|

وقتِ اشاعت :   August 11 – 2020

سپریم کورٹ نے کراچی کو بجلی فراہم کرنے والے ادارے کے الیکٹرک کے سی ای او سمیت ذمہ دار انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دے دیا۔چیف جسٹس نے سی ای او کے الیکٹرک، ذمہ دار انتظامیہ کے خلاف مقدمہ درج کرنے اور نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ(ای سی ایل) میں ڈالنے کا حکم بھی دیا۔عدالت نے کرنٹ لگنے سے اموات پر مقدمات درج کرنے کا حکم دیا۔ چیف جسٹس نے کہا شہر میں بجلی کا بحران بدترین ہوگیا ہے، گھنٹوں گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ کی جارہی ہے۔چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کراچی میں آٹھ دس لوگ روز مر رہے ہیں۔

نیپرا کچھ نہیں کر رہی، سب نے چوڑیاں پہنی ہیں کیونکہ سب نے پیسہ کھایا ہے۔چیف جسٹس نے اداروں کی ناقص کارکردگی پر اظہار برہمی کرتے ہوئے کہا کہ میئر کراچی کے پاس اختیارنہیں ہے تو گھر بیٹھیں۔ لگتا ہے صوبائی اور لوکل گورنمنٹ کی کراچی سے دشمنی ہے۔عدالت کا کہنا تھا کہ آپ لوگوں نے شہر کا حلیہ بگاڑ دیا ہے۔ کوئی کراچی کے معاملے پر سنجیدہ نہیں۔ کراچی کی صورتحال کا کون ذمہ دار ہے؟ بچے گٹر کے پانی میں روز ڈوب رہے ہیں عدالت نے ہل پارک پر قائم تجاوزات کو فوری طور پر ختم کرنے کا حکم دیا اور تجاوزات کے خاتمے کے بعد کمشنر کراچی کو 4 ہفتوں میں رپورٹ جمع کرانے کی ہدایت کی۔چیف جسٹس گلزار احمد نے ریمارکس دئیے کہ ہل پارک پر کوئی سوسائٹی نہیں ہے۔

وکیل خواجہ نوید نے عدالت کو بتایا کہ کمشنر کراچی نے خود دورہ کیا ہے وہاں 13 گھر ہیں۔معزز جج نے استفسار کیا کہ کیا وہ ماسٹر پلان میں ہیں؟ کمشنر کراچی نے بتایا کہ وہ 13گھر ماسٹر پلان میں نہیں ہیں۔سپریم کورٹ کی جانب سے ایک اچھا اقدام اٹھایا گیا ہے شاید اب کچھ بہتری آنے کا امکان پیدا ہوسکے۔ بدقسمتی سے پورے ملک میں سب سے زیادہ ریونیودینے والے شہر کی حالت انتہائی خراب ہے بارش کے بعد سیوریج کا نظام درہم برہم ہوجاتا ہے، نالیوں اور گٹر کا پانی کئی روز تک شاہراہوں پر کھڑی رہتی ہے جس کی وجہ سے شہریوں کو سفر کے دوران شدید مشکلات کا سامنا کرناپڑتا ہے مگر المیہ یہ ہے کہ تمام سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کو موردالزام ٹہراتی ہیں کوئی ذمہ داری لینے کو تیار نہیں۔

بجلی کی لوڈشیڈنگ کا کوئی دورانیہ ہی نہیں ہوتا، ایسے علاقے بھی ہیں جہاں پر کئی روز تک بجلی ہوتی ہی نہیں شدید گرمی میں لوگ اذیت میں مبتلا ہوجاتے ہیں، بوسیدہ تاریں لٹکتی دکھائی دیتی ہیں جبکہ پی ایم ٹی پر اتنے کنڈے لگائے جاتے ہیں کہ وہ وولٹیج کو سپورٹ نہیں کرتا۔ یہ سب کچھ کے الیکٹرک کے ناک کے نیچے ہورہا ہے مگر مجال ہے کہ کوئی کارروائی کرے، عوام بجلی نہ ملنے کی وجہ سے کنڈا لگانے پر مجبور ہوجاتے ہیں،بلز کی ادائیگی کے باوجود انہیں بجلی کی سہولت فراہم نہیں کی جاتی، کراچی جو روشنیوں کا شہر کہلایا کرتا تھا اب اس قدر اندھیرے میں ڈوب گیا ہے کہ لوگ بھی بھول گئے ہیں کہ یہ شہر کسی زمانے میں روشنیوں کا شہر تھا۔ کراچی کو کبھی وفاق کے حوالے کرنے کی بات کی جاتی ہے تو کبھی فنڈز اور اختیارات کا مسئلہ کھڑا کردیا جاتا ہے۔

بہرحال کوئی بھی سیاسی جماعت جو کراچی سے عرصہ دراز سے جیتی آرہی ہے یہاں سندھ میں حکومت کرتی اور اس حصہ کا بنتی آئی ہے اس میں کوئی بھی بری الذمہ نہیں، سب اس تباہی کے ذمہ دارہیں جب تک کراچی کے مسائل پر سیاست کم اور ان کے حل پر سنجیدگی کے ساتھ توجہ نہیں دی جائے گی تو حالت اسی طرح خراب سے خراب تر ہوتی جائیگی لہٰذا سیاسی جماعتیں اور خاص کر حکومتی جماعتیں خوداپنے مینڈیٹ کا احترام کرتے ہوئے کراچی کے شہریوں کے مسائل ہنگامی بنیادوں پر حل کرنے کیلئے اقدامات اٹھائیں بجائے اس کے کہ سیاست کے ذریعے ایک دوسرے پر الزام تراشی کرکے مسائل سے بھاگنے کی کوشش کریں۔