|

وقتِ اشاعت :   August 5 – 2020

بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی بندش اور آن لائن کلاسز سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے چونکہ بلوچستان ملک کا وسیع تر صوبہ ہونے کے باوجود سہولیات کے حوالے سے انتہائی پیچھے ہے،خاص کر ٹیکنالوجی کی بات کی جائے تو آدھے سے زیادہ صوبے کے علاقوں میں فون سروس تک میسر نہیں،انٹرنیٹ کاتوسوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ بدقسمتی تو یہ ہے کہ بلوچستان کے اکثر علاقوں میں بجلی کا نظام تک نہیں ہے اور جہاں بجلی فراہم کی جارہی ہے تو وہاں پر بجلی کی فراہمی کادورانیہ انتہائی کم ہے،آئے روز طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف شہری سراپا احتجاج دکھائی دیتے ہیں۔

حال ہی میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی جانب سے آن لائن کلاسز کا فیصلہ کیا گیا تو سب سے زیادہ ردِ عمل بلوچستان کے طلباء وطالبات کی طرف سے آیا اور یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، ستر سال سے زائد عرصہ کے دوران بلوچستان میں انفراسٹرکچر کی تعمیرپر کوئی توجہ نہیں دی گئی چند ایک بڑے شہروں کے علاوہ دیگر مرکزی شہر وں کو ڈویلپ نہیں کیا گیا، اس تمام عمل کا ذمہ دار کس کوٹھہرایاجائے،صوبائی حکمران ہر وقت وفاقی حکومتوں کو بلوچستان کی پسماندگی کا ذمہ دار گردانتے ہیں جبکہ یہ بھی ایک مسلمہ حقیقت ہے۔

کہ ایم پی اے فنڈز کی مد میں کروڑوں روپے ملنے کے باوجود مقامی نمائندگان کے علاقے آج بھی بنیادی سہولیات سے محروم ہیں، لہٰذا دونوں اطراف کی غلطیاں یا پھر کرپشن کودیکھنا ہوگا، نظرانداز کے مسئلہ پر سوالات الگ پہلو ہے مگر بلوچستان کے نام پر ملنے والی خطیر رقم کا حساب آج تک کوئی نہیں دے سکا جبکہ بلوچستان میں آج بھی میگا منصوبے چل رہے ہیں جو اچھی خاصی آمدنی دے ر ہے ہیں جن علاقوں میں یہ منصوبے موجود ہیں وہاں کے لوگوں کی زندگی میں بھی کوئی خاص تبدیلی نہیں آئی،روزگار تک لوگوں میسر نہیں،تعلیم اور صحت پر بہت سارے سوالات موجود ہیں۔

بہرحال اس وقت تعلیمی اداروں کی بندش ایک بڑا مسئلہ ہے گزشتہ روز پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن نے پرائیویٹ اسکولوں کی بندش کے حوالے سے کہا کہ بلوچستان کے ونٹر زون کے اسکول دسمبر جبکہ سمر زون کے اسکول مارچ سے بند ہیں،وفاقی وزیر تعلیم سے اپیل کرتے ہیں کہ 15 اگست سے اسکولز کھولنے کا اعلان کریں،حکومت ہٹ دھرمی چھوڑے اور بچوں کا قیمتی وقت بچائے،اسکول بند ہونے سے سینکڑوں ادارے بند ہوچکے ہیں،اسکول مالکان اور اساتذہ نان شبینہ کے محتاج ہوگئے ہیں،اسلام آباد میں قومی کانفرنس میں 15 اگست سے اسکول کھولنے کا فیصلہ کیا گیا۔

ہم بلوچستان بھر میں 15 اگست سے اسکول کھول دیں گے،انتظامیہ اسکول کھولنے میں رکاوٹ بنی تو شدید احتجاج کیا جائے گا۔ دوسری جانب پرائیویٹ اسکولز ایکشن کمیٹی کی جانب سے اسکول کھولنے کے اعلان کو وزیرتعلیم سردار یارمحمد رند نے افسوسناک قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں صوبے کے بچوں کی زندگیاں عزیز ہیں اس لئے اسکول بندکئے گئے ہیں،5 اگست کو وزرا ء تعلیم کانفرنس میں صوبے کا مؤقف ان کے سامنے رکھونگا،ہماری کوشش ہے کہ جلد تعلیمی ادارے کھولنے پر سب کو قائل کر سکیں۔

پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے محکمہ تعلیم کے آفیسران اور والدین سے تجاویز لاؤنگا۔بہرحال بلوچستان کے پرائیویٹ اسکولز کے اساتذہ اور اداروں کو مالی حوالے سے نقصانات تو اٹھانے پڑرہے ہیں اسی طرح دیگر صوبوں کے اندر بھی یہ مسئلہ موجو د ہے مگر وہاں پر آن لائن کلاسز کے ذریعے تعلیمی سرگرمیاں کسی حد تک بحال ہیں مگر بلوچستان میں مسئلہ وہیں آکر رک جاتا ہے کہ فون اور انٹرنیٹ کی سہولت نہ ہونے کی وجہ سے یہ انتہائی مشکل ہے۔لہٰذا کورونا وائرس کی وجہ سے بچوں کی زندگیوں کو داؤ پرنہ لگائیں، مگر بنیادی مسائل کو حل کرنے سے آنکھیں بھی چرائے نہیں جاسکتے لہٰذااس اہم مسئلے پر خاص توجہ صوبائی اور وفاقی حکومت دے تاکہ اس طرح کے بحران کی وجہ سے بلوچستان مزید مسائل کا شکار نہ ہو۔