|

وقتِ اشاعت :   April 11 – 2020

ہم سب خواب ہی تو دیکھتے ہیں ان خوابوں کی تکمیل میں جھٹ جاتے ہیں کچھ خواب تکمیل پاتے ہیں تو بہت سارے ادھورے رہ جاتے ہیں۔ ان خوابوں کے آگے بند باندھے جاتے ہیں آدمی ان بندات کو توڑنے میں لگ جاتا ہے۔ آپ ایک بند توڑنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو ایک اور مضبوط بند آپ کے سامنے آن کھڑا ہوتا ہے۔ آپ مزاحمت کریں یا ہتھیار ڈال دیں یہ آپ ہی پر منحصر ہے۔

زندگی کے ابتدائی ایام میں جب سے ہوش میں خاکوں نے وارد ہونا شروع کیا،سالوں کا سفر بھی اس منظرنامے کو کبھی بدل نہیں پایا۔ مزاحمت کی جو گھنٹی کبھی اپنے اندر سے اٹھ جاتی تھی وقت کے ساتھ ساتھ پھر تھم جاتی تھی۔سوچ میں پڑ جاتا پھر سوچوں سے نکل آتا۔ یہ خاکہ تخلیق کرنے والے کون ہیں۔ ان خاکوں کو تخلیق کرنے کا بنیادی مقصد کیا ہے۔ اپنی نگاہوں کے سامنے کئی زندگیوں کو معمولی سی بیماری سے لڑتے ہوئے موت کو گلے لگاتے دیکھا، کیا انہیں جینا نہیں تھا،جیون کو چھیننے والے کون ہیں؟ خیالات انگھڑائی لیتے ہوئے نمودار ہو جایا کرتے تھے پھر مدفون ہوجایا کرتے۔ نگاہوں کے سامنے آج تک اس عکس کو ہٹا نہیں پایا جو درد سے بلبلاتا ہوا ہمیشہ کے لیے الوداع کہہ گیا تھا یہ عکس ہمیشہ سے سوال بن کر سامنے آجاتا ہے میں اسے جواب نہیں دے پاتا ہوں۔ 30سال قبل گاؤں جو تصویر لیے ذہن میں نمودار ہوا تھا۔

اب بھی اس کی شکل و شباہت میں کوئی تبدیلی نہیں سوائے چہروں کی تبدیلی کے۔ جو چہرے جوان تھے انہیں بڑھاپے نے آن گھیرا،جو بڑھاپے کی دہلیز تک پہنچ گئے تھے، ان کو موت نے اپنی بانہوں میں لے لیا۔ جو نووارد ہیں ان سے میں انجان۔ انجان سی کیفیت نے مجھے اس بار آن گھیرا۔ جب میں عیدِ بقر کو گزارنے گاؤں چلا آیا۔ ایک بار پھر سے کئی سوالوں نے سر اٹھانا شروع کیا۔ سوالوں سے جان چھڑانے کی کوشش کرتا تو پھر یہ میرے اردگرد گرش کرنے لگتے، میں ان سے چھپ جانے کی کوشش کرتا پھر بھی یہ مجھے گلے لگا لیتے۔ لاکھ کوشش کے باوجود ان سے اپنے آپ کو نہ چھڑا پایا۔

سوالات جو باری باری مجھ پر وارد ہونا شروع ہوئے۔چہرے ایک ایک کرکے میرے سامنے جمع ہونا شروع ہوئے۔ یہ تمام چہرے سوالات کے انبار لیے میرے سامنے کھڑے تھے،وہی سوالات جو بسا اوقات میرا پیچھا کرتے ہیں اور مجھے ماضی کے اوراق پلٹنے پر مجبور کرتے ہیں، وہ دن میں آج تک بھول نہیں پایا جب ماں نے مجھے نم آنکھوں سے الوداع کہا، جب میں حصولِ علم کے لیے پچاس کلومیٹر دور جا رہا تھا،ماں سے بچھڑ رہا تھا۔ جسے طے کرنے کے بعد بچھڑنے کی اذیت اپنے آپ سے تاحال چھڑا نہیں پایا۔ دل ہی دل میں سوال اٹھ جایا کرتا تھا کہ گاؤں تعلیمی نظام سے محروم کیوں۔

تعلیم سے محرومی نے اس بچے سے اس کا بچپن چھین لیا جسے وہ وقت اپنے گھر کے اندر رہ کر گزارنا تھا۔ وہ وہ تصوراتی لمحات مجھے آن گھیر لینا شروع ہوئے جب یہی چہرے سوالات کاا نبار لیے نگاہوں کے سامنے منڈلانے لگے۔ یہ سوال میں نے گاؤں کے سربراہ کے سامنے رکھا۔ جو باتوں کو سنی ان سنی کر دیا کرتا تھا۔ یہ سوالات تھے جو گاؤں میں ہوکر میرے اردگرد سراپا احتجاج تھے۔ انہی سوالات اور خیالات نے میرا پیچھا کوئٹہ تک نہیں چھوڑا۔ جب بھی سونے کی کوشش کرتا تو یہ میرا دروازہ دستک دینے آجاتے۔ اٹھ جاتا ان سے جان چھڑانے کی کوششوں میں لگ جاتا۔ لاکھ کوشش کے باوجود ان سے اپنے وجود کو نہ بچا پایا۔ اگلا دن تھا۔ میں تھا۔

ایک فون کال تھی اور مکالمے کا آغاز تھا۔ مکالمے کا آغاز ہم نے ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران مسعود حلیم سے کیا۔ جو اس سیٹ پر بیٹھ کر خدائی کا دعویٰ کر چلا تھا۔ ہم نے بھی تو زمین زاد ہو کر اس کے آگے جولی پھیلا کر مرادیں بر آنے کے خواستگار ہوئے۔ بذریعہ فون انہیں آمادہ کرنے کی کوشش کی کہ جناب گاؤں کا سکول تین سالوں سے بندش کا شکار ہے۔ بچوں کی زندگیاں برباد ہو رہی ہیں۔ اس وقت انہیں آپ ہی بچا سکتے ہیں۔

سکول کو آباد ہونے میں ایک ٹیچر مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔ٹیچر کی تعیناتی عمل میں لا کر 150بچے اور بچیوں کو زندگی دے سکتے ہیں جنہیں جان بوجھ کر تعلیم سے محروم رکھا جا رہا ہے۔ ہم مسلسل 20دن تک مسعود حلیم کا شاہی دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔وہ جھوٹ پہ جھوٹ بولتے رہے اور ہمیں ٹالتے رہے۔ مایوسی گنا ہ ہے۔ اسی جملے نے ہمیں مایوسی کے دلدل سے بچا لیا۔ کیا کرتے سوائے صبر و شکر کے۔ کسی ذریعے سے معلوم ہوا کہ جناب سرزمینِ کوئٹہ پر تشریف لا چکے ہیں۔

اب کے بار نہ ہی فون کالز اٹینڈ کیے اور نہ ہی پیغامات کا جواب دینا انہوں نے مناسب سمجھا۔ حق مانگنے سے نہیں چھیننے سے مل جاتا ہے۔ سو ہم مسعودحلیمی کے خدائی کو چیلنج کرنے کے لیے زمین پر اتر آئے تھے۔ اتر آنے سے پہلے اس کے ایک پیروکار کو ہم پیغام دے چکے تھے ”اپنے آقا سے کہنا کہ تیرے قدم زمین پر نہیں ہیں انہیں ہم نیچے لے آئیں گے“۔

*اْنیس دن کا طویل انتظار:*

آج میں مکمل طور پر ایک گہری سوچ میں پڑ گیاہوں کہ کیا جائے تو کیا کیا جائے۔ جن کو خدمت کے لیے ذمہ داریاں سونپی جاتی ہیں وہ تو خدا بن کر اپنا حکم چلانے لگتے ہیں۔ اپنے فیصلے مسلط کرتے ہیں۔ جبر اور خوف کا ایسا نظا م قائم کرتے ہیں جس کے تحت وہ اپنے خدائی کو ثابت کر سکیں۔ آواران میں ایسا کچھ ہوا تھا۔ قدوس بزنجو تیسری بار اقتدار حاصل کرکے اپنے حواریوں کو نوازنے میں مصروف عمل تھا ان میں ایک یہی ضلعی ایجوکیشن آفیسر آواران مسعود حلیم تھے۔

طاقت کے اس نظام میں بھلا عام آدمی کا مدعا کون سنے۔ آج 4 اکتوبر 2019 ہے اور ایک ماہ سے ضلعی ایجوکیشن کا دروازہ کھٹکھٹاتے کھٹکھٹاتے اب دوبارہ اس کے در نہ جانے کا فیصلہ کر چکا تھا۔ خیال آیا کہ کیوں نہ مشیرِ تعلیم سے ملا جائے۔ مگر ملنے سے قبل کوئی ایسا خاکہ ہو جو اسے پڑھنے میں آسانی فراہم کرے۔ سکول کا خاکہ تحریری اور تصویری شکل میں اپنے ہمراہ لیے سیکرٹریٹ کے اس بلاک پہنچے جہاں مشیر تعلیم کا دفتر ہوا کرتا ہے۔ ایک دوست کی توسط سے ان تک پہنچنے میں کامیابی ہوئی۔ حواریوں کی ایک بڑی تعداد پہلے سے مشیر صاحب کے اردگرد ڈیرے جمائے بیٹھے تھے۔

محمد خان لہڑی کی جانب سے پہلا سوال آیا کہ مدعا بیان کریں۔ میں نے مدعا جو تحریری شکل میں پہلے ہی لکھ ڈالا تھا۔ اسے پیش کیا۔ کہنے لگے کہ زبانی بیان کریں۔ زبانی انہیں سمجھا ہی رہا تھا کہ موصوف نے کہانی کو بن سمجھے یہ کہہ ڈالا کہ سی ٹی ایس پی کے ذریعے بھرتیاں ہو رہی ہیں اس سے پورے تعلیمی نظام کا مسئلہ حل ہو گا۔ میں نے کہا کہ حضور کہانی تو سنیں۔ کہانی کو مختصر کرکے سنا دیا تو موصوف نے کیس سیکرٹری ثانوی تعلیم کو سپرد کرنے کے لیے اسے حکم نامہ بھجوا ڈالا، مجھے یہ کہہ کر وہاں روانہ کر دیا کہ سیکرٹری صاحب آپ کا کام کریں گے۔ فائل اپنے سیکرٹری کو دے دیا۔ 19دن تک ہم سیکرٹری صاحب کا دروازہ کھٹکھٹاتے رہے۔

کبھی ہمیں بتایا جاتا کہ سیکرٹری کسی اہم اجلاس میں ہیں کل آئیے گا۔ کل گئے تو کہنے لگے کہ سیکرٹری صاحب باہر گئے ہیں اگلے روز آئیے گا۔ اسی اگلے روز نے ہمیں 19دن تک کا طویل انتظار کروایا۔ 19دن تک جب ملاقات نہیں ہو پائی تو ہم نے فائل ان سے واپس مانگی تو سیکرٹری کے سیکرٹری نے نحوست بھری شکل اپنا کردینے سے معذرت خواہانہ انداز اپنایا۔ تو میرے پاس ان کے کمرے سے باہر نکلنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ رہا، ہم وہاں سے نکل آئے۔ کہانی نے ایک نیا موڑ لینا تھا۔ ہم سوچ و بچار میں مصروف تھے کہ اب کیا کیا جائے۔ تو ذہن میں خیال آیا کہ کیوں نہ عدالت کادروازہ کھٹکھٹائیں۔

پھر خیال آیا کہ عدالت کمزوروں کے حق میں فیصلے کبھی نہیں دیتا چاہے وہ حق پر ہی کیوں نہ ہوں۔ پھر کیا کیا جائے۔ خیالوں نے گھیرنا شروع کیا۔ سوچتے سوچتے یہاں تک کہ شام ہو گئی تو اچانک خیال آیا کہ کیوں نہ سکول کا مقدمہ سوشل میڈیا اور میڈیا پر لڑی جائے۔ یوں ہم نے سوشل میڈیا پر ایک مہم کا آغاز کیا۔نام کے حوالے سے کافی سوچتے رہے۔ بالاخر ”بلوچستان ایجوکیشن سسٹم“ کا نام ذہن میں آیا۔

*مہم کا آغاز:*

23اکتوبر کی شام کو اس مہم کا آغاز ہم سکول کے تصویری خاکے سے کر چکے تھے۔ سوشل میڈیا پر اس کا صفحہ ہم بنا چکے تھے۔ پہلی خبر میڈیا پہ آگئی تھی۔ ”بلوچستان تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے جھوٹے، طلبا ء کا مستقبل داؤ پر۔آواران کی تحصیل جھاؤ عبدالستار گوٹھ کی پرائمری سکول 2016سے بند، انتظامیہ خاموش“۔ اس کے بعد سوشل میڈیا پہ مختلف عنوانات سے پوسٹوں کا سلسلہ شروع ہو گیاتھا۔ گاؤں کے بچے اور بچیوں کی تصویریں اور ڈیٹا جمع کرکے ان سے متعلق موضوعات کو سوشل میڈیا پر ڈالتے رہے۔ یہ ہماری مہم جوئی اور سوشل میڈیا کا مؤثر استعمال ہی تھا کہ محکمہ تعلیم کے ذمہ داران کو گھٹنے ٹیکنے پڑے۔

صوبائی ذمہ داران نے ضلعی ایجوکیشن آفیسر کی خبر لی۔ ضلعی ایجوکیشن آفیسر جو پہلے بہانے بناتا رہا۔ کوئٹہ سے ہی استاد کی تعیناتی کے حکم نامے جاری کرنے پر مجبور ہو گیا۔ گاؤں کی وہ استانی جو ایک اور سکول میں تعینات تھیں،اس کی تعیناتی کے احکامات جاری ہو گئے۔ یوں ہماری دو دن کی مہم رنگ لے آئی، ہم نہ صرف اسکول کھلوانے میں کامیاب رہے، خاتون ٹیچر کی تعیناتی سے سکول سے بوائز اور گرلز کے ٹیگ کا خاتمہ کرنے میں کامیاب ہوئے، تعلیمی نظام بحال ہوتے ہی گاؤں کے اندر خوشی کا سماں دیدنی تھا۔

تین سال بعد جب 100کے آس پاس بچے اور بچیوں کو سکول کے اندر داخل اور پررونق ہوتے ہوئے دیکھا تو آنکھوں سے خوشی کے آنسو جاری ہوئے۔ اور مہم کی اس پہلی کامیابی پر اپنے آپ کو مبارکباد دئیے چلا جا رہا تھا۔ہمارا سفر جاری تھا۔ ہمارا پیغام ذمہ داران تک پہنچ چکا تھا کہ ہماری مہم کا سلسلہ یہیں تک نہیں رکے گا بلکہ جاری رہے گا۔