|

وقتِ اشاعت :   January 19 – 2020

جِلد کو جلاتی تپتی ہوئی دھوپ کی تپش تو بلوچستان وومین کرکٹ ٹیم کے حوصلے پست نہ کرسکی لیکن پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے ڈسڑکٹ اور ریجن میچز بند ہونے کے بعد بلوچستان کی کرکٹرز مایوس ہوگئیں ہیں امن بلوچ تاریک مستقبل کو بھانپتے ہوئے پانچ سال بعد فٹ بال کے کھیل کو خیر آباد کہے کر 2011 ء میں کرکٹ کے میدان میں آگئیں تھیں سپورٹس کو اپنی زندگی کے 14سال دینے والی بلوچستان وومین کرکٹ ٹیم کی کھیلاڑی آج پھر اپنے مستقبل سے شدید مایوس نظر آرہی ہے۔

فزیکل ایجوکیشن میں ایم ایس سی پارٹ 2اسلام آباد سے کرنے کا ارادہ رکھنے والی امن بلوچ سمجھتی ہیں کہ شاید بلوچستان کی پہلی وومین کرکٹ کوچ بننے کااُنکا خواب اب کبھی پورا نہیں ہوگا کیونکہ پاکستان کرکٹ بورڈ نے صوبے میں 2015 ء سے ڈسٹرکٹ اور ریجن میچز بند کردئیے ہیں جبکہ ماضی میں 23 مارچ ، 14اگست جیسے ایام میں بلوچستان حکومت کی طرف سے اسپورٹس گلہ منعقد ہوتے تھے جہاں بلوچستان کی کھیلاڑیوں کو میچ کھیلنے کا موقع ملتا تھا لیکن اب ایسا نہیں ہے جسکی وجہ سے کئی کھیلاڑی کرکٹ چھوڑ کر دوسرے کھیلوں کی طرف چلی گئیں ہیں امن بلوچ نے 2019 میں ہی کوچنگ کورس لیول 1 بھی مکمل کیا ہے کہ شائد اُنہیں پی سی بی میں کوچ کی نوکری مل جائے لیکن اب اُنہیں معلوم نہیں کہ کیا ہوگا۔

امن نے بتایا کہ پی سی بی کے میچز کی طرف سے اُنہیں ایک ٹور پر 5سے 10ہزار تک ملتے تھے اور کھیلاڑیوں کی رہائش کا بندوبست 4 یا 5اسٹار ہوٹل میں ہوتاتھا جبکہ ڈسٹرکٹ میچز میں بھی روز کے پیسے ملا کرتے تھے اوراچھا کھیلنے والی کھلاڑی کوکیش انعام بھی ملتا تھا لیکن اب یہ سلسلہ بند ہوچکا ہے اُنکا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے تو وومین کرکٹرز کو کبھی سراہا بھی نہیں ہے گزشتہ سال 2018ء میں ایک سپر لیگ پشاور میں ہوئی جہاں ہم فائنل تک پہنچے ہماری پرفامنس بہت اچھی تھی لیکن بلوچستان حکومت نے ہماری کوئی حوصلہ افزائی نہیں کی بلوچستان کے محکمہ کھیل کو دیگر کھیلوں کی طرح کرکٹ کے مقابلے بھی کرانے چاہیے ہیں۔

صوبہ بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں ہی وومین کرکٹرز کو ٹرئننگ دی جاتی ہے جہاں وومین کرکٹرز کیلئے کوئی خاتون کوچ نہیں ہے چارکوچ لڑکوں کو کرکٹ سیکھانے کیلئے مختص ہیں اور ایک کوچ لڑکیوں کو ٹرائننگ کراتے ہیں جبکہ لڑکیوں کیلئے کوئی الگ سے گراؤنڈ بھی موجود نہیں ہے کوئٹہ کے بگٹی اسٹیڈیم میں لڑکے لڑکیاں ایک ساتھ پریکٹس کرتے ہیں وومین کرکٹر ز کے کوچ عاقل بلوچ کہتے ہیں کہ جب 2008ء میں اُنہوں نے وومین کرکٹرز کی کوچنگ شروع کی تب صرف دو لڑکیاں ہوا کرتی تھیں جن میں سے ایک ناہیدہ خان ہیں جو آجکل پاکستان وومین کرکٹ میں کھیل رہی ہیں تب اُنہیں گیسٹ کرکٹرز لاہور کراچی سے لینا پڑتی تھیں لیکن 2012 ء میں لڑکیوں کی تعداد بڑھ گئی پھر بلوچستان کی اپنی ٹیم بن گئی تھی۔

کوچ عاقل نے بتایا کہ پورے بلوچستان میں صرف کوئٹہ میں وومین کرکٹرز کو ٹرئننگ دی جاتی ہے اور کوئٹہ میں بھی لڑکیاں بہت مشکل سے پریکٹس کیلئے آتی ہیں کیونکہ اُنکے پاس ٹرانسپورٹ کے بھی پیسے نہیں ہوتے کہ وہ گھر سے اسٹیڈیم تک آسکیں ریجن اور ڈسٹرکٹ میچز بند ہونے سے لڑکیاں مایوسی کا شکار ہوئی ہیں اُن کے مطابق بلوچستان وومین کرکٹرز کیلئے رسپانسر نہیں ملتے اُنہوں نے بہت مارکیٹنگ کی ہے لیکن کوئی بھی ساتھ نہیں دے رہا لاہور کراچی کی ٹیمیں آپس میں سفر کرتے ہیں۔

کیونکہ اُنہیں وہاں مختلف کمپنیاں سپورٹ کرتی ہیں جبکہ بلوچستان میں ایسا نہیں ہے اگررسپانسرس کھیلاڑیوں کے سفری اخراجات اور کھانے کا خرچا برداشت کریں تو بلوچستان کی کرکٹرز بھی کراچی اور لاہور کی ٹیموں کے ساتھ کھیل سکتی ہیں اُنہوں نے کہا کہ کوئٹہ کی کرکٹر ناہیدہ خان پاکستان کی ٹیم میں کھیل رہی ہے جسکی پرفامنس بہت اچھی ہے ناہیدہ جیسی بلوچستان کے پاس دو اور کھلاڑی موجود ہیں جن پر اگر تھوڑی توجہ دی جائے تو وہ بہت اچھا پرفام کریں گی۔

ماہر ثقافت جامعہ بلوچستان کے پروفیسر برکت شا ہ کہتے ہیں کہ بلوچستان میں لڑکیاں لڑکوں کے مقابلے میں ہر طرح پیچھے ہیں ہمارے ہاں لڑکیوں کے اسکولوں میں کھیل کے میدان نہیں ہیں اگر ہم پاکستان بھر کی لڑکیوں کا موازنہ معاشرے کی دیگرلڑکیوں سے کریں تو ہمارے ہاں خواتین کے قد چھوٹے ہیں کیونکہ وہ کھیل کود میں متحرک نہیں رہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ماؤں میں خون کی کمی جوڑوں کا درد عام بیماری ہے تعلیم صرف کتابی ہی نہیں بلکہ فزیکل بھی ہوتی ہے جہاں لڑکیوں کے چہرے پر تیزاب پھنکے جاتے ہوں وہاں کوئی لڑکی کھیل کی طرف آنے کا سوچ بھی کیسے سکتی ہے۔

اُن کے مطابق کوئٹہ کے علاوہ بلوچستان کے بیشتر اضلاع ایسے ہیں جہاں خواتین کا کھیل کی طرف راغب ہونا ناممکنات میں سے ہے اگر بلوچستان کی کوئی لڑکی اپنی سماجی بندشیں توڑ کر کھیل کے میدان میں آتی ہے اورمحنت کرنے کے بعد اُسے ریاست کی طرف سے کوئی مدد فراہم نہیں ہوتی تو اس کا مستقبل کیا ہوگا؟ جبکہ ریاست کی عدم توجہی سے دیگر خواتین کھلاڑیوں کے بھی حوصلے پست ہونگے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ایسا ملک ہے جہاں نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد ہے جس میں خواتین کا بڑا حصہ شامل ہے لیکن افسوس نوجوانوں کے مستقبل کیلئے کوئی جامع پالیسی نظر نہیں آتی۔ذرائع کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ کی جانب سے وومین کرکٹرز کیلئے بلوچستان کو سال میں درجن گیندیں بھیجی جاتی ہیں جسکے علاوہ کچھ نہیں ملتا ریجن میچز میں پھر بھی کھیلاڑیوں کو کٹ وغیرہ مل جایا کرتی تھی پی سی بی نے بلوچستان کو کراچی ذون میں رکھا ہے جہاں بلوچستان کی کھیلاڑیوں کو خاص توجہ نہیں ملتی جسکا شکوہ وومین کرکٹرز نے ایم ڈی پی سی بی وسیم احمدسے اُنکے کوئٹہ دورے کے موقع پر کیا تھا جس پر اُنہوں نے یقین دہانی کرائی تھی کے وہ بلوچستان کو الگ ذون کا درجہ دینے کی کوشش کریں گے لیکن اب تک کوئی پیش رفت نظر نہیں آئی۔

بلوچستان حکومت کے ترجمان لیاقت شاہوانی نے کہا کہ کوشش ہے کہ تمام سرکاری اسکولوں میں کھیلوں کی سرگرمیاں کروائیں جبکہ حکومت صوبے کے تمام اضلاع میں اسپورٹس کمپلیکس تعمیر کروا رہی ہے تاکہ ہر کھیل میں بلوچستان کے نوجوانوں کو ملکی سطح پر مین اسٹریم میں لایا جائے وزیر اعلیٰ جام کمال نے حال ہی میں بلوچستان سے تعلق رکھنے والے نامور باکسر وسیم احمدکے اعزاز میں تقریب رکھی تھی جب وہ دبئی سے فائٹ جیت کر آئے تھے اسی طرح مختلف کھیلوں کے مقابلوں میں حصہ لینے والے کھیلاڑیوں کی حوصلہ آفزائی بھی کی جاتی ہے اُنہوں نے کہا کہ پاکستان کرکٹ بورڈ کے سامنے صوبے کی وومین کرکٹرز کے مسائل ضرور اُٹھائیں گے اور وومین کرکٹرز کی آواز بنیں گے ڈپٹی اسپیکرقومی اسمبلی قاسم خان سوری نے بتایا کہ بلوچستان کے کرکٹرز کے مسائل پر اُنہوں نے گزشتہ ماہ پی سی بی کے چیئرمین احسان مانی سے ملاقات کی تھی اور اُنہیں بلوچستان کے مسائل سے ٓگاہ کیا تھا تاہم اب اگلی ملاقات میں پی سی بی کے چیئر مین سے بلوچستان کی وومین کرکٹرز کے مسائل پر بات کروں گا اُنہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان خود کرکٹر اورقومی ٹیم کے کپتان رہے ہیں پی سی بی کو بہتر کرنے میں عمران خان کی ذاتی دلچسپی ہے جہاں ضرورت محسوس ہوئی۔

وہاں وزیر اعظم عمران خان سے بھی بلوچستان کی کرکٹ کے بارے میں بات ہوگی دوسری جانب بلوچستان کی کھیلاڑیوں کو کراچی میں نظر انداز کرنے اور پی سی بی کی طرف سے سال میں صرف درجن بھر گیندیں بھیجنے کے حوالے سے پاکستان کرکٹ بورڈ کے میڈیا مینجرز سے بذریعہ ای میل رابطہ کیا گیا جس کے جواب میں پی سی بی کے ایک میڈیا مینجر ڈومیسٹک کرکٹ اینڈ ہائی پرفامنس عماد احمد حمید نے جواب میں کہا کہ اُنہوں نے متعلقہ آفیشلز کو ای میل بھیج دی ہے جسے ہی اُن کا جواب آئے گا وہ آگاہ کردیں گے لیکن اسٹوری پبلیش ہونے کے سات روز گزارنے کے باوجود پی سی بی کا جواب موصول نہ ہوسکا تھا۔