|

وقتِ اشاعت :   April 24 – 2020

انسان معاشرتی حیوان ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو مال ودولت اور طاقت و اقتدار دینے کے ساتھ ساتھ ایک دوسرے کا ضرورت مند بھی بنایا ہے۔ انسان دنیا میں اکیلا زندگی نہیں گزار سکتا، چاہے وہ امیر ہے یا غریب زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر دوسرے انسان کی ضرورت پڑتی ہے۔ضرورت دو طرح سے پوری کی جاتی ہے ایک معاوضے کے بدلے میں سودا کیا جاتا ہے اور دوسرا بغیر معاوضے، بغیر سیلفی،اور بغیر مطلب و مقصد کے صرف اللہ کی رضا کے لیے حاجت مند کی حاجت پوری کی جاتی ہے،جس کو دوسرے لفظوں میں صدقہ و خیرات بھی کہا جاتا ہے۔جس صدقہ و خیرات میں نمود و نمائش اور مقصد و مطلب آ جائے تو وہ صدقہ اپنی روح کھو دیتا ہے۔صحابہ کرا م کی زندگی ہمارے لیے بہترین نمونہ ہے جو ہمہ وقت ایک دوسرے کی مدد کے لیے اپنی جان و مال قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتے تھے۔

ریاست مدینہ میں انصار و مہاجرین کے جذبہ ایثار و قربانی کی مثال ہمارے سامنے ہے کہ مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ جانے والوں کی مدد کر کے انصار نے ایثار و قربانی کی ایسی لازوال مثال قائم کی جس کی دوسری مثال تاریخ میں کہیں نہیں ملتی۔اِس وقت جس طرح کی ہمارے ملک کی صورتحال ہے ہمیں انصار کے اْس اْسوہ کو اپنانے کی ضرورت ہے جس کی مثال انہوں نے چودہ سو سال پہلے قائم کی تھی۔

حقیقی مدد و نصرت کرنے والی ذات اللہ تعالیٰ کی ذات ہے بندے صرف وسیلہ اور ذریعہ بنتے ہیں اور یہ رتبہ ہر شخص کو نہیں ملتا بلکہ وہی لوگ ایثار اور قربانی کی راہ پر چلتے ہیں جنہیں اللہ تعالیٰ توفیق عطا کرتا ہے۔مہاجرین جب بے سروسامانی کی حالت میں مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ تشریف لائے تو نہ تو پہلے سے ان کی رہائش کا انتطام تھا اور ہی نہ کھانے پینے کا انتظام،کیونکہ جس حالت میں مکہ سے نکلے نہ وہ اپنی جاگیریں مکہ میں بیچ سکے اور نہ ہی اپنے گھر کا پورا سامان اپنے ساتھ لے سکے لیکن جب مدینہ پہنچے تو جس جوش اور جذبے سے انصار نے مہاجرین کی مدد کی،ان کی بنیادی ضروریات کا خیال رکھا،ان کو اپنا مال و دولت اور ہر نعمت میں شریک کر کے یہ ثابت کر دیا کہ ایک فلاحی ریاست میں ایک با شعور شہری کے فرائض کیا ہوتے ہیں کس طرح ریاست کے داخلی استحکام کو مضبوط بنایا جا سکتا ہے۔

انصار نے یہ سب کچھ دکھاوے کے لیے نہیں کیا، نہ ہی مہاجرین کی عزت مجروح ہونے دی اور نہ ہی اس مدد کو مہاجرین پر احسان سمجھا بلکہ انہوں نے مدد صرف اور صرف اللہ کی رضا کے لیے کی اور پھر قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے گواہی دی کہ اللہ ان سے راضی ہو گیا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے:” اور مہاجرین اور ان کے مددگار (انصار) میں سے سبقت لے جانے والے،سب سے پہلے ایمان لانے والے اور درجہ احسان کے ساتھ ان کی پیروی کرنے والے،اللہ ان(سب) سے راضی ہو گیااور وہ (سب) اس سے راضی ہو گئے اور اس نے ان کے لیے جنتیں تیار کر رکھی ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہنے والے ہیں،یہی زبردست کامیابی ہے۔”(التوبہ 100)

جب اللہ تعالیٰ اپنی مخلوق سے راضی ہو جاتا ہے تو پھر وبا،مصیبتیں،مشکلیں اور پریشانیاں ختم ہو جاتی ہیں پھر اللہ تعالیٰ کی رحمتیں اور نعمتیں ہی نازل ہوتی ہیں۔اور اس عمل کو اللہ تعالیٰ نے زبردست کامیابی کہا ہے۔مواخات مدینہ ایک ایسی مضبوط اینٹ ثابت ہوئی جس نے ریاست مدینہ کی بنیاد کو داخلی طور پر مضبوط کر نے کے ساتھ ساتھ اقتصادی بحران کا خاتمہ کر دیا۔مہاجرین اپنے پاؤں پر کھڑے ہو گئے پھر انصار و مہاجرین ایک مضبوط طاقت بن کر دنیا میں پھیل گئے۔


پاکستانی قوم نے ہر مشکل گھڑی میں اپنے مظلوم،غریب اور حاجتمند بھائیوں کی مدد کی، چاہے زلزلہ ہو یا سیلاب، آفت ہویا مصیبت اپنے متاثر بھائیوں کے شانہ سے شانہ ملا کر کھڑے رہے اور ایک قوم ہونے کا ثبوت دیا۔اس مصیبت کی گھڑی میں بھی ہم نے جذبہ ایثار و قربانی کی تاریخ رقم کرنی ہو گی اور آنے والی نسلوں کو یہ سبق دینا ہو گا کہ قوم پر جب بھی کوئی مصیبت آئی تو پوری قوم نے ایک ہو کر اس کا مقابلہ کیا اور یہ ثابت کیا کہ ہم ایک قوم ہیں۔اس وقت ہماری عوام اور ملک جس معاشی بد حالی کا شکار ہے اگر اس وقت انصار کے جذبہ ایثاروقربانی اور سخاوت کو زندہ نہ کیا گیا،انسانیت کا درد اپنے دلوں میں نہ پیدا کیا گیا،اپنے ضرورتمند مسلمان بھائیوں کو اپنے حقیقی بھائیوں کی طرح نہ سمجھا گیا،یتیم،بیوہ اور بے سہاروں کی آہوں کو نہ سنا گیا،ان کے لیے اپنے جان و مال کی قربانیاں نہ دی گئی تو انتظار کریں مزید وباؤں اور مصیبتوں کا۔

غریب،مزدور دو وقت کی روٹی کے لیے عوام کی مدد کے طلبگار ہیں اسی آس پر گھروں میں محصور ہو کر بیٹھے ہیں کہ کوئی فرشتہ صفت انسان آئے گا اور ہماری مدد کرے گا۔بہت سے سفید پوش انسان خاموشی سے امداد کے منتظر ہیں۔اور ہم نے طریقہ امداد کو سیلفی سیشن بنا کے غریب کو مرنے سے بچایا کہ نہیں بچایا لیکن ان کی عزت کا جنازہ نکال دیا،عزت جان سے پیاری ہوتی ہے خدا کے لیے لوگوں کی عزتوں کا بھی خیال رکھیں اپنی واہ واہ کیلئے غریبوں کی عزتوں کو مٹی میں نہ ملائیں۔اگر دوسرے لوگوں کو ترغیب دینیکی نیت سے فوٹو بنانا مقصود ہو تو تب بھی حتی المقدور کوشش کریں کہ کسی کا چہرہ سامنے نہ آئے۔

امام زین العابدین کی مثال ہمارے سامنے ہے آپ طبیعت کے بہت سخی تھے اپنی زندگی میں بہت سے غریب گھرانوں کی کفالت کرتے رہے لیکن ان غریبوں کو کبھی پتا نہیں چلا کہ ان کی مدد کرنے والا کون ہے پتا تب چلا جب آپ کے وصال کے بعد آپ کی پیٹھ پر بوریاں اٹھانے کے نشان نظر آئے۔اب ضرورت ہے انسانیت دوست اور مخلوق خدا کا درد رکھنے والے صاحب استطاعت لوگوں کی، رضا کاروں کی، اور فلاحی اداروں کی، جو خرچ کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں جو اپنے آپ کو انسانیت کا ہمدرد سمجھتے ہیں۔وہ انسانیت کو بچانے کے لیے اٹھیں اور اس طرح سے لوگوں کی ضرورت کو پورا کریں کہ غریبوں کی عزت بھی محفوظ رہے اور ان کی ضرورت بھی پوری ہو جائے۔