|

وقتِ اشاعت :   July 31 – 2020

وزیر اعظم عمران خان نے کہا ہے کہ اپوزیشن این آر او مانگ رہی ہے جو کسی صورت نہیں دیں گے اور کسی قسم کی بلیک میلنگ میں نہیں آئیں گے۔پارلیمانی پارٹی کے اجلاس سے خطاب کے دوران وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن سیکیورٹی کونسل اور انسداد دہشت گردی ترمیمی بلزکی منظوری میں ساتھ نہ بھی دیتی تو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کروالیتے۔وزیراعظم کا کہنا تھا کہ فنانشل ایکشن ٹاسک فورس سے متعلق قانون سازی پاکستان کیلئے ضروری ہے، ہم ماضی کی خرابیوں کو درست کررہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ قومی مفاد میں ہونے والی قانون سازی میں اپوزیشن کو حمایت کرنی چاہیے۔

اپوزیشن نے ملکی مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح نہ دی تو بے نقاب ہوگی۔وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ ملکی مفاد میں ہونے والی قانون سازی کے بدلے اپوزیشن کو این آر او نہیں دے سکتے۔واضح رہے کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی نے اپوزیشن کی ترامیم شامل کرنے کے بعد اقوام متحدہ سیکیورٹی کونسل اور انسداد دہشت گردی ترمیمی بلز کی منظوری دے دی ہے۔جمعیت علمائے اسلام (جے یو آئی) نے سینیٹ میں پیش کیے جانے والے اقوام متحدہ سلامتی کونسل انسداد دہشت گردی ترمیمی ایکٹ بل کی مخالفت کی ہے۔جے یو آئی کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمان نے سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ جمعیت علمائے اسلام کے مؤقف کو کیوں سنا نہیں جاتا۔

کیا ہم ملک و قوم کے دشمن ہیں۔انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے ترامیم لاکر حکومت کو راستہ دینا اپوزیشن کی کمزوری ہے، دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں سے گلہ ہے،دونوں بڑی اپوزیشن جماعتوں نے اپوزیشن کا ساتھ نہیں دیا اور حکومت کی حمایت کی۔جمعیت کے اس شکوہ کے بعد تو کوئی ابہام نہیں رہ جاتا کہ اپوزیشن کے متحد ہونے کے دعوے کا شیرازہ بکھر چکا ہے کہ اپوزیشن کی دو بڑی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن اس وقت اپنے مفادات کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں البتہ بلاول بھٹو زرداری کے حالیہ شعلہ بیان پریس کانفرنس اور حکومت پر چھبتی تنقید اس وقت بے اثر ہوئی جب مسلم لیگ ن کے رہنماء شہباز شریف کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران بلاول بھٹو زرداری نے میڈیا سے بات چیت کے دوران شہباز شریف کے کندھوں پر اپوزیشن کی قیادت کا ذکر کیا۔

تو اسی دوران تسلی کے ساتھ شہباز شریف نے بلاول بھٹوزرداری کی گفتگومیں مداخلت کرتے ہوئے ان کا پیٹھ تپ تپاتے ہوئے کہاکہ اب یہ ذمہ داری نوجوان قیادت کرے گی۔ اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ دونوں بڑی جماعتیں اس وقت اپنے سیاسی پتے کھیل رہی ہیں اور بعض معاملات پر ریلیف لینے کے حوالے سے بیک ڈور بات چیت بھی چل رہی ہے جس طرح نیب قوانین کا ذکر پہلے بھی کیا جاچکا ہے اور مسلم لیگ ن نے اس دورانیہ میں بڑا خمیازہ بھی بھگتا ہے خاص کر نواز شریف کی جلاوطنی اور شریف برادران کا کاروبار بھی بری طرح متاثر ہوکر رہ گیا ہے۔

اس لئے وہ فرنٹ لائن پر آنے کی بجائے بعض معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرتے ہوئے خاموشی سے حکومت کا ساتھ دے رہی ہے، اسی طرح پیپلزپارٹی بھی سابق صدر آصف علی زرداری سمیت دیگر رہنماؤں کو ریلیف پر معاملات کو آگے بڑھا رہی ہے اس لئے جمعیت علمائے اسلام کو ماضی کے دھرنے کاجائزہ لینا ہوگا کہ اپوزیشن قائدین ان کے ساتھ کس حد تک تھے، بہرحال یہ کہاجاسکتا ہے کہ فی الوقت حکومت کیلئے کوئی بڑا خطرہ موجود نہیں مگر اتنی بے فکری کے ساتھ وزیراعظم کے بیانات شاید آگے چل کر ان کیلئے مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔بہرحال اپوزیشن کسی بڑے اشارہ کی منتظر ہے جسے گرین سگنل نہیں مل رہا تو معاملات افہام تفہیم سے حل کرنے کی گارنٹی موجود ہے۔