|

وقتِ اشاعت :   October 15 – 2019

کچے کمرے کے سامنے کھڑا تصورات ہی تصورات میں اپنے آپ کو اس مقام پر پا رہا ہوں جہاں کبھی بچپن ہوا کرتا تھا، بچپن سے جڑی یادیں ہوا کرتی تھیں۔ وہ زمانہ اور وہ یادیں سب کچھ یا تو یہ کچا کمرہ اپنے اندر سمیٹ چکا ہے یا میرے حافظے میں موجود مجھے تنگ کر رہے ہیں یا ان مکینوں کے حوالے ہو چکے ہیں جو اسے الوداع کہہ گئے ہیں۔ خستہ حال ڈھانچہ، ٹوٹے دروازے اور کھڑکی جہاں سے کبھی تر و تازہ ہو اسکول کے مکینوں کو گھیرتا تھا، مٹی اور گھارے سے بند کر کے ہوا کا راستہ موڑا جا چکا ہے۔

دروازے پر لگا زنگ آلود تالا بیٹھک نما اسکول کی کہانی کو اختتامیہ فراہم کرنے کے لیے کافی ہے۔ وہ مکین جو کبھی اس میں آباد ہوا کرتے تھے انہوں نے منہ موڑ لیا ہے، مگر منتظر نگاہوں سے یہ ڈھانچہ اپنے مکینوں کو کبھی نہیں بھولا، ان کی راہیں اب تھک رہا ہے۔ انتظار کی ان گھڑیوں نے اسے عمر کی ان حدوں کو چھونے پر مجبور کیا ہے جہاں اس کی یاداشت بھی شاید اب جواب دینے والی ہو۔ اب فقط اس کی سماعتوں میں وہ لمحے ٹکراتے ہیں جہاں کبھی ”ایک دونی دونا، دو دونی چار“ نعرے بلند ہو کر اس کے وجود کے اندر محفوظ ہوا کرتے تھے کی جگہ آہٹوں نے لے لی ہے۔

عمر کے ابتدائی ایام میں ہم بیٹھک نما سکول کا دروازہ کبھی بند ہوتا ہوا دیکھ نہیں پائے۔ یہ کمرہ بیک وقت بیٹھک تھا، اسکول تھا اور استاد کا قیام گاہ بھی۔ بیٹھک یعنی وتاخ مسافروں کے لیے قیام گاہ کا درجہ رکھتا تھا۔ گاؤں کا سربراہ جسے وازدار کہا کرتے تھے وہ اس بیٹھک کے تمام اخراجات برداشت کر کے میزبانی کا حقیقی فریضہ انجام دیا کرتا تھا۔ سورج کی پرچھائیں جب تھمنے لگتیں تو بیٹھک کا کھلا دروازہ دیکھ کر کوئی فقیر چلا آرہا ہے، کوئی انجان مسافر آرہا ہے، کپڑے کی بیوپاری سے فراغت پانے والا پٹھان چلا آر ہا ہے مگر ان سب کی وابستگی عارضی ہے۔ بیٹھک کا حقیقی وارث اسکول ماسٹر ہے۔ بیٹھک سے اس کا ناطہ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اس ناطے کو توڑنے کے لیے بچوں کی دعائیں بھی کام نہیں کر پا رہی ہیں۔

دن کے اوقات بیٹھک اسکول میں بدل جاتاجہاں اسکول کی گھنٹی بجتے ہی بچوں کی دوڑیں لگ جاتیں جو پہنچ گیا سو پہنچ گیا جو وقت پر نہیں پہنچا تو وہ ماسٹر عزیز کی تھپڑ اور لاٹھی چارج سے بچ نہیں پاتا اور تو اور مرغا بنا کر پورے کلاس کو محظوظ کراتا یا خود محظوظ ہوجایا کرتا تھا۔ استاد کے لیے تفریحی مواقع نہ ہونے کے برابر تھے جو صبح و شام بیٹھک میں مقید رہتا تھا ایسے مناظر استاد اورطلبہ دونوں کوتفریح کا موقع فراہم کرتے۔ یا سیکنڈ ٹائم استاد محلے کے چند ہم عمر دوستوں کو بلا کر ان کے ساتھ تاش کھیل کر تفریح کا سماں پیدا کرتا، مگر کسی بھی طالبعلم کی کیا مجال کہ وہ وقت گزاری کے اس لمحے کی منظر کشی کر سکے۔

شب ہوتے ہی بیٹھک عرفِ عام میں اسکول استاد کا آرام گاہ بن جاتا وہ چارپائی جو دن بھر اسکول کے ایک کونے میں پڑا آرام فرما رہا ہوتا شب ہوتے ہی بیٹھک کا درمیانی حصہ گھیر کر استاد کو سکون بھری نیند فراہم کر لیتا، بسا اوقات زیادہ مسافروں کی آمد سے جہاں بسترے پورے بیٹھک کو گھیر لیتے چارپائی ماسٹر کی بھاری بھر کم وزن سے آزادی پالیتا۔ نہانے کے لیے باقاعدہ کوئی نظام موجود ہی نہیں تھا۔ بیت الخلا کے لیے قریبی ندی نالے ہوا کرتے تھے۔ ماسٹر صاحب کے لیے یہ سب سے اذیت ناک مرحلہ ہوا کرتا تھا جہاں اسے نہانے کے لیے گاؤں کے اکلوتے کنویں کا سہارا لینا پڑتا۔ ایک دن تنگ آکر اُس نے بچوں کو دی اسکول سے چھٹی، مگر ان کے ذمہ لگائی ایک کام۔ وہ تھا ماسٹر کے لیے باتھ روم بندوبست کرنے کا۔بجائے یہ کہ بچے کام کو بوجھ سمجھ کر پریشان ہوجاتے چھٹی نے ان کے لیے باتھ روم والا کام آسان کیا۔ یہاں وہاں سے مزری اور لکڑی کا انتظام کر کے اسکول ماسٹر کے لیے لوکل میڈ باتھ روم کا انتظام کیا گیا۔ اسکول کے بچوں نے اسے بنایا ضرور، مگر استعمال کرنے کا اختیار صرف استاد ہی کے پاس رہا۔

سردی اور گرمی دونوں موسموں میں اسکول کا اندرونی حصہ بہت کم استعمال میں لایا جاتا تھا۔ سردیوں کے سیزن میں دھوپ کا مزہ لینے کے لیے دریاں باہر اس جگہ بچھائی جاتی تھیں جہاں سورج کی کرنیں آب و تاب کے ساتھ زمین پر پڑ جاتیں۔ کمرہ تھا چھوٹا فرنیچرز رکھنے کی گنجائش تھی ہی نہیں بس اتنا ہوجاتا کہ اسکول کی کرسی اور بلیک بورڈ بمعہ اسٹینڈ ہی اس میں سماتے تھے یہی وجہ تھی کہ ہم نے دوران تعلیم استاد کو میز کی میزبانی سے محروم پایا۔ کرسی بھی ایسی کہ جسم کے سارے پرزے اپنی جگہ سے ہل چکے تھے اور جسم پر لگی میخیں اور سوراخیں اتنی زیادہ کہ اگر کوئی بازبان ہوتا تو شور مچاتا مگر اس معاملے میں ہم نے کرسی کو صابرین میں پایا۔ اسٹینڈ نما گشتی بلیک بورڈ گشت کرتا ہوا جہاں اس کی ضرورت ہوتی اسٹینڈ لگا کر کھڑا کیا جاتا اور رہی بات اس کی خستہ حالی کی، وہ تو استاد کے ہاتھ میں چاک کا بدنما شکل دیکھ کر رونا شروع کر دیتا۔

عمارت کے بیک سائیڈ پر جہاں ایک جانب استاد کا لوکل میڈ باتھ روم تھا بقیہ حصہ گرمیوں کے موسم میں کام آتا۔ عمارت کا ڈھانچہ جو سورج کی شعاعوں کو پشت پر نازل ہونے سے روکتا اس کا سایہ بچوں کو چھت فراہم کرتا۔ جب تک سورج کی شعائیں اس جگہ کو گھیر نہیں لیتیں اس وقت تک سب زمین کے اس حصے پر اپنا قبضہ جما لیتے۔کاپیوں پر کام کم جب کہ سلیٹ اور تختی سے کام زیادہ لیا جاتا تھا۔ تختی، سلیٹ، دیسی سیاہی نے غریب بستی کو قلم اور کاپی کے اخراجات سے آزاد کر رکھا تھا۔ تختی کو مَلنے کے لیے پہاڑ سے نکلنے والی نرم مٹی استعمال میں لائی جاتی۔ سیاہی کا بندوبست بسا اوقات ریڈیو اور ٹیپ کے ناکارہ سیل سے ہوا کرتا تھا۔

الماری کا باقاعدہ انتظام نہ ہونے کی صورت میں اسکول کا اندرونی حصہ الماری نما پاٹوں سے اپنا حلیہ بگاڑ چکا تھا دیواروں پر سورخ اپنی وہ داستانیں چھوڑ چکا تھا جن میں بھڑوں کو اپناچھتہ بنانے کی دعوت دی جاتی تھی۔ ایک جانب استاد کے استعمال شدہ کپڑے ٹنگے ہوتے تھے دوسری جانب ایک چھوٹا سا پورشن بستروں کو ٹھکانہ لگانے کے لیے مخصوص تھا۔ حاضری رجسٹرز، چاک، ڈسٹر اور ماسٹر کی چھڑی کے لیے دیوار پر بنے لکڑی کے پاٹ استعمال میں لائے جاتے تھے۔

اسکول کے اندر داخلے، روشنی اور ہوا کے لیے ایک لکڑی نما دروازہ اور چھوٹا سا کھڑکی ہوا کرتا تھا۔ گرمیوں کے موسم میں پہلے آئیے اور پہلے پائیے کی بنیاد پر جو طالبعلم پہلے آجاتا کھڑکی پر قبضہ جمالیتا تھا۔ یہی اسکول بوائز بھی تھا اور گرلز بھی تھا۔ مگر استاد تھا کہ ڈیوٹی کا مکمل پابند۔ استاد ایک جملہ پڑھتا پوری کلاس بیک زبان ہوکر ہم کلام ہو جاتا۔ آواز میں اتنی طاقت تھی کہ پورے محلے میں سما جاتا تھا استاد کی زبانی ہم نے بے شمار نظموں کا ورد کر رکھا تھا جن میں بہت سے اب بھی یاد ہیں۔ ایک نظم یوں تھا جو شاید آپ کو بھی یاد ہو چلو دہرا لیتے ہیں۔

بلبل کا بچہ
کھاتا تھا کھچڑی
پیتا تھا پانی
بلبل کا بچہ
گاتا تھا گانے
میرے سرہانے
بلبل کا بچہ
اک دن اکیلا
بیٹھا ہوا تھا
بلبل کا بچہ
میں نے اڑایا
واپس نہ آیا
بلبل کا بچہ
کیسے بلاؤں
کیسے بھلاؤں
بلبل کا بچہ

اب خدا جانے یہ نظم اور دیگر اسباق نصاب کا حصہ ہیں یا نہیں مگر میری اور مجھے یقین ہے کہ اس بیٹھک نما کمرے کی یاداشت میں اب بھی محفوظ ہو گی جس کے سامنے اس وقت کھڑا میں یادوں کی کتھا چھیڑ رہا ہوں۔ ایک زمانہ گزر جانے کے بعد جب گاؤں میں محکمہ تعلیم کا دو کمروں پر مشتمل بلڈنگ تیار ہوا تو اسکول کا نظام بیٹھک سے بلڈنگ میں شفٹ کیا گیا۔ پتہ نہیں شفٹ کرنے سے قبل بیٹھک کی رضامندی لی گئی تھی یا نہیں۔ بہر حال بے جان اور بے زبان کے احساسات کو کون محسوس کرے۔ جیسے تیسے کرکے بیٹھک کو اسکول کے نظام سے آزادی دی گئی بعد میں جب نیا بیٹھک تعمیر ہوا تو رفتہ رفتہ پرانے بیٹھک سے لوگوں کا ناطہ ٹوٹ گیا۔ اب وقت نے اسے اکیلا کر دیا ہے۔ جیسے وہ اپنی آخری سانسیں گن رہا ہو۔

محلے میں اسکول نما بلڈنگ ہے بلڈنگ اس روح سے عاری ہے جو کسی زمانے میں بیٹھک کو حاصل تھا۔ بلڈنگ نما اسکول گزشتہ تین سالوں سے استاد اور طلبہ کی دید کو ترس رہا ہے، مگر وہاں اب فقط خاموشی ہے۔ خاموشی کی اس فضا کو بیٹھک نما اسکول محسوس کر رہا ہے اور اس وقت تک کرتا رہے گا جب تک اس کی سانسیں چل رہی ہیں۔ بیٹھک کے بیک سائیڈ جاتا ہوں جہاں سایہ اب بھی ہے مگر وہ منظر دکھائی نہیں دیتا جو یاداشتوں کا حصہ بن چکا ہے۔ بچوں کے وہ فلک شگاف نعرے جو پہاڑہ پڑھتے ہوئے یا استاد کا جواب دیتے ہوئے اٹھتا تھا اب پراسرار ہے۔یادوں کا ایسا پہر جو بیٹھک سمیت میرے چاروں طرف ڈیرہ جمائے بیٹھا ہے یادوں اور لمحوں سے چٹکارا پانے کے لیے وہاں سے نکل پڑتا ہوں اور ان یادوں کو حروف کی شکل میں کاغذ پر لا کر ذہن کو ان سے آزاد کر رہا ہوں۔