|

وقتِ اشاعت :   October 17 – 2019

میرے گاؤں میں ڈاکٹر تو اپنی جگہ لیڈی ہیلتھ وزٹرز تک دستیاب نہیں۔دورانِ زچگی ایک حاملہ خاتون اپنی چیک اپ نہیں کرا سکتی، نہ ہی کوئی ٹرینڈ دائی ہے جو ڈلیوری کیسز کو ڈیل کر سکے۔ ایسی صورتحال کا سامنا نہ صرف میرا گاؤں بلکہ دیگر قریبی گاؤں بھی کرر ہے ہیں۔ بسا اوقات سوچتا ہوں کہ حالات اپنے آپ تبدیل نہیں ہوتے۔ حالات کو تبدیل کرنے میں ایک وژن کارفرما ہوتا ہے۔

چند سال قبل ایسا ہی ہوا ایک وژن اور سوچ کے ساتھ ایک ایسا مسیحا علاقے میں نازل ہوا کہ جس نے پورے علاقے میں صحت کا بیڑا اٹھایا، وہ لوگ جو معمولی بیماریوں کی علاج کے لیے گھر کی جمع پونجی خرچ کر نے دیگر اضلاع چلے جایا کرتے تھے ان کی آمدسے علاقے میں صحت کے شعبے میں تبدیلی آگئی،لوگوں کا مفت علاج ہونے لگا۔ نادیدہ قوتوں کو ان کا یہ انداز ایک آنکھ نہیں بھایا، ڈاکٹر کو راستے سے ہٹادیا۔

وہ قوتیں جو علاقے کو صحت کی پستی کی جانب لے جانا چاہ رہی تھیں، اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہوئے،پورا علاقہ نہ صرف مسیحا سے محروم ہوا بلکہ نتیجے میں خوف کا ایک ایسا ماحول پیدا ہواکہ ضلع بھر کے وہ ڈاکٹر جو مختلف علاقوں میں ڈیوٹی انجام دے رہے تھے،خوف کے مارے اپنا تبادلہ دوسرے اضلاع کرا گئے۔ یہ نفسیاتی گیم کس نے کھیلا، اس کے پیچھے کون سے محرکات کارفرما تھے اس گیم کی تہہ تک آج تک کوئی پہنچ نہیں پایا۔

پورے گاؤں میں تعلیم کا ریشو بھی زیرو ہے، دو تین بچیاں ایسی ہیں جو ایف اے یا بی اے کر چکی ہیں۔ علاقے کی خواتین کو درپیش صحت کے چیلنجز سے نمٹنے کے لیے وہ نرسنگ کا کوئی کورس کریں، اس کے لیے بھی ان کے خاندان والے راضی نہیں۔ علاقے کا رخ کرتا ہوں وہاں کی صورتحال دیکھ کر دل میں ایک خواہش جاگتی ہے کہ کاش علاقے میں ایک ہیلتھ کلینک ایسا ہو جس میں بنیادی صحت کی سہولیات کے ساتھ ساتھ کم از کم ایک لیڈی ہیلتھ وزٹر یا ٹرینڈ دائی کی خدمات دستیاب ہوتیں، مگر لفظ کاش اپنی وقعت کھو چکی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ آسمان سے تو کوئی دائی یا لیڈی ہیلتھ وزٹر نازل نہیں ہونا، جب تک علاقے کی بچیاں خود ٹریننگ کے عمل میں حصہ نہ لیں۔ لیکن علاقے میں ٹریننگ کا کوئی انتظام نہیں جب تک بڑے شہروں کا رخ نہ کیا جائے۔اس حوالے سے سوچنا شروع کیا کہ اہلِ علاقہ کو کیسے آمادہ کیا جائے، کوششیں شروع کیں،ایڈوکیسی کا سلسلہ شروع کیا، مگرکوئی بھی آمادہ ہو نے کو تیار نہیں۔۔ وجہ؟ وجہ صرف یہی سامنے آتا ہے کہ نرس یا لیڈی ہیلتھ وزٹر کو معاشرہ اچھی نگاہ سے نہیں دیکھتا، اس کے کردار پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔ یہ سوچ معاشرے کے اندر اتنی سرایت کر چکی ہے کہ حاملہ خواتین دورانِ زچگی بھلے اپنی جان گنوا بیٹھیں، اہلِ علاقہ خواندہ لڑکیوں کو نرسنگ کا کورس کرانے پہ راضی نہیں ۔

حالیہ بلوچستان یونیورسٹی کے اندر اٹھنے والی شور و غوغا نے ایک بار پھر میرے خیالات کے آگے بند باندھا کہ میں جن اداروں کے حق میں دلائل دیتا رہا ہوں کہ ان کے اندر ایسی سوچ ہائی نہیں جاتی، یونیورسٹی اسکینڈل نے میرے تمام دلائل اور مکالموں کو غیر موثر کرکے رکھ دیا۔ میڈیاپر چلنے والی خبروں نے بلوچستان یونیورسٹی جیسے مادر علمی ادارے کی کریڈیبلٹی پر سوالات اٹھا کر سب کو جھنجھوڑ کرکے رکھ دیا کہ آخر یہ سب کچھ کیا ہو رہا ہے۔

یہ بیج ادارے کے اندر کس نے بوئے ہیں جو آنے والے وقتوں میں پورے معاشرے کے لیے زہر ہلاہل بن جائیں۔میں پس منظر میں جانا نہیں چاہتا کہ یونیورسٹی میں جو کچھ ہوا، اس کے پیچھے کن کا ہاتھ ہے اور نہ ہی میں تحقیقات کی ان گتھیوں میں پھنس کر انہیں سلجھانے کی پوزیشن میں ہوں۔ ایک سے بڑھ کر ایک لا ینحل معاملات ہیں، ان کا حل کہیں بھی نظر نہیں آتا۔ میں کسی کو لعنت و ملامت بھی نہیں کرتاکیونکہ یہ مسئلے کا حل نہیں اور نہ ہی کسی کو ان القابات سے نوازتا ہوں جو بالواسطہ یا بالاواسطہ اس سارے عمل کا حصہ رہے۔ نہ ہی میرے پاس ایسے کوئی اختیارات ہیں کہ معاملے کی تہہ تک پہنچ جاؤں اور ان کرداروں کو کیفر کردار تک پہنچاؤں جو وہ یہ سب کچھ اپنے مہروں کے ذریعے کرواتے رہے۔

مگر ایف آئی اے کا اچانک جاگ جانا، تحقیقات کو ایک نیا موڑ دینا اور سوشل میڈیا اور میڈیا پر طوفان برپا کر دینا اس سارے عمل کے پیچھے ایک تیار شدہ خاکہ نظر آتا ہے۔ کہانی کار بڑے شاطرہیں وہ جب بھی چاہیں ایک نیا نقشہ تخلیق کر ڈالیں یا پرانے نقشے میں ذرا سی ردوبدل کر کے ایسی فضا پیدا کریں جہاں سے پستی کی راہیں ہموار ہوں۔ ہراسانی سے لے کر نئے اتھل پتھل تک کے اس سارے عمل کے پیچھے وہ کون سی سوچ ہے جو پلاٹ در پالٹ بناتی اور ایسے حالات پیدا کرتی ہے۔

وہ کون بازی گر ہیں جو اس کھیل میں چند کھلاڑیوں کو میدان میں لاتے ہیں تماشے کا اہتمام کرتے ہیں اورمحظوظ ہوتے ہیں، پھر کھیل کو ختم کرنے کا ڈھنگ بھی بخوبی جانتے ہیں۔ وزیراعظم لیاقت علی خان قتل کیس سے متعلق رپورٹوں نے صحافتی اداروں کے اندر سر اٹھانا دوبارہ شروع کیا ہے۔ اور مضمون نگار ہیں کہ اپنے طور پر خاکے تیار کرتے ہیں کڑیوں کو کڑیوں سے ملاتے ہیں مگر حقائق کی تہہ تک پہنچ نہیں پاتے کیوں؟ اس لیے کہ حقائق کے تمام رخ موڑے جا چکے ہیں۔ بیچارہ مضمون نگار اپنی اس کہانی کو کبھی بھی اختتامیہ دے نہیں پاتا جو سوالات کی صورت میں اس کے ذہن میں تخلیق پا چکے ہوتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کر بھی کیا سکتے ہیں،جتنی چادر اتنی ہی پاؤں پھیلا کر دل کو تسلی دینے کا کام کرتے ہیں۔

قومی روزنامہ کا ایک نام نہاد دانشور اور کالم نگار جس کے کالموں کو ایک وسیع حلقہ پسند کرتا ہے کہانیاں گھڑنے کا ماہر کہلاتا ہے۔ موصوف2016ء میں جب بلوچستان آئے تو ایک منصوبے کے تحت ”بدلتا بلوچستان“ کے عنوان سے بلوچستان یونیورسٹی اور آقاؤں کے حق میں ایسا مصنوعی کالم تخلیق کر ڈالا کہ کالم سے نہ صرف آقا خوش ہوئے بلکہ مضمون کے اندر وائس چانسلر بلوچستان یونیورسٹی کے حق میں ایسے گولے داغے کہ آقاؤں کو ان کی یہ ادا بہت پسند آئی اوریوں وائس چانسلر کے لیے تین سال کی توسیع کرواکے کالم کا حق ادا کیا۔ مجھے نہیں لگتا کہ بلوچستان یونیورسٹی کی موجودہ خجالت بھریصورتحال پر مذکورہ کالم نگار کو اپنے سابقہ کالم پر ذرا سی شرمندگی محسوس ہوگی۔ ہمارے ہاں بیچارے قلمکار نہ ہی زمینی حقائق سے واقف ہیں اور نہ ہی انہیں حالات کا ادراک ہے۔

دو گھنٹے کی بریفنگ میں خاکہ تیار کرکے لفظوں کی ایسی جگالی کرتے ہیں کہ پڑھنے والے آہ آہ، واہ واہ کرتے ہی جائیں۔ سوچتا ہوں کہ لیاقت علی خان اور بے نظیر قتل کیس کی گتھیاں جو آج تک سلجھائی نہیں گئیں تو بھلا یونیورسٹی میں ہراسانی کیس جو مقتدر حلقوں کی نظر میں ایک معمولی سا کیس ہے، بھلا اس کی گھتیاں کون سلجھائے اور کیوں۔ اب خدا جانے اس پورے واقعے کے پیچھے جسے اچھالنے میں قومی میڈیا جو بلوچستان کو ایک انچ جگہ بھی فراہم نہیں کر تا،مذکورہ واقعہ کو بڑا موضوع بنانے میں کیسے پیش پیش ہے اور ایف آئی اے جیسے ادارے کا فوری حرکت میں آنا،پلاٹ کے اغراض و مقاصد بارے سوال کھڑے کرتا ہے کیونکہ یہ واقعات اچانک یونیورسٹی میں پیش نہیں آئے بلکہ ان کی بازگشت گزشتہ کافی عرصے سے سنائی دے رہی تھی۔لیکن اتنا ضرور جانتا ہوں کہ ہر واقعہ اپنے اندر ایک مرکزی خیال چھپایا ہوا ہوتا ہے۔

ہمارا معاشرہ ابھی تک ابتدا ئی مراحل میں ہے اسے بلوغت تک پہنچنے میں وقت لگے لگا۔ بلوغت تک پہنچتے پہنچتے ایسی کہانیاں اس کی زندگی کی ساتھ جڑتی چلی جائیں گی۔ ایسی کہانیوں سے منظر نامہ کھل کر سامنے آئے یا نہیں مگر یہ ضرور ہوگا کہ جو لوگ جو اپنی بچیوں کو تعلیمی اداروں کے سپرد کر کے سکون کی نیند سویا کرتے تھے اب ان کے اندر ایک بے چینی پیدا ہوگی۔کہیں ایسا تو نہیں کہ خفیہ کیمروں کی تنصیب سے لے کر، بلیک میلنگ و ہراسانی تک، لڑکیوں کی تعلیم کے آگے بند باندھنا مقصود ہو جس کا عملی مظاہرہ پچھلے کئی سالوں سے مختلف طریقہ وارداتوں کے ذریعے کیا جاتا رہا ہے۔ اب یہ بلوچستان کے باشعور حلقے پر منحصر ہے کہ وہ ان واقعات کو واقعاتی طور پر یا ایک ہی زاویے سے دیکھنے کے بجائے دیگر زاویوں سے دیکھنے کی کوشش کرے گی اور ان حقیقی محرکات پر بھی بحث کرے گی جنہیں چھیڑا نہیں جاتا۔