|

وقتِ اشاعت :   July 21 – 2020

سپریم کورٹ نے پاکستان مسلم لیگ نواز کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور خواجہ سلمان رفیق کی ضمانت کے تفصیلی فیصلہ میں کہا ہے کہ پاکستان میں جمہوری اقدار،احترام، برداشت، شفافیت اورمساوات کے اصولوں کا مذاق اڑایا جارہا ہے۔ عدم برداشت، اقرباپروری، جھوٹے دھونس، خودنمائی ترجیحات بن چکی ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے 87 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس مقبول باقر نے تحریر کیا ہے۔ جسٹس مقبول باقر نے فیصلے کے آخر میں حبیب جالب کے شعر کا حوالہ بھی دیا کہ ظلم رہے اور امن بھی ہو، کیا ممکن ہے تم ہی کہو؟۔سپریم کورٹ نے تحریری فیصلے میں کہا ہے کہ آج بھی پاکستان کے عوام کوآئین میں دیئے گئے حقوق نہیں مل رہے۔ ہماری نجات آزادی اظہار رائے میں ہے۔ جب تک ہم جمہوری اقدار کا کلچر پیدا نہیں کرتے امن کا قیام خواب ہی رہے گا۔

اعلیٰ عدلیہ نے تحریری فیصلے میں کہا کہ جب تک ہم جمہوریت اور آزادی کی قدر نہیں کرتے اقوام عالم میں اپنا مقام حاصل نہیں کرسکتے۔ آئینی عدالتیں آئین پاکستان کے تحفظ کی ضامن ہیں۔تحریری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عدالت نے ایگزیکٹو اور پبلک اتھارٹی کے اختیارات اور اعمال کا جائزہ لیا۔ حکام یہ بات ذہن میں رکھیں کہ آئین پاکستان عوامی حقوق کا بھی ضامن ہے۔ پاکستان بنے72 سال اور آئین پاکستان کو بنے ہوئے 47 سال ہوچکے ہیں۔عدالتی فیصلے میں کہا گیا کہ کرپشن پاکستانی معاشرے میں مکمل طورپر رچ بس چکی ہے۔

انا پرستی اور خود کو ٹھیک کہنا معاشرے میں جڑپکڑچکی ہے۔واضح رہے کہ 17 مارچ کو سپریم کورٹ نے مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کی ضمانت منظور کر لی تھی۔خواجہ برادران کے وکیل امجد پرویز نے مؤقف اختیار کیا کہ ہم نے کبھی دستاویزات فراہم کرنے سے انکار نہیں کیا جبکہ 6 ماہ کی گرفتاری کے بعد ریفرنس فائل کیا گیا۔ خواجہ برداران کبھی بھی نیب کی طلبی پر غیر حاضر نہیں ہوئے۔سپریم کورٹ کے فیصلے میں جس طرح اظہار رائے کے حوالے سے کہاگیا ہے اس میں کوئی دوہرائے نہیں کہ اظہار رائے کی آزادی کسی بھی جگہ دکھائی نہیں دیتی بلکہ عدم برداشت کا یہ عالم ہے کہ جمہوری نظام اور مہذب معاشرے کی مثالیں دیتے ہوئے نہ تھکنے والی بڑی سیاسی جماعتیں تنقیدی عمل کو کسی صورت برداشت نہیں کرتے۔

کسی ایک دور حکومت کی مثال نہیں ملتی جس نے میڈیا کی آزادی اظہار رائے پر قدغن نہ لگائی ہو بلکہ ہر طرح کے حربے استعمال کرتے ہوئے میڈیا کا گلا گھونٹا گیا اور میڈیا ہاؤسز کو اس قدر مجبور کیا گیا کہ وہ بندش کی جانب چلے گئے۔چونکہ حکمرانوں کا پہلا ہتھیار اشتہارات کی بندش ہے جس سے میڈیا ہاؤسز چلتے ہیں سرکاری وغیر سرکاری اشتہارات کی مکمل بندش لگائی جاتی ہے تاکہ میڈیا ہاؤسز مالی حوالے سے دیوالیہ ہوجائیں اور مجبوراََ گھٹنے ٹیک دیں اور حکمرانوں کی غلط اور ناقص پالیسیوں پر تنقید کی بجائے تعریفوں کے پل باندھیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارا معاشرہ آج ایک بند گلی میں داخل ہوچکا ہے۔

جب تک اظہار رائے کی مکمل آزادی نہیں ملتی نہ تو طرز حکمرانی ٹھیک ہوسکتی اور نہ ہی عوام حقائق سے باخبر رہ سکتی ہے اس لئے یہ سوچنا خود سیاسی جماعتوں کا کام ہے کہ انہیں معاشرے کو کس طرف لے کر جاناہے۔ اگر اظہا ررائے کی آزادی کے حوالے سے رویوں میں تبدیلی نہیں آئے گی تو اس میں سب سے بڑا خسارہ خود سیاسی جماعتوں کا ہی ہوگا اور جمہوری نظام مزید کمزور ہوکر دم توڑ دے گا۔