرف ۔ناڑی وال ادبے میلے سے ہم انجان تھے چند روز قبل ہی پتہ چلا کہ دوستوں کا یہ ادبی میلہ ہر سال لگتا ہے۔ پہلے صرف مشاعرہ ہوا کرتا تھا گزشتہ تین سالوں سے اس میں مذاکرے کا رنگ ڈال دیا گیا ہے۔ ناطق ناڑی وال ادب دوست آدمی ہیں لکھتے اور شاعری کرتے ہیں۔۔ چند دوستوں کے ساتھ مل کر بختیار آباد میں ادبی میلہ سجایا یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے۔ بختیار آباد جو کسی زمانے میں بیل پٹ ہوا کرتا تھا۔ خدا جانے ناموں کی تبدیلی کی نوبت کیوں کر آتی ہے کہ لوگ پرانے ناموں سے خائف ہوکر نئے نام رکھ لیتے ہیں۔ 

ریلوے اسٹیشن اب بھی بیل پٹ کے نام سے مشہور ہے۔ آواران کسی زمانے میں کولواہ ہوا کرتا تھا اب بھی وہاں دو ادارے قاضی کولواہ، ڈاکخانہ کولواہحقیقی ناموں سے اپنی شناخت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے کہ پشین اسٹاپ کے سامنے سے گزرتے ہوئے نظر ہارٹ اینڈ جنرل ہسپتال پر پڑی جس کی پیشانی پر ایک اضافی نام ’’ ڈاکٹر مناف ترین ہسپتال‘‘ پایا۔دونوں نام اکھٹے دیکھ کر حیران و پریشان ہوا کہ اب اس ہسپتال کو کس نام سے پکارا جائے کہیں ناموں کے درمیان گھمسان کی لڑائی نہ ہوجائے۔۔۔

ناڑی وال ادبی میلے کے انتظامات گورنمنٹ ہائی اسکول بختیار آباد میں رکھے گئے تھے۔ ایک ہال کتابوں کے لیے وقف تھا سنگت اکیڈمی، بلوچی اکیڈمی، مہردرکی کتابیں رکھی گئی تھیں۔ جب کہ دوسرا ہال پروگرام کے لیے مختص تھا۔ کوئٹہ ، سبی، جھل مگسی، نصیر آباد ، لہڑی سے سے آئے ہوئے شاعر و ادیب پروگرام کا حصہ تھے۔پروگرام کا پہلا سیشن مذاکرہ تھا۔ مذاکرے کی میزبانی عابد میر کے حصے میں آئی۔ زراعت، ثقافت، ادب، سوشل میڈیا کے موضوعات زیر گفتگو آئے۔ 

زراعت و زرعی نظام، کچھی کینال، قحط سالی پر پناہ بلوچ نے تبادلہ خیال کیا۔ عبدالقادر رند نے بلوچستان کی ثقافت اور جام درک کتابجاہ کی اہمیت پر روشنی ڈالی۔ ناول نگار محمد وسیم شاہد نے بلوچستان میں ادب ، فکشن اور ادب کو درپیش چیلنجز کا احاطہ کیا۔ راقم کے حصے میں سوشل میڈیا آیا بلوچستان میں سوشل میڈیا کا استعمال کتنا ہو رہا ہے درست ہو رہا ہے غلط ہو رہا ہے پر اظہار خیال ہوا۔

پروگرام کا دوسرا حصہ مشاعرہ تھا۔مشاعرے میں اردو، بلوچی، سندھی، سرائیکی، براہوئی زبانوں کی نمائندگی رہی۔شعرا ء کے کلام میں بلوچستان، زمین، مٹی سے محبت اور درد کا عنصر شامل تھا۔ فنکار اے ڈی بلوچ نے مخصوص انداز میں اپنا سولو پرفارمنس’’ زمین کے زخم‘‘ کے عنوان سے پیش کیا۔ پروگرام کے اختتام پر نواز کھوسو نے ناڑی وال مسائل سے متعلق قرار داد پیش کی۔ 

ناڑی وال ادبی میلہ کا انعقاد تہذیب اکیڈمی ہر سال کرتی ہے۔ علاقے میں ادب کا فروغ کیسے ہو۔ ناطق ناڑی وال اور دیگر دوستوں نے مل کر ادارے کی بنیاد 9سال قبل ڈالی۔ ناطق ناڑی وال کہتے ہیں کہ شروعات میں ادارے کو بے حد پزیرائی ملی۔ 

بہت سے دوست آکر شامل ہوئے۔ بعد میں منقسم ہوئے مختلف ناموں سے اور ادارے قائم کیے پھر یہ ہوا کہ ایک بھی ادارہ اپنے پاؤں پر کھڑا نہیں ہو سکا۔تہذیب اکیڈمی کے پلیٹ فارم سے انہوں نے سہہ ماہی رسالہ ’’ تہذیبِ بلوچستان‘‘ کا آغاز کیا۔ 

لیکن یہ رسالہ بھی مالی مشکلات کا شکار ہو کر تین پرچوں تک ہی محدود رہا۔ ناطق ناڑی وال کہتے ہیں ’’ ہم پسماندہ علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں کوشش کے باوجود ہم ادبی سرگرمیوں کو اس طرح سے چلا نہیں سکے جتنی خواہشیں ہم دلوں میں بسائے رکھتے ہیں۔ 

مالی مسائل آڑے آجاتے ہیں کہ ہم بیک فٹ پہ چلے جاتے ہیں‘‘۔پروگرام میں شرکاء کی تعداد توقعات سے کم تھی وجہ کیا ہے کہنے لگے ’’بلانا چاہیں تو بہت زیادہ لوگ آئیں گے لیکن آنے والوں کے اخراجات کس طرح اٹھائیں یہ سوچ کر ہم ’’جتنی چادر دیکھو اتنے پاؤں پھیلاؤ‘‘ کے محاورے پر عمل پھیرا ہیں‘‘۔
بلوچستان میں جہاں کسی زمانے میں ادبی سرگرمیاں ہوتی تھیں۔ ادبی رسالے بڑے پیمانے پر نکلتے تھے۔ اب کام تو ہو رہا ہے مگر ذرا کم۔ یہ کام چند لوگوں کی کاوشوں کا نتیجہ ہے ۔ پناہ بلوچ، عابد میر اور دیگر ساتھیوں نے مل کر گزشتہ سال فروری میں نصیرآباد ادبی میلہ لگایا تھا۔

ادبی میلے میں نہ صرف بلوچستان بلکہ پاکستان کے مختلف علاقوں سے لوگ شرکت کے لیے آئے۔اس سال نہیں لگا سکے منتظمین بنیادی وجہ لوگوں کی وہ زبانی قول و قرار کو قرار دیتے ہیں جو انہوں نے مالی امداد کی صورت میں کرنے کا کیا تھا مگر وعدوں سے انحراف کر گئے اور منتظمین کو ابھی تک اپنے جیب سے خسارہ پر کرنا پڑ رہا ہے تاہم وہ پرامید ہیں کہ موجودہ سال دسمبر میں میلے کو دوبارہ سرانجام دینے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ تاہم گوادر کتب میلہ اپنا انداز برقرار رکھا ہوا ہے۔

مسئلے مسائل ہر جگہ موجود ہیں مسئلے مسائل میں رہتے ہوئے بھی چند نوجوانوں کی کاوشوں سے ادبی، سماجی پروگرام ترتیب پاتے ہیں رونقیں بحال ہوجاتی ہیں ان کوششوں کو سراہنا ہوگا۔ لگ رہا تھا کہ ادب کے حوالے سے یہ علاقہ بنجر ہے مگر وہاں کی شاعری اور ادب دوستی دیکھ کر یقین آیا کہ نہیں کام یہاں بھی ہو رہا ہے وہاں بھی بس کمال نظروں کا ہے کہ وہاں تک جاتی نہیں ہیں۔

پروگرام کی تصویریں دیکھ کر زیارت کے ہمارے ایک دوست محمد حنیف کاکڑ نے خواہش کا اظہار کیا کہ اس طرح کا ایک پروگرام زیارت میں بھی ہونا چاہیے۔ اب یہ ادب دوستوں پر منحصر ہے کہ وہ دیگر علاقوں میں اس طرح کی سرگرمیوں کے حوالے سے کتنی دلچسپی رکھتے ہیں جہاں لوگ ادب کا شغف رکھتے ہیں مگر سرپرستی چاہتے ہیں۔ 

میری رائے یہی ہے کہ ادب کو علاقوں تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ ادیبوں کا زبان اور مکان سے بالاتر ہو کر پروگراموں کے انعقاد میں ایک دوسرے کا ہاتھ بٹھانا چاہیے۔ ادبی سرگرمیوں کا دائرہ کار کوئٹہ سے نکل کر دیہی علاقوں تک پھیلانے کی ضرورت ہے۔