|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2019

بلوچستان یونیورسٹی میں طالبات کو ہراساں کرنے اور بلیک میلنگ کی خبروں کے ساتھ بلوچستان بھرمیں والدین میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑگئی ہے کیونکہ بلوچستان ایک قبائلی معاشرہ اور تاریخ رکھنے کی وجہ سے انتہائی حساس صوبے کے طورپر جانا جاتا ہے اور پھر یہاں خواتین کو ہراساں کرنے کی خبریں تو اس سے قبل کسی نے نہیں سنیں اور نہ ہی آج تک ایسا کوئی واقعہ کسی دوسرے چھوٹے قصبے یا گاؤں میں رونما ہوا، اس کی خالصتاً وجہ یہاں کا قبائلی سیٹ اپ ہے جس میں خواتین کو انتہائی احترام کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے خواتین کے ساتھ کسی قبائلی یا بڑی سے بڑی ذاتی دشمنی میں ایساکچھ کرنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا جو بد قسمتی سے پاکستان کے دیگر دو صوبوں میں کیا جاتا ہے۔

خواتین کو ہراساں کرنا تو دور کی بات ہے، خواتین کی عزت و احترام کا اندازہ یہاں کی ٹریفک اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی چیکنگ کے دوران کیا جا سکتا ہے کہ جس گاڑی میں خواتین موجود ہوں،ان کے ساتھ عزت و احترام کا برتاؤ کیا جاتا ہے۔ جبکہ میں نے اپنی آنکھوں سے صادق آباد و سندھ چیک پوسٹ پر اور اسلام آباد کی شکر پڑیاں جیسے پر فضا مقام پر پولیس کے ہاتھوں فیملی والی گاڑیوں کو روکتے ہوئے دیکھا جن کے ساتھ انتہائی غیر اخلاقی رویہ اپنایا گیا، ایسے رویے کی بلوچستان کے طول و عرض میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن اب بلوچستان یونیورسٹی میں پڑھنے والی بچیوں کے ساتھ سوشل میڈیا کے ذریعے ہراسیمیگی کے واقعہ نے بلوچستان کے ماتھے پر ایک قسم کی سیاہی مل دی ہے۔

اس خبر سے ہر بلوچستانی کا دل انتہائی رنجیدہ ہوا ہے، یہ ایک معمولی نوعیت کاواقعہ نہیں کہ سوشل میڈیا اور اخبارات میں اسے ایک خبر کے طورپر دیکھا جائے بلکہ اسے بلوچ اور پشتون قبائل کے رسم و رواج کے مطابق دیکھنا چاہیے اور اس میں ملوث ان مکروہ چہروں کو قرار واقعی سزا دی جائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کا کوئی بد بخت تصور بھی نہ کر سکے۔ جب سے موجودہ وائس چانسلر تعینات ہوئے ہیں بلوچستان یونیورسٹی کے بارے میں طلباء تنظیموں نے بوگس بھرتیوں سمیت تعمیراتی کاموں میں کرپشن کے بارے میں پریس کانفرنس کرکے یا احتجاجی ریلیاں نکال کر اپنے غم و غصے کا اظہار کیا لیکن حیرت اس بات پر کہ ان طلباء کے احتجاج کو جواز بنا کر اور اپنی سیٹ کو مضبوط رکھنے کے لئے وائس چانسلر نے اس تعلیمی ادارہ کو ایک ”فورسز کیمپ“ بنا کررکھ دیا۔ یعنی اس تعلیمی ادارے میں طلباء کی تعدادکے برابر قانون نافذ کرنے والے سپاہیوں کی تعداد کی دیگر صوبوں میں کوئی ایک مثال بھی نہیں ملتی۔

اس سے بڑھ کر پر تشدد واقعات تو پنجاب یونیورسٹی میں آئے روز رونما ہوتے ہیں لیکن ہم نے کبھی یہ نہیں سنا کہ قانون نافذ کرنے والوں نے اسے اپنا ”مستقل مسکن ”بنا لیا،وہ کسی ناخوشگوار واقعہ کے رونما ہونے پر فوری طور پرپہنچ کر حالات پر قابوپانے کی حد تک آتے ہیں مستقل پڑاؤ کی صورت میں نہیں جبکہ بلوچستان یو نیورسٹی میں الٹی گنگا بہتی ہے اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ موجودہ وائس چانسلر صرف اور صرف اپنی کرسی بچانے کیلئے یہ سب کچھ کرتے چلے آرہے ہیں۔

اب تک بلوچستان کے دیگر تعلیمی اداروں کے وائس چانسلر تبدیل بھی کیے جا چکے ہیں لیکن کمال بات یہ ہے کہ مذکورہ وائس چانسلر کو احتجاج کے باوجود تبدیل کرنے کا سوچا بھی نہیں جارہا۔موجودہ گورنر جو کہ یونیورسٹی کے چانسلر بھی ہیں کے آنے پر اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں کہ وائس چانسلر کو تبدیل کیاجارہا ہے لیکن یہ اطلاع صرف خبر کی حد تک ہی رہی،آج بھی وہ اپنی سیٹ پر براجمان ہیں بلکہ ان کے ترجمان کی خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ اتنے بڑے اسکینڈل پر احتجاج اور بلوچستان اسمبلی کے فلور پر آواز بلند کی گئی۔

موصوف کسی شرمندگی کا اظہار کرنے کے بجائے دھمکی آمیز لہجے میں گویا ہوئے کہ تمام معاملات کا باریک بینی سے جائزہ لیاجائیگا اور جامعہ بلوچستان اس سلسلے میں ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو درخواست ارسال کرے گی تاکہ وہ ان عناصر کے خلاف کارروائی عمل میں لا ئے جنہوں نے بغیر تصدیق کے جامعہ کے خلاف خبر کی اشاعت کی۔ جو عناصر واقعات میں ملوث پائے گئے ان کے خلاف قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔ ترجمان امیر حمزہ نے جامعہ بلوچستان سے متعلق اس کی ساکھ کو نقصان پہنچانے کی مذمت کی انہوں نے اس سلسلے میں گرفتاریوں کی بھی مکمل تردید کی کہ پولیس کی جانب سے کوئی گرفتاری عمل میں نہیں لائی گئی ہے۔

ہونا تو یہ چائیے تھا کہ ترجمان کو اس بات پر مشتعل اور دھمکی آمیز لہجہ اختیار کرنا چائیے تھا کہ یہ واقعہ بلوچستان کے نام پر سیاہ دھبہ کے طورپر سامنے آیا ہے۔ اور اس مکرہ دھندے یا عمل میں جو بھی یونیورسٹی اہلکار ملوث ہو ا اس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جائے گی، تب لوگوں کو اطمینان ہوتا کہ یونیورسٹی انتظامیہ نے اس کا نوٹس لیا ہے۔ اب جبکہ انہوں نے تحقیقات کی یقین دہانی کرائی ہے تو وہ کیسے کہہ سکتا ہے کہ یہ خبر بغیر تصدیق کے شائع ہوئی،مقصد یہ کہ ایسا واقعہ سرے سے رونما ہی نہیں ہوا کم از کم ترجمان کے ”ڈبل سٹینڈرڈ“ بیان سے یہی عیاں ہوتاہے۔

میں سمجھتا ہوں کہ موجودہ گورنرجو یونیورسٹی کے چانسلر ہیں،ایک قبائلی معاشرہ سے تعلق رکھتے ہیں اسے اس اسکینڈل کے رونماہونے کے ساتھ ہی انتظامیہ کو فوری معطل کرنا چائیے تھا تاکہ تحقیقاتی عمل میں کوئی رکاوٹ کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ اب تحقیقات ان کے خلاف کیسے ہوگی جو اپنے ”اعلیٰ عہدوں“ پر براجما ن ہوں او روہ تحقیقاتی اداروں سے تعاون بھی کریں گے یقیناً یہ اپنے ”دوست احباب“ کو بچانے کی کوشش کرنے کے سوا کچھ نہیں کریں گے، تحقیقات سے قبل ہی دھمکی آمیز وضاحت سے سوالات جنم لے چکے۔

اب دیکھنا ہے کہ گورنر موصوف اس پر کیا ایکشن لیتے ہیں ویسے بھی سرکاری محکموں میں رولز موجود ہیں کہ تعیناتی کا دورانیہ رولز کے مطابق ہوناچائیے اس میں اضافہ کسی صورت بھی ضروری نہیں، نئی تعیناتیاں کی جائیں تاکہ اداروں کی کارکردگی میں خوشگوار اضافہ ہو۔ ایک ہی شخص کو مسلسل کسی ادارے کا سربراہ بناکے رکھنا کبھی بھی مثبت ثابت نہیں ہوتا چاہے وہ کوئی بھی ادارہ ہو۔

وقت کے ساتھ اور حالات کے مطابق ”مثبت تبدیلی“ کے مثبت اثرات مرتب ہوتے ہیں گورنر موصوف کو چائیے کہ وہ دیگر تعلیمی اداروں کی طرح بلوچستان یونیورسٹی کے شعبوں میں بھی مثبت اقدامات کے طورپر تبدیلیاں لائیں تاکہ درس و تدریس کے عمل میں مزید بہتری آئے اور موجودہ بد نما داغ بھی اس ادارے کی پیشانی سے دھل سکے اور بلوچستان بھر میں جو غم و غصہ پایا جاتا ہے اس میں کمی آسکے،والدین بھی مطمئن ہوں کہ ان کی بچیاں ایک بہتر تعلیمی ادارے میں اپنی تعلیم جاری رکھ سکتے ہیں۔