|

وقتِ اشاعت :   November 1 – 2019

دنیا کی تاریخ میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ کسی بھی انقلاب کی کامیابی طلباء یونینز کی جدوجہد اور قربانیوں کا مظہر ہے۔ طلباء معاشرے کے اس طبقے سے تعلق رکھتے ہیں جنکی قلم بندوق سے زیادہ طاقت ور اور خوفناک ہے، طلباء تنظیموں پر نہ صرف تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے طلبا بلکہ پورے معاشرے کے لوگوں کی نظریں جمی ہوئی ہوتی ہیں کیونکہ یہ طلباء کی وہ گروپ ہے جو سوچنے اور بولنے کے فن سے آشنا ہے۔

بلوچستان میں 1967کو بی ایس او کے قیام کے بعد اس خطے کی سیاست پر انتہائی غیر معمولی اثر ات پڑے۔بی ایس او بائیں بازو کی وہ طلباء یونین تھی جس نے بلوچستان سمیت دنیا بھر کے مظلوم و محکوم اقوام کیلئے نعرہ بلند کیا۔ 1967سے لیکر2019تک بی ایس او نے کئی کھٹن حالات و واقعات دیکھے اور آج نوبت یہ ہے کہ بلوچستان کے طلباء کی شعوری،سیاسی و علمی نشونماء کرنے والی طلباء تنظیم بی ایس او پانچ دھڑوں میں تقسیم ہے۔

بلوچستان میں طلباء سیاست کا زوال اس وقت شروع ہوا جب بی ایس او کو مختلف دھڑوں میں تقسیم کیا گیا، اس تقسیم در تقسیم میں ریاستی مشینری سمیت بلوچستان ہی کے سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ ہے جنہوں نے اپنے سیاسی مفادات کے خاطر طلباء کو مختلف حصوں میں تقسیم کرکے سیاسی شعور و علمی بیداری کے بجائے اپنے پارٹی کے جلسوں میں جھنڈہ لگانے سمیت وال چاکنگ اور نعرہ بلند کرنے کیلئے بے دریغ استعمال کیا جبکہ اس تباہ حالی و تقسیم میں بی ایس او کے وہ چئیرمین صاحبان بھی شریک ِ جرم تھے جو خود استعمال ہوتے رہے اور طلباء کو استعمال کرتے رہے۔

2006کو نواب اکبر خان بگٹی کی شہادت کے بعد بلوچستان میں طلباء سیاست کی نئی لہر دوڑ گئی لیکن جوں جوں صوبے میں سیاسی حالات کھٹن ہوتے گئے تو طالبعلموں پر یہ دور بھاری گزری جہاں سینکڑوں طلباء کی مسخ شدہ لاشیں ویرانوں میں پھینک دی گئیں اور سینکڑوں سیاسی طالبلعموں کو پابند سلاسل کردیا گیا جو اب تک لاپتہ ہیں۔ بلوچستان یونیورسٹی صوبے کی پہلی جامعہ ہے جو ستر کی دہائی میں نیپ(نیشنل عوامی پارٹی) کی دورحکومت میں بنائی گئی اس وقت کے وزیراعلیٰ سردار عطااللہ خان مینگل اور گورنربلوچستان میرغوث بخش بزنجو تھے۔

مقتدر قوتیں اس وقت بھی قوم پرست حکومت کی اس اقدام پر خوش نہیں تھے کیونکہ ان کو معلوم تھا کہ تعلیمی درسگاہ ہی شعور کی نرسریاں ہیں جہاں سوچنے،سمجھنے اور سوال کرنے کے آداب سکھائے جاتے ہیں۔ چونکہ سردار عطااللہ اورمیرغوث بخش بزنجو دونوں وژنری لیڈر تھے تو انہوں نے حکومت میں آتے ہی پہلا تاریخی کارنامہ جامعہ بلوچستان کو بنا کر سرانجام دیا(بعد میں جمہوریت کے چیمپئین اور اس وقت کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے نیپ حکومت کا تختہ الٹا کر دونوں رہنماؤں کو جیل میں ڈال دیا)۔ بلوچستان یونیورسٹی کی ایک سیاسی تاریخ ہے جہاں سے بلوچستان کے سیاسی قائدین اور مشہور بیوروکریٹس نے تعلیم حاصل کی ہے۔ جامعہ میں ہمیشہ طلباء کی سیاسی،علمی، سائنسی و ادبی سرکلز لگتے تھے جہاں طلباء کو کورس کے کتابوں سے ہٹ کر انسانیت، معاشرتی زندگی کے اصول،سیاست اور ادب سکھایا جاتا تھا۔


گزشتہ دس برس سے جامعہ بلوچستان میں طلباء سیاست پر غیراعلانیہ پابندی عائد تھی لیکن اسی سال باقاعدگی سے بلوچستان کے تعلیمی اداروں میں طلباء یونینزاور کیمپس پولیٹکس پر پابندی کا نوٹیفکیشن جاری ہوا۔ بقول ِ بلوچوں کے ”دینّاں داسی“ یہ کہا گیا کہ تعلیمی درسگاہوں میں شعور،علم و ادب، سیاست کی باتیں نہیں ہونی چاہئیں۔ بلوچستان یونیورسٹی میں کرپشن، اقرباء پروری، بلیک میلنگ اور طلباء یونینز پر پابندی کے خلاف جامعہ کے طلباء تنظیموں نے 2015کو ہمت کرکے کیمپ لگا دیا اور تحریک چلائی لیکن بدقسمتی سے یہ تحریک کامیاب نہ ہوپایا کیونکہ طلباء تنظیمیں ماضی کی طرح آپس میں دست و گریباں اور تقسیم درقسیم پر عمل پیرا رہے۔

بلوچستان یونیورسٹی میں گزشتہ ایک دہائی سے سب کچھ ہوتا رہا، وائس چانسلر کی سرپرستی میں 7گریڈ کے معمولی ملازموں کو گریڈ17میں ترقی دیکر سیکورٹی آفیسر یا ہاسٹل انچارج بنایا گیا، یونیورسٹی میں سوال کرنے اور آواز اٹھانے والے طلباء کو سمسٹر سے Drop outکیا گیا لیکن طلباء تنظیمیں ایک مستحکم تحریک چلانے کے بجائے اپنے اپنے سرکلوں میں جھنڈے لگانے کی ریس میں مگن رہے۔اب معاملہ یہاں تک پہنچا ہے کہ پاکستان کے وفاقی ادارہ نے خود انکشاف کیا کہ یونیورسٹی میں کرپشن و اقرباء پروری سمیت بلوچستان کے بیٹیوں کی جنسی ہراسگی بھی کی جاتی ہے۔ ایف آئی اے کی رپورٹ کے بعد دس سالوں سے پابندی کی وجہ سے خاموش طلباء تنظیموں میں جان آگئی ہے اور ایک تحریک شروع ہوئی ہے لیکن کیاطلباء تنظیمیں اس اہم مسئلے پر یکجا ہیں۔۔؟ یہ سوال اب بھی باقی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کے مسئلے پربلوچ،پشتون اور ہزارہ طلباء تنظیموں کا ایک مشترکہ الائینس ”طلباء ایجوکیشنل الائنس کے نام سے بنی ہوئی ہے لیکن افسوس کی بات ہے کہ جب پہلی دن الائنس نے احتجاج کی کال دی تھی تو کچھ تنظیمیں کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کررہے تھے جبکہ کچھ تنظیموں نے جامعہ کے اندر دھرنا دے رکھا تھا۔دوسرے ہی دن جب الائنس کی جانب سے یونیورسٹی میں مشترکہ دھرنے کا اعلان ہوا تو یہ دیکھنے کو ملا کہ ہر سرکل سے ایک الگ ریلی نکلی جب کے طلباء دو گروپوں کی شکل میں تقسیم تھے جس میں ایک گروپ نے گیٹ کے سامنے سریاب روڈ کو بلاک کر رکھا تھا اور دوسرے گروپ نے گیٹ کے اندر دھرنا دیا۔

اب حیرانگی کی بات یہ ہے کہ مسئلہ ایک ہے، یونیورسٹی ایک ہے،الائنس بھی بنی ہوئی ہے تو یہ کون سی طاقت ہے جو طلباء تنظیموں کو یکجا ہونے نہیں دیتی اور تمام تنظیمیں اب بھی ماضی کی طرح جھنڈہ گاڑھنے اور اپنا الگ پاور شو دکھانے میں لگے ہوئے ہیں۔ اس میں سب سے بڑا نقصان یہ ہورہا ہے جو طالبات بلیک میلنگ اور جنسی ہراسگی کے شکار ہوئی ہیں وہ اب تک کنفیوز ہیں کہ کس تنظیم کے پاس جاکر اپنی شکایت درج کریں جبکہ ہرکسی نے الگ الگ جھنڈے اٹھائے ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ یونیورسٹی کے طلباء یہ سمجھ نہیں پا رہے کہ وہ گیٹ کے باہر والے دھرنے میں بیٹھیں یا اندر والے میں، بی ایس او کے ریلی میں جائیں یا پی ایس او کے، پجار کے دھرنے پر بیٹھیں یا ایکشن کمیٹی والوں کے۔۔!

ایف آئی اے اور اسمبلی کمیٹی کے اراکین 29تاریخ کو بلوچستان ہائی کورٹ میں پیش تو ہوئے لیکن یہ عذر ظاہر کیا کہ اب تک کوئی بھی متاثر ہ طالبعلم ان کے سامنے پیش نہیں ہوئی ہے جس پر عدالت نے مزید تحقیق کرنے کو کہا اور کیس کی سماعت نومبرکی15تاریخ تک ملتوی کردی۔ اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ یونیورسٹی میں طلباء کے حقوق کا نعرہ لگانے والی طلباء تنظیمیں کیا اتنے بھروسے کے قابل نہیں رہیں کہ کوئی طالبعلم اپنا قصہ سناتے ہوئے خود کو محفوظ نہ سمجھے۔۔! ظاہر سی بات ہے کہ طالبات باہر جاکر کسی اشتہار کے ذریعے اپنا درد بیان نہیں کرسکتے اور نہ ہی اس سماج کی لڑکیاں روایتوں کی زنجیروں کو توڑ کر ایف آئی اے یا اسمبلی کمیٹی کے سامنے پیش ہونے کی جرات کرینگی۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ یونیورسٹی میں موجود طلباء تنظیمیں اپنی فی میل اراکین کو یہ ذمہ داری دیں کہ وہ متاثرہ طالبات سے بات کریں اور ان کا راز محفوظ رکھنے کی یقین دہانی کرائیں۔

وائس چانسلر اس وقت عہدے سے دستبردار ہیں، کچھ ذمہ داروں کو معطل بھی کیا گیا ہے،عدالت میں کیس بھی زیرسماعت ہے لیکن جب تک طلباء تنظیمیں نمبر بڑھانے اور کریڈٹ لینے کی گیم میں مصروف ہیں تب تک مجھے یہ کیس مضبوط ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔