|

وقتِ اشاعت :   October 22 – 2019

لوگ کہتے ہیں کہ شال کبھی ایسے نہیں تھا اب بہت بدل چکا ہے۔ راہ چلتے لوگوں کے چہروں کا تاثرات پڑھنے کی کوشش کریں تو عنوانات سے خالی نظر آتے ہیں۔سوچ کی گھنٹی ٹھن ٹھن کرنے لگتی ہے شال جو کبھی فن سے آشنا تھا اب ایک ناآشنائی کی فضا در آئی ہے۔ نہ ہی تفریحی مقامات، نہ ہی محفلوں کا تصور۔ اجنبی پن لمحوں میں آدمی کو گھیر لیتی ہے۔ دو چار دوست ایک جگہ بیٹھے ہوئے ہیں تو بھی سب اپنے اپنے خیالوں میں گم۔ ایک مصور نے پوچھا تھا کہ وہ کہانی کار کہاں ہیں جن کی جادوئی جملوں کو پڑھ کر تصورات جنم لیا کرتے تھے۔ جواباً کہا کہ کہانی کار لاپتہ ہے اور کہانی گمشدہ۔۔

شال کو آخر ہوا کیا ہے؟ اب یہ سوال بہت کم لوگ اپنے آپ سے پوچھتے ہیں۔ فن، فنکار اب نہیں رہے۔ فضل الرحمان قاضی صاحب کا لکھا ہوا مضمون”کوئٹہ کا برباد ٹاکیز، بازار حسن اور چلتا پھرتا سینما“ پڑھ رہا تھا مضمون میں پرنس روڈ کی اس سینما کا حال بیان کیا گیا تھا جو جنونی لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ کیا اب پرنس روڈپر کسی سینما کا کوئی تصور کر سکتا ہے؟ کوئٹہ کی ان بے رنگ فضاؤں میں جب اپنے آپ سے اکتا جاتا ہوں تفریح گاہیں ہیں ہی نہیں تو سینما کی خواہش جاگ جاتی ہے سینما مگر کہاں۔۔۔ فوجی چھاؤنی میں۔۔ اب بھلا آرٹ اور وردی کا کیا تعلق،ذہن میں خیال آتے ہی خواہشات کے بادل چٹنے لگتے ہیں۔ بزرگ اپنی محفلوں میں جب پرانے کوئٹہ کا نقشہ کھینچتے ہیں تو مجھ جیسا آدمی اپنے آپ کو اسی میں گم پاتا ہے۔ اب وہ پرانا کوئٹہ بڑی بڑی عمارتوں کے پیچھے اوجھل ہو چکا ہے۔ نہ فن ہے نہ ہی فنکار کی کوئی نوید۔ سب کچھ اوجھل ہے ذہن بوجھل ہے۔

گزشتہ روز بوجھل ذہن کے ساتھ آرٹ گیلری کے اندر داخل ہوا۔ دیواروں پر سجی مصوری اور لوگوں کا چہل پہل دیکھ کر ذہن کا بوجھ اتر گیا۔بلوچستان یونیورسٹی اور سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی فارغ التحصیل طالبات کی پینٹنگ کا نمائشی اہتمام آرٹ گیلری نے کیا تھا۔ لوگ آرہے ہیں، جا رہے ہیں۔ پینٹنگز کو غور سے دیکھ رہے ہیں کسی کو مصوری سمجھ میں آرہی ہے، بہت سے انجان ہیں۔ انجان کیفیت انہیں مصوروں سے سوالات پوچھنے پر مجبور کر رہی ہے۔ ایسے لگ رہا ہے کہ پورا شال ایک ہی ہال میں سمٹ آیا ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کی طالبہ ساحرہ نے ٹرانس جینڈر کو اپنی پینٹنگ کا موضوع بنایا ہے۔ موضوع کا انتخاب کیوں کیا یہی سوال ان سے تھا؟”راہ چلتے ہوئے جب بھی میری نگاہیں ٹرانس جینڈر پر پڑتی تھیں تو لوگ انہیں چھیڑ رہے ہوتے۔ تو ذہن میں خیال آتا کیا یہ اسی کائنات کی ایک مخلوق نہیں۔ میں نے ان سے بات کی، انہیں محسوس کیا۔انہیں اپنی پینٹنگ کا موضوع بنا لیا اور پینٹنگ کے ذریعے ان کے احساسات کو اجاگر کرنے کی کوشش کر رہی ہوں“۔

ایک خاتون ہی خاتون کے جذبات و احساسات کو سمجھ سکتی ہے، دیوار پر آویزاں زیادہ تر خاکوں کا موضوع عورت ہی ہے۔ سردار بہادر خان ویمن یونیورسٹی کی طالبہ سعیدہ کاکڑ نے اپنی پینٹنگ کے ذریعے خواتین کے احساسات کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ معاشرتی بے حسی اور خود غرضی کو دکھانے کی کوشش کی ہے۔ اس کا خیال کیسے آیا ”معاشرے کو دیکھ کر۔۔ ہمارا معاشرہ دن بدن خود غرض اور بے حس بنتا جا رہا ہے۔

بجائے کسی کے مدد کرنے، حالات کو ٹھیک کرنے کے لوگ اسے بے بسی کے حوالے کرکے چلے جاتے ہیں مگر انہیں یہ نہیں معلوم کہ زمین کے اُس پار جو انہیں دکھائی نہیں دیتی اس سے بھی برے حالات ہیں، ایک پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ حالات سے بھاگنے کے بجائے ان کا مقابلہ کیا جائے“۔ سعیدہ کو اس فیلڈ کے انتخاب میں ان کے والد نے سپورٹ کیا۔ وہ بلوچستان میں آرٹ کی کم پذیرائیپرنالاں ضرور ہیں مگر پرعزم ہیں کہ وہ اپنا سلسلہ آگے بڑھاتے ہوئے اس فیلڈ پر کام کریں گی اور حصول تعلیم کے لیے ان شہروں کا انتخاب کریں گی جہاں آرٹ فروغ پا چکا ہے اور لوگ آرٹ کو سمجھتے ہیں۔

سامعہ بانو کا تعلق سبی سے ہے۔بچپن سے ان کی خواب تھی آرٹسٹ بننے کی مگر سماجی بندھنیں آڑے آئیں۔سوسائٹی نے گھر والوں کے سامنے فائن آرٹس کا وہ نقشہ پیش کیا کہ گھر والوں نے اس کے بعد ان کی ایک بھی نہیں سنی۔ مگر وہ اپنے ارادوں پر قائم رہیں چھ سال تک بطور احتجاج تعلیمی میدان سے کنارہ کش رہیں یہاں تک کہ گھر والوں کو ان کے احتجاج کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ سامعہ کہتی ہیں ”ہم جس سماج کا حصہ ہیں وہاں فائن آرٹس کو اچھی نگاہوں سے دیکھا نہیں جاتا، سوسائٹی نے فائن آرٹ کے حوالے سے ایک سوچ ڈیزائن کیا ہے کہ یہ فیلڈ فحاشی کو پینٹ کرتا ہے یہ میرے لیے مشکل مرحلہ تھا کہ اپنے گھر والوں کو راضی کروں۔ جب فائن آرٹس میں میرا داخلہ ہوا تو اپنے گھر والوں کو یہاں بلایا،انہوں نے میری بنائی ہوئی پینٹنگ دیکھی اور اساتذہ سے ملے تو ان کی سوچ یکسر بدل گئی۔“ سامعہ نہ صرف بلوچستان یونیورسٹی شعبہ فائن آرٹس کی طالبہ ہیں بلکہ وہ شام کو آرٹ گیلری میں کیلی گرافی کی کلاس لینے آتی ہیں۔

نمائش کا وقت ختم ہوا ہے۔ وہ ھال جو چند لمحے قبل کچا کچ بھرا ہوا تھا اب خالی ہو چکا ہے۔ اب فقط پینٹ کی ہوئی تصویریں ہیں جو آپس میں محو گفتگو ہیں۔ دوران نمائش کوئی بھی خاکہ گاہکوں کا توجہ حاصل نہیں کر پایا۔ اور نہ ہی گاہک خریدنے پر آمادہ ہوئے اور نہ ہی وہ مہمان جو نمائشی فیتہ کاٹنے آئے تھے ایک دو پینٹ خرید کر اپنے حصے کا دیا جلا کر چلے جاتے۔ پینٹنگ معیاری نہیں تھے یا لوگ خاکوں سے انجان؟

سوال آرٹ گیلری کے انچارج خدا ئے رحیم سے کیا”پینٹنگ تو معیاری تھے مگر لوگ بطور گاہک نہیں آتے،صرف نمائش دیکھنے آتے ہیں یا وہ لوگ ہیں جن کے پاس پینٹنگز خریدنے کی گنجائش نہیں“۔ تو پینٹنگ اتنا مہنگا کیوں؟اس پر آرٹسٹ زباد بلوچ کہتے ہیں۔ ”پینٹنگ مہنگا نہیں ہے مواد مہنگا ہوگیا ہے کلر کے اخراجات بڑھ گئے ہیں۔ ایک پینٹنگ پر کئی ماہ لگتے ہیں۔ اب یہ خریدار پر منحصر ہے کہ وہ پینٹنگ کو ایک آرٹسٹ کی نگاہ سے دیکھتا ہے یا ایک گاہک کی طرح جن کے نزدیک ایک عام تصویر اور پینٹنگ میں کوئی فرق نہیں“۔

زباد بلوچ کا شکوہ ہے کہ کوئٹہ کی سطح پر آرٹسٹ کو وہ پذیرائی یا حوصلہ افزائی نہیں ملتی جو ان کا حق ہے اور آرٹ کے حوالے سے اس فضا کو قائم کرنے میں ان سینیئر آرٹسٹ کا بھی ہاتھ ہے جو نہیں چاہتے کہ جونیئر آگے آئیں۔ آرٹ نمائش میں یونیورسٹی کے آرٹسٹ آئے مگر استاد غائب تھے تو کیا انہیں اطلاع نہیں دی تھی؟، خدائے رحیم کہتے ہیں ”دعوت نامہ سب کو بھیجا تھا مگر آنے کی زحمت کسی نے نہیں کی“۔ استاد اور شاگرد کے درمیان یہ فاصلہ کیسا؟ یہی سوال میں نے آرٹسٹ سعدیہ راٹھور سے کیا؟

کہتی ہیں سرپرستی تو دور کی بات استاد شاگردوں کو درست گائیڈ لائن نہیں دے دیتے۔ اداروں کے اندر اب سیکھنے اور سکھانے کا وہ رجحان نہیں رہا جو کسی زمانے میں ہوا کرتا تھا۔ میں جب لاہور جاتی ہوں نیشنل کالج آف آرٹس کے اساتذہ مجھ سے کہتی ہیں کہ بلوچستان کے بچوں میں ٹیلنٹ بہت زیادہ ہے مگر یہاں وہ ٹیلنٹ ضائع ہو رہا ہے اسے اپنا کام کس طرح آگے بڑھانا ہے استاد اسے کبھی بھی یہ نہیں بتاتا اساتذہ کے ان رویوں نے بہت سے باصلاحیت شاگردوں کو فیلڈ چھوڑنے پر مجبور کیا۔

بلوچستان کا کلچر، رنگ، لینڈ اسکیپ کو ایک آرٹسٹ ہی پینٹ کر سکتا ہے۔ فن سے عدم دلچسپی کی جو فضا قائم ہے یا آرٹ کا جو مقام ہونا چاہیے تھا وہ مقام نہیں پا سکا۔ یونیورسٹی کے طلبا و طالبات اپنی طرف سے آرٹ کو زندہ رکھنے کے لیے کوشاں ہیں مگر وہ آرٹ ملکی اور بین الاقوامی طور پر پذیرائی کیسے حاصل کرے، اس کے لیے فن کا ایک ایسا میدان ہونا چاہیے جو آرٹسٹ کو غمِ روزگار سے آزادی دلا کر اپنی صلاحیتوں کو دکھانے کا موقع فراہم کرے۔

آپ نے اس میدان میں ایسے اساتذہ پیدا کرنے ہیں جو اساتذہ اور شاگردوں کے درمیان فاصلہ ختم کرکے انہیں صحیح ٹریک پر لائیں یا نیشنل کالج آف آرٹس لاہور کی طرز کا ایک ایسا ادارہ بنانا ہے جو آنے والے وقتوں میں آرٹسٹوں کا ایک بہت بڑا کھیپ تیار کرے جو آگے چل کر بین الاقوامی سطح پر بلوچستان کی نمائندگی کر سکیں۔ اس کے لیے ادارہ ثقافت بلوچستان کو نئے آئیڈیاز لے کر وژنری قیادت پر مشتمل ٹیم کے ساتھ میدان میں اترنا پڑے گا۔