|

وقتِ اشاعت :   September 11 – 2020

اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی سینیٹر اورنگزیب اورکزئی کی جانب سے سرکاری زمین قبضے سے متعلق کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا۔سینیٹر اورنگزیب اورکزئی کی جانب سے سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق کیس کی سماعت اسلام آباد ہائیکورٹ میں ہوئی۔شہری امجد عباسی کی جانب سے سرکاری زمین پر قبضے سے متعلق کیس میں عدالت نے معاملہ نیب کو بھجوانے کا عندیہ دیا۔جسٹس محسن اختر کیانی نے سرکاری زمین پر قبضہ کرنے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے ریمارکس دئیے کہ ایک سینیٹر کو پوری پہاڑی پر قبضہ کروا دیا گیا جیسے بادشاہ رہ رہا ہے۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ کوئی سرکاری زمین پر ذاتی سڑکیں، کوئی کلب اور سوئمنگ پول بنا رہا ہے، شکر ہے غیر قانونی منصوبوں کا وزیراعظم سے افتتاح نہیں کروایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اوپر سے فون آجائے تو ضروری نہیں آپ نے وہ کام ہر صورت کرنا ہے، سرکاری زمین پر ذاتی باڑ ایسے لگا لیتے ہیں جیسے یہ انڈیا پاکستان کی سرحدبن گئی ہے۔جسٹس محسن اختر نے ریمارکس دئیے کہ چیئرمین سینیٹ کو کیس بھیج دیتے ہیں، پارلیمنٹ بھی تو دیکھے ان کے ارکان کر کیا رہے ہیں۔ان کا کہنا تھا کہ اس ملک کو امراء لوٹ کر کھا گئے اور سرکاری ادارے ان کے سہولت کار بنے رہے۔

جسٹس محسن اختر نے کہا کہ لوگ پہاڑیاں تک اپنے کھاتے میں ڈال گئے، سرکاری زمینوں پر ذاتی سڑکیں بنائی جا رہی ہیں۔انہوں نے سی ڈی اے حکام سے استفسار کیا کہ کیا بنی گالہ کے سارے گھر غیرقانونی اور گرائے جانے کے قابل نہیں ہیں؟سی ڈی اے کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات کا معاملہ سپریم کورٹ میں زیرسماعت ہے، جس پر جسٹس محسن اختر نے کہا کہ سپریم کورٹ کو آپ نے یہ نہیں بتایا کہ آپ ہزار کنال زمین ایک سینیٹر کو الاٹ کر چکے ہیں؟جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دئیے کہ سینیٹر، چیئرمین سی ڈی اے اور ایم سی آئی کے خلاف یہ سیدھا سیدھا نیب کا کیس بنتا ہے۔

ادارے سرکاری زمین کے محافظ ہوتے ہیں، یہ ان کی ذاتی جاگیر نہیں ہوتی۔اعلیٰ عدلیہ کے ججز کے ریمارکس اس بات کو واضح کرتے ہیں کہ ہمارے یہاں پورا نظام کرپشن پر کھڑا اور اس کے پیچھے سرکاری آفیسران کی ملی بھگت شامل ہے۔ایسے بے شمار مقامات ہونگے جن پر بااثر افراد نے سرکاری آفیسران کے ساتھ ملکر قبضہ کیا ہے مگر بدقسمتی سے وہ رپورٹ نہیں ہوتے، اگر عام شہری اس حوالے سے شکایت کرے تو اس کی جان خطرہ میں پڑ جاتی ہے اس لئے چپ سادھ لی جاتی ہے چونکہ بااثر افراد اپنی طاقت اور دولت کے زورپر نہ صرف کیسز سے بچ جاتے ہیں۔

بلکہ عام لوگوں پر دباؤ ڈالنے کیلئے کسی حد تک بھی جاسکتے ہیں۔مگر یہ کرپشن کا نظام کب تک اسی طرح چلتا رہے گا اور اسے ختم کرنے کیلئے محض عدلیہ ہی کو کارروائی کرنی پڑے گی افسوس کا عالم ہے کہ عوام اس اعتماد کے ساتھ سیاستدانوں کوووٹ دیکر مرکز اور صوبے کے ایوانوں تک پہنچاتی ہے کہ وہ ان کے مفادات کا تحفظ کریں گے اور ملک کے وسیع ترمفاد میں بہتر انداز میں قانون سازی کرتے ہوئے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کریں گے۔ آج ملک کے بیشتر علاقے بنیادی سہولیات سے محروم ہیں صحت، تعلیم، سڑکیں، پل بناکر شہروں کی حالت کو تبدیل کرینگے۔

جبکہ سرکاری اراضیوں پر عوام کیلئے بہتر سے بہترمنصوبہ بنائے جائینگے تاکہ شہری اس سے استفادہ کریں مگر المیہ یہ ہے کہ سرکاری اراضی کو ذاتی ملکیت سمجھ کر اس پر قبضہ کرلیاجاتا ہے اور سرکاری آفیسران کے ساتھ ملکر تمام دستاویزات اپنے نام کرلیے جاتے ہیں پھر وہاں پر کمرشل پلازہ، شاپنگ پلازہ، ریسٹورنٹ یا ذاتی رہائش، فارم ہاؤس تعمیر کئے جاتے ہیں۔بہرحال سپریم کورٹ کو اس جانب توجہ ضرور دینی چاہئے کہ جتنے بھی باا ثر افراد کیوں نہ ہوں، ان کیخلاف نوٹس لینا چاہئے اور عام شہریوں کی شکایات کو سننے کے ساتھ ساتھ ان کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے بھی اقدامات اٹھائے جائیں تاکہ اس روایت کو ختم کیاجائے اور ملک میں کسی حد تک کرپشن کم ہوسکے۔