|

وقتِ اشاعت :   October 4 – 2020

قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ برائے آبی وسائل کے اجلاس میں جو کہ چئیرمین نواب محمد یوسف تالپور کی صدارت میں اسلام آبادمیں منعقد ہوا جس میں دیامیر بھاشاڈیم کی تعمیر سے متعلق صورت حال کا جائزہ لیتے ہوئے حکام نے یقین دہانی کرائی کہ گلگت بلتستان کے رہائشی لوگوں کو دیامیر بھاشا ڈیم کے لئے ترجیحی بنیادوں پر بھرتی کیاجائے گا۔ یہ خبر پڑھ کر میرے ذہن میں یہ خیال آیا کہ میں نے اپنی زندگی میں کبھی بھی کسی سرکاری اہلکار یا حکومتی عہدیدار کی جانب سے آج تک کوئی اعلان کرتے یا کہتے نہیں سنا کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو ملک کی 74%طویل سڑکیں رکھنے والے صوبے کو اہمیت دیتے ہوئے۔

نیشنل ہائی ویز میں، ملک کے طول و عرض کو گیس کی سہولت دینے پر بلوچستان خصوصاً سوئی ڈیرہ بگٹی کے نوجوانوں کو گیس کمپنیز میں ترجیح بنیادوں پر ملازمتیں دی جائیں گی۔آج اگر ان دو بڑے محکموں کے ساتھ ساتھ ملک کے دیگر وفاقی محکموں میں بلوچستان کے ملازمتوں کے کوٹہ پر نظر ڈالی جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ او ل تو بلوچستان کے کوٹہ پر بلوچستانیوں کو ملازمتیں نہیں ملتیں اگر کسی کو ملازمت ملتی ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ یہاں پر جعلی ڈومیسائل بنانے والے پنجاب‘ خیبر پختونخوا یا سندھ سے تعلق رکھنے والے کو ہی ملازمت دے کر غذات کا پیٹ بھرا جاتا ہے کہ بلوچستان کے نوجوانوں کو کوٹہ کے مطابق ملازمتیں دی جارہی ہیں۔

وفاق میں موجود بیورو کریٹس یہ جھوٹ تواتر کے ساتھ بولتے چلے آرہے ہیں، جب کبھی اعلیٰ سطحی اجلاس میں تفصیلات دی جاتی ہیں تو بات مزید واضح ہوجاتی ہے کہ بلوچستان ہاؤس اسلام آباد‘ واپڈا‘ قومی اسمبلی‘ سینٹ آف پاکستان‘ ریلوے آئل اینڈ گیس کمپنی‘ سوئی گیس کمپنی ڈیرہ بگٹی‘ اندرون ملک سرکاری محکموں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سفارتخانوں میں بھی جعلی ڈومیسائل کی بنیاد پر بلوچستان کے کوٹہ پردیگر تین صوبوں کے نوجوانوں کو ملازمتیں دی جا چکی ہیں۔

یہ ملازمتیں چند سو نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ہیں، ان غیر بلوچستانیوں کے ساتھ کس طرح ہمدردی برتی جاتی ہے کہ قومی اسمبلی میں چند سال قبل نیازی نام کے ایک ڈپٹی سیکرٹری کے بیٹے کو بلوچستان کے جعلی ڈومیسائل پر ملازمت دی گئی جبکہ اس کے والد محترم پنجاب کے ڈومیسائل پر بطور ڈپٹی سیکرٹری قومی اسمبلی تعینات تھے یعنی والد محترم پنجاب اور صاحبزادہ بلوچستان کا رہائشی بتا یاگیا اس پر تو اس ڈپٹی سیکرٹری کے خلاف سخت محکمانہ کارروائی کرتے ہوئے ایف آئی آر درج کی جانی چائیے تھی لیکن ایف آئی آر تو درج کرانا دور کی بات،یہاں کی ملازمتیں مامے، بھانجے بھتیجے‘ چچا کی بنیادوں پر اپنے اپنوں میں بانٹ دی جاتی ہیں۔

شکایت کون کرے گا۔اس طرح کی جعلی تعیناتیوں کی چھان بین کرائی جائے تو ہزاروں کی تعداد میں جعلی تعیناتیاں سامنے آہیں گی لیکن سینٹ اور قومی اسمبلی میں بلوچستان کے اراکین جب اس پر آواز بلند کرتے ہیں تو ان کی کوئی سنی نہیں جاتی، سنی ان سنی کرکے معاملہ دبا دیا جاتا ہے، بات آئی اور گئی کے مصداق یہ چیپٹر بند کردیا جاتا ہے،اللہ اللہ الہ خیر سلا!یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ گزشتہ دس بیس سالوں میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ وفاق اور صوبے کی سطح پر ملازمتوں کے سلسلے میں کوئی قابل ذکر تعیناتیوں کے سلسلے میں اشتہارات نظروں سے نہیں گزرے۔

ہاں یہ دیکھا جا سکتاہے کہ وزراء کی سفارش پر وفاق اور صوبے کے محکموں میں اقرباء پروری کے تحت بھرتیاں ہوتی رہی ہیں۔ آج بلوچستان میں ہزاروں کی تعداد میں نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں نہ صرف اپنے والدین کے اوپر بوجھ بنے ہیں بلکہ زائد العمر ہونے کی وجہ سے شدید ذہنی پریشانیوں میں مبتلا ہوچکے ہیں آج کئی ایم اے پاس نوجوان آپ کو پولیس اور لیویز کانسٹیبل میں بھرتی کیلئے قسمت آزمائی کرتے ہوئے ملیں گے، یہ معمولی تعداد میں نہیں ہوتے سینکڑوں کی تعداد میں ایم اے پاس نوجوان ملازمتوں کے حصول کے لئے دھکے کھاتے ملیں گے۔ حالیہ دنوں میں نصیر آباد میں پولیس میں بھرتیوں کی تعداد بارے خبر پڑھ کر حیرانی ہوئی کہ کتنی بڑی تعداد میں تعلیم یافتہ نوجوانوں نے قسمت آزمائی کی، یہ صرف ایک محکمہ کی بات ہے۔

اگر تمام محکموں کا جائزہ لیاجائے تو ہزاروں کی تعداد میں نوجوانوں کے تعلیمی اسناد جمع ملیں گے،جمع اس لیے کہ اخبارات میں اشتہارات تو دئیے جاتے ہیں لیکن قابل مذمت بات یہ ہے کہ ٹیسٹ و انٹر ویو کے نام پر دکانداری کرتے ہوئے ان اشتہارات کی تاریخ میں بار بار منسوخی کے اعلانات بھی سامنے آتے رہتے ہیں، سوشل میڈیا پر یہ تحریر بھی سامنے آئی کہ ملازمتوں کے اشتہارات میں رشوت کی رقم بھی درج کریں تو زیادہ بہتر ہوگا تاکہ غریب طلباء فوٹو اور فوٹو اسٹیٹ کے نام پر اخراجات کرنے سے ”محفوظ“ رہ سکیں کیونکہ ان اسناد کی فوٹو اسٹیٹ کراتے کراتے اپنے والدین سے ہزاروں روپے انیٹ چکے ہوتے ہیں۔

جس کی وجہ سے وہ شدید ذہنی دباؤ کا شکار نظر آتے ہیں۔ بلوچستان میں کوئی فیکٹری یا ٹیکسٹائل ملز نہیں جہاں نوجوانوں کو کھپا یا جا ئے لے دے کے سرکاری ملازمتیں رہ جاتی ہیں جہاں یہ نوجوان بڑی تعداد میں قسمت آزمائی کرتے نظر آتے ہیں لیکن حقائق اس کے بر خلاف ملتے ہیں کہ جہاں وزراء کے قریبی رشتہ دار وں کی سفارش کی بنیاد پر یا پھر ”چمک“ کی بنیاد پر تعیناتیاں عمل میں لائی جاتی ہیں جو یقیناً افسوسناک اور مایوس کن عمل ہے۔ گزشتہ کئی عرصہ سے یہ بات شدت کے ساتھ محسوس کی جارہی ہے کہ بلکہ یہ کہوں کہ دیکھنے میں آرہی ہے کہ بلوچستان اور وفاق کی سطح پر بلوچستان کے نوجوانوں کے ساتھ سرا سر زیادتی ہورہی ہے۔

کوئی ایسا حکمران یا حکومت اب تک نہیں آئی جو ان نوجوانوں کی اشک شوئی کرتے ہوئے ان کے روزگار کا بندوبست کرے،سوئی کے مقام سے ملک بھر کو گیس‘ اوچ پاور پلانٹ ڈیرہ مراد جمالی اور حبکو پاور پلانٹ حب ملک بھر کو بجلی مہیا کررہے ہیں لیکن آج تک ان کمپنیوں کی جانب سے ملازمتوں کے حصول کیلئے بلوچستان کے نوجوانوں کے لئے روزگار کا اشتہار کم از کم میری نظروں سے نہیں گزرا چونکہ یہ کمپنیاں اندرون بلوچستان صوبائی دارالحکومت سے دور ہیں اس لیے ”آنکھ اوجھل، پہاڑ اوجھل“ والی بات ہے کہ یہ کمپنیاں بلوچستان سے گیس اور بلوچستان ہی کی گیس سے بجلی پیدا کرکے دیگر صوبوں کے کارخانے چلانے کے لئے دن رات کام کرتی ہیں۔

لیکن افسوس کہ بلوچستان کے نوجوان ان کمپنیوں میں ملازمتوں سے محروم ہیں۔ یہ ہو سکتاہے کہ درجہ چہارم کی ملازمتیں یعنی ڈرائیور‘ چوکیدار کی ملازمتیں (کمپنیوں کی اپنی ضرورت) کے تحت بلوچستانیوں کے نصیب میں آتی ہوں، انجینئرنگ سے لے کر دیگر کلیدی اسامیوں کے لئے کوئی بلوچستانی سرے سے ان آسامیوں پر براجمان نظر نہیں آتا۔ اب ان کمپنیوں کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ وہ ہمارے نمائندوں کو گھاس تک نہیں ڈالتے اس لیے کہ ہمارے نمائندوں نے اپنی غیرت خود گنوا دی ہے چند ایک علاقائی سہولیات کی مار جو کمپنیاں ان عوامی نمائندوں کو دے کر ملازمتوں سے بری الذمہ ہیں۔

ڈیرہ مراد جمالی اور حب کے نوجوانوں کو ملازمتوں میں نظر انداز کرنے کا عمل یقینًا مجرمانہ فعل ہے۔ دوسری طرف جعلی ڈؤمیسائل کا مسئلہ ہے کہ یہ بھی کسی منڈیر پر چڑھتے نظر نہیں آتی، ستر سالوں سے بلوچستان کے عوام بنیادی سہولیات سے محروم چلے آرہے ہیں آئندہ ستر سالوں تک یہی بھی صورت حال ہوگی کیونکہ ہمارے نمائندے اور ہماری حکومتیں اپنی نا اہلی اور عدم توجہی کے باعث”غیروں ’‘ کی تقویت کا باعث بن رہے ہیں،چاروں اطراف مایوسی ہی مایوسی ہے نوجوانوں کی مایوسی سے حالات ابتر ہوں گے،عوام کی مفلوک الحالی ختم نہیں ہوگی توپھر ملک میں امن کی فضا کیسے قائم ہوگی؟