|

وقتِ اشاعت :   January 3 – 2020

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ جنرل قاسم سلیمانی کی عراق میں امریکی افواج کے فضائی حملے میں ہلاکت کے بعد ایران نے کہا ہے کہ اس اقدام کا بدلہ لیا جائے گا۔

62 سالہ قاسم سلیمانی کو بغداد کے ہوائی اڈے پر ان کی کار میں ایک فضائی حملے میں نشانہ بنایا گیا۔ ان کے ہمراہ کار میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کے عراقی کمانڈر بھی موجود تھے۔

پاسدارانِ انقلاب کی جانب سے قاسم سلیمانی کی ہلاکت کی تصدیق کر دی گئی ہے جبکہ امریکی محکمۂ دفاع نے کہا ہے کہ انھیں صدارتی حکم پر نشانہ بنایا گیا۔

جنرل سلیمانی کا ایرانی حکومت میں ایک کلیدی کردار تھا۔ ان کی قدس فورس صرف رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای کو جوابدہ ہے اور انھیں ملک میں ایک ہیرو تصور کیا جاتا تھا۔

آیت اللہ علی خامنہ ای نے اپنے ردعمل میں قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ انھوں نے قاسم سلیمانی کی ہلاکت پر تین دن کے سوگ کا بھی اعلان کیا ہے۔

ادھر عراق کا کہنا ہے کہ امریکی کارروائی اس کی ’سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور ملک کے وقار پر کھلا حملہ ہے۔‘

جنرل قاسم سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت ایک ایسے وقت میں ہوئی ہے جب بغداد میں چند روز قبل ایران نواز گروہوں کی جانب سے امریکی سفارت خانے پر دھاوا بولا گیا تھا۔

جنرل سلیمانی کی امریکی حملے میں ہلاکت کے بعد تیل کی عالمی قیمتوں میں چار فیصد کا اضافہ دیکھا گیا ہے اور مبصرین کے خیال میں ان کی موت پر ایران کی جانب سے شدید ردعمل سامنے آنے کا امکان ہے جس سے خطے کی کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گا۔

بغداد کے ہوائی اڈے پر حملہ

امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق جنرل قاسم سلیمانی اور ایران نواز ملیشیا کے ارکان دو گاڑیوں میں بغداد کے ہوائے اڈے سے نکل رہے تھے جب ان کو امریکی ڈرون نے نشانہ بنایا۔

اطلاعات کے مطابق جنرل سلیمانی لبنان یا شام سے بغداد پہنچے تھے۔ امریکی ڈرون نے گاڑیوں پر کئی میزائل برسائے اور خیال کیا جا رہا ہے کہ اس حملے میں پانچ افراد ہلاک ہوئے ہیں۔

ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے مطابق عراقی ملیشیا کے کمانڈر ابو مہدی المہندس بھی ہلاک ہونے والوں میں شامل ہیں۔

امریکی محکمۂ دفاع کی جانب سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ ’امریکی افواج نے صدارتی حکم پر بیرون ملک امریکی اہلکاروں کے تحفظ کے غرض سے جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کر دیا ہے۔‘

بیان میں کہا گیا ہے کہ ’یہ حملہ ایران کے مستقبل کے منصوبوں کو ناکام بنانے کے لیے ضروری تھا۔ امریکہ اپنے شہریوں اور اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہر ضروری قدم لینے کے لیے تیار ہے۔‘

ایران، عراق کا ردعمل

ایران کے رہبرِ اعلیٰ آیت اللہ علی خامنہ ای نے جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے بیان میں کہا ہے کہ ’سخت انتقام ان مجرموں کا منتظر ہے جنھوں نے (سلیمانی) اور دیگر شہیدوں کے خون سے گذشتہ رات اپنے ہاتھ رنگے ہیں۔‘۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے اپنے بیان میں امریکی اقدام کو ’عالمی دہشت گردی‘ قرار دیا اور کہا کہ وہ اور ان کی قدس فورس خطے میں نام نہاد دولتِ اسلامیہ، النصرہ اور القائدہ سمیت دیگر تنظیموں سے لڑنے والی سب سے مؤثر قوّت تھی۔

پاسدارانِ انقلاب کے سابق کمانڈر محسن رضاعی نے کہا ہے کہ ’ایران امریکہ سے شدید بدلہ لے گا۔‘ ادھر ایرانی حکومت کے ترجمان کا کہنا ہے کہ اس مجرمانہ حملے پر بحث کے لیے ملک کی سلامتی کے سب سے اہم ادارے کا اجلاس جلد ہو گا۔

امریکی صدر ٹرمپ نے جنرل سلیمانی کی ہلاکت کے بعد اپنے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر امریکی جھنڈے کی تصویر بھی لگائی، جس کے ردِ عمل میں کئی ایرانی سوشل میڈیا صارفین اپنے اکاؤنٹس سے بھی ایرانی جھنڈے کی تصویریں شیئر کر رہے ہیں۔

عراق کے وزیراعظم کے دفتر کی جانب سے ٹوئٹر پر جاری کیے گئے سلسلہ وار بیانات میں ایرانی جنرل قاسم سلیمانی اور عراقی فوجی کمانڈر ابو مہدی مہندس کے قتل کی مذمت کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ’ یہ دونوں داعش کے دہشت گردوں کے خلاف فتح کے استعارے تھے۔‘

عراقی وزیراعظم کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’ایک سرکاری عہدے پر فائز عراقی فوجی کمانڈر کا قتل عراقی ریاست، عوام اور حکومت کے خلاف جارحیت ہے اور عراقی سرزمین پر عراقی یا ایک برادر ملک کی قیادت کی ہلاکت کی کارروائیاں ملک کی سالمیت کی صریح خلاف ورزی اور ملک کے وقار پر کھلا حملہ ہے۔‘

بیان کے مطابق اس صورتحال پر غور کے لیے عراقی پارلیمان کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے تاکہ ملک کی سالمیت، سلامتی اور خودمختاری کے تحفظ کے لیے مناسب اقدامات اور قانون سازی کی جا سکے۔

جنرل سلیمانی کا کردار اہم کیوں؟

جنرل سلیمانی سنہ 1998 سے پاسدارنِ انقلاب کی قدس فورس کے سربراہ تھے۔ یہ یونٹ بیرونِ ملک خفیہ آپریشنز کرتا تھا۔ اس سے قبل انھوں نے 1980 کی دہائی میں ایران اور عراق کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں نام کمایا۔

جنرل سلیمانی اس حوالے سے بھی جانے جاتے ہیں کہ انھوں نے شام کے صدر بشار الاسد کی باغیوں کے خلاف کارروائیوں میں مدد کی اور کئی اہم شہروں اور قصبوں کو باغیوں سے چھڑانے میں کردار ادا کیا۔

ایران نے ہمیشہ اس بات کی تردید کی ہے کہ اس کی فوج شام اور عراق میں موجود ہے، لیکن ایران ان دونوں ملکوں میں ہلاک ہونے والے فوجیوں اور ’فوجی مشیروں‘ کے عوامی جنازوں کا انعقاد گاہے بگاہے کرتا رہتا ہے۔

قاسم سلیمانی نے ان میں سے کچھ جنازوں میں شرکت بھی کی اور شام کی جنگ اور دولتِ اسلامیہ کے خلاف کارروائیوں نے انھیں ملک میں ایک مقبول شخصیت بنا دیا تھا۔

ایران اور امریکہ نظریاتی اعتبار سے ایک دوسرے کے سخت حریف ہو سکتے ہیں لیکن عراق میں دولت اسلامیہ کے خلاف محاذ نے دونوں ممالک میں ایک بالواسطہ اشتراک قائم کیا۔ یہ وہ راستہ ہے جس کی جانب جنرل سلیمانی نے پہلے قدم بڑھایا تھا۔

سنہ 2001 میں جب امریکہ نے افغانستان میں طالبان کے خلاف کارروائی شروع کی تو ایران نے امریکہ کو فوجی انٹیلیجنس فراہم کی تھی۔ اسی طرح سنہ 2007 میں واشنگٹن اور تہران نے اپنے نمائندے بغداد بھیجے تاکہ وہاں کی سکیورٹی صورتحال پر مذاکرات کریں۔

اس وقت سابق عراقی وزیراعظم نوری المالکی بڑھتی ہوئی فرقہ وارانہ تشدد سے نبرد آزما ہو رہے تھے۔جنرل سلیمانی اور علی خامنہ ای

2013 میں بی بی سی فارسی کی ایک دستاویزی فلم کے لیے ایک انٹرویو میں عراق میں سابق امریکی سفیر رائن کروکر نے بتایا تھا کہ جنرل سلیمانی کا بغداد مذاکرات میں اہم کردار تھا۔

رائن کروکر کے مطابق انھوں نے جنرل سلیمانی کے اثرو رسوخ افغانستان میں بھی محسوس کیا تھا جب وہ بطور امریکی سفیر افغانستان میں تعینات تھے۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا ‘افغانستان کے حوالے ایران میں میرے باہمی میل جول کے لوگوں نے مجھ پر واضح کیا کہ وہ وزارت خارجہ کو مطلع رکھیں گے، آخرَکار وہ جنرل سلیمانی ہی تھے جنہیں فیصلے لینے تھے۔’

گذشتہ چند سالوں میں جنرل سلیمانی کا ایران کے خارجہ امور میں کردار مزید ابھر کر سامنے آیا تھا۔ وہ فون لائن کی دوسری طرف پائے جانے والے ایک چھپی ہوئی شخصیت نہیں رہے تھے۔ آج کل وہ ایران میں جانی پہچانی شخصیت ہیں۔

تاہم جنرل سلیمانی کی اس چمک دمک سے تمام لوگ خوش نہیں تھے۔ دسمبر 2014 میں مانامہ ڈائیلاگ سکیورٹی سمٹ کے دوران کینیڈین اور ایرانی شرکا کے درمیان جنرل سلیمانی کے کردار کے حوالے سے تند و تیز جملوں کا تبادلہ بھی ہوا تھا۔

کینیڈا کے اس وقت کے وزیر خارجہ جون بائرڈ نے انھیں نام نہاد دولتِ اسلامیہ کے خلاف لڑنے والا ’خطے میں ہیرو کے روپ میں دہشت کا ایجنٹ‘ کہا تھا۔

امریکی وزیرِ خارجہ مائیک پومپیو نے رواں برس اپریل میں ایران کے پاسدارانِ انقلاب اور اس کی قدس فور س کو غیر ملکی دہشت گرد تنظیم قرار دیا تھا۔

بشکریہ بی بی سی اردو