|

وقتِ اشاعت :   October 10 – 2020

آخر کار بلی تھیلے سے باہر آگئی کے مصداق وفاق کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کے جزائر بارے صدارتی آرڈیننس جاری کرتے ہوئے ”پاکستان آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کا اعلان کرکے صوبائی خودمختاری میں براہ راست مداخلت کرتے ہوئے غیر آئینی اقدام کا مظاہرہ کرکے بلوچستان اور سندھ کی سیاسی جماعتوں سمیت یہاں کے عوام میں شدید بے چینی پیدا کرنے کا سبب پیدا کیا گیا۔ چونکہ یہ ساحلی علاقہ جات صوبوں کی ملکیت ہیں اس سے وفاق کا کوئی تعلق نہیں جبکہ ساحل سمندر سے اندرون سمندر 12ناٹیکل میل بھی صوبائی تصرف میں آتا ہے۔

اس کے باوجود وفاق نے صوبوں کو اعتماد میں لیے بغیر ایک صدارتی آرڈیننس منظور کرکے قومی وحدت کو دانستہ یا غیر دانستہ نقصان پہنچانے کی کوشش کی ہے کہ یہ سراسر صوبائی معاملہ ہے جس میں وفاق کی جانب سے براہ راست ساحلی پٹی کو اپنے تصرف میں لاتے ہوئے نیا شہر آباد کرنے کی پالیسی اپنائی گئی ہے جس کے تحت بلوچستان کے ساحلی پٹی پر طویل عرصہ سے مختلف قسم کے پراجیکٹس کا آغاز کردیا گیا تھا۔ یہ علاقہ جیونی سے لے کر گڈانی وڈام کے ساحل تک کا ہے، ابھی تک تو بلوچستان کے عوام سی پیک کے تحت اپنی محرومیوں کا رونا رو رہے تھے کہ کس طرح سی پیک جو کہ گوادر ہی کی وجہ سے ہے۔

یہاں کے باسی اور بشمول بلوچستان کے عوام جدید سہولیات، تعلیم‘صحت عامہ،سڑکوں سے محروم کردئیے گئے ہیں۔گوادر کے عوام آبنوشی،صحت اور بجلی کی سہولت سے محروم ہیں لیکن جیونی سے گڈانی و ڈام تک کے علاقہ میں گوادر کے پدی زری میں نئی ہاؤسنگ اسکیمات ترتیب دیکر انہیں جدید سہولیات بہم پہنچانے کا آغاز بھی کردیاگیا،اس علاقہ کو جن جن شخصیات کو الاٹ کیاگیا ہے ان کی قیمتی لینڈ کروزر گاڑیاں علاقے میں دھندناتی پھرتی نظر آتی ہیں جبکہ گوادر کے ماہی گیروں کے مسائل حل کرنے کی بجائے ان کی بیدخلی اور ساحل سے دورکرنے کی اطلاعات ہیں۔

اس سلسلے میں گوادر اور کراچی کے فشرمینوں نے جلسے جلوس بھی نکالے اور اپنی بیدخلی کے فیصلے کو سراسر مسترد کرتے ہوئے ایسے اقدامات کی مذمت کی۔ وفاق نے صدارتی آرڈیننس کاسہارا لیتے ہوئے بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں کو وفاق کو دینے کا جو عملی مظاہرہ کیا ہے اس کے مستقبل میں منفی نتائج برآمد ہونے کا خدشہ ہے کیونکہ بلوچستان بلوچ ساحل جہاں بلوچوں کی آبادیاں ہیں جن کے ذرائع آمدن کا واحد سہارا ساحل سمندر سے حاصل ہونے والی مچھلیاں ہیں، اب وہ محدود کیے جارہے ہیں ان کے کھلے عام گہرے سمندر میں نقل و حمل پر پابندی عائد کی جارہی ہے۔

سندھ حکومت کے ترجمان اورمشیر قانون و ماحولیات بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے اس عمل کو وفاق کی جانب سے آئینی حقوق پر شب خون مارنے کا عمل قرار دیتے ہوئے اس کی پر زور مذمت کرتے ہوئے پریس کانفرنس سے خطاب کیااور کہا کہ آئین کے آرٹیکل 72کے تحت ساحلی علاقہ اور اس سے ملحق زمین صوبے کی ملکیت ہے، آئی لینڈ صوبائی ملکیت ہے وفاقی حکومت کی نہیں،وفاق نے صدارتی آرڈیننس جاری کرکے اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ صدارتی آرڈننس سندھ اور بلوچستان کے حقوق پر قبضہ کرنے کے مترادف ہے۔

انہوں نے کہا کی ستمبر میں جاری کردہ آرڈیننس آئینی و اخلاقی اصولوں کی خلاف ورزی ہے، سندھ حکومت آئندہ کے لیے آئی لینڈ پر وفاقی حکومت سے کسی قسم کی بات نہ کرنے کا اعلان کرتی ہے۔ انہوں کہا کہ آئین لینڈ اتھارٹی کا قیام غیر آئینی اور غیر قانونی ہے۔ دوسری طرف سندھ کی صوبائی کابینہ بھی سمندری جزائر پر وفاق کے جاری کردہ آرڈیننس اور اس کے تحت آئی لینڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے قیام کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ آرڈیننس پاکستان کے آئین کے منافی ہے۔ کابینہ کے اراکین نے کہا کہ آئین کے تحت صوبائی حکومت کے علاقائی دائرہ اختیار میں واقع زمینوں‘ جزائر اور سمندری زمین صوبائی حکومت کی ملکیت ہے۔

کابینہ نے آریننس کو واپس لینے کے لیے وفاقی حکومت کو خط لکھنے کا فیصلہ کرتے ہوئے اپنے موقف کو اجاگر کیا۔ دوسری جانب بلوچستان کی سیاسی پارٹیوں اور طلباء تنظیموں نے بھی اس عمل کی سراسر مذمت کرتے ہوئے اسے بلوچستان کی ساحلی پٹی پر ”نئی بستیاں تعمیر کرنے کا عمل“ قرار دیتے ہوئے یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ چھوٹے صوبوں یعنی بلوچستان اور سندھ کے عوام کے حقوق کی پامالی ہے جس سے ان صوبوں کے غریب عوام میں موجود محرومیوں میں مزید اضافہ ہوگا اور لوگوں کے دلوں میں مزید شدید نفرت پیدا ہوگی۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی بیان میں سلیکٹیڈ حکومت کی جانب سے بلوچستان اور سندھ کے جزیروں پرقبضہ کرنے کے لئے صدارتی آرڈیننس کو صوبائی خودمختاری میں وفاق کی براہ راست مداخلت قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی گئی ہے، بیان میں کہا گیا ہے کہ مسلط شدہ وفاقی حکومت قومی وحدتوں کے پہلے حقوق غضب کررہی ہے،اب اس آرڈیننس سے ان کو تقسیم کرنے کی سازش بھی کررہی ہے بیان میں کہا گیا کہ پارٹی اس طرح کی غیر آئینی اور غیر جمہوری اقدامات کی ہر سطح پر مخالفت اور مذمت کرتے ہوئے صوبہ بھرمیں احتجاجی مظاہرے کرے گی۔

نیشنل ڈیمو کریٹک پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالحئی بلوچ نے کہا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کے جزائر کو صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاق کی تحویل میں دینے کا فیصلہ غیر آئینی ہے اور یہ عمل دونوں صوبوں کے عوام کی ملکیت پر ڈاکہ ڈالنے کے مترادف ہے انہوں نے کہا ہے کہ گوادر بلوچستان کا ساحل اور دل ہے اس پر قبضہ کرنے کی ہرسازش ناکام بنائیں گے، انہوں نے کہا کہ ہم کسی صورت اپنے جزائر کی ملکیت سے دستبردار نہیں ہوں گے۔سندھ اور بلوچستان کے عوامی نمائندوں کو چاہئیے کہ وہ اس مسئلے کو سینٹ اور قومی اسمبلی میں اٹھائیں۔

بلکہ بلوچستان اور سندھ کی صوبائی حکومتیں 18ویں ترمیم کے تحت حاصل اختیارات کے بل بوتے پر معاملے کو سی سی آئی میں اٹھائیں اور وفاقی حکومت سے احتجاج کریں۔ بلوچ عوامی موومنٹ کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رئیس نواز علی برفت ایڈووکیٹ نے اپنے بیان میں وفاقی حکومت کی جانب سے آئی لینڈ اتھارٹی کے قیام کو صوبائی مختاری پر قدغن قرار دیتے ہوئے اسے کسی صورت قبول نہ کرنے کااعلان کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان اور سندھ کے جزائر کووفاقی تحویل میں لینے کا فیصلہ نا قابل برداشت اور قابل مذمت ہے۔

انہوں نے کہا کہ وفاق چھوٹے صوبوں کو اعتماد میں لیے بغیر صوبوں کے وسائل پر قبضہ کررہا ہے جو کہ صوبوں کے ساتھ زیادتی کے مترادف ہے جس پر کسی صورت خاموش تماشائی بن کر نہیں بیٹھ سکتے اور نہ کسی کو ساحل بلوچستان پر قبضہ کرنے کی اجازت دی جائے گی جس کے خلاف منظم تحریک چلائی جائے گی انہوں نے کہا کہ غیر آئینی صدارتی آرڈیننس جمہوریت اور چھوٹے صوبوں کی خودمختاری کے لئے خطر ناک ہے جس کیلئے عوام کو سنجیدہ فیصلہ سازی کرنا ہوگی۔ مرکزی جمعیت اہل حدیث بلوچستان کے ناظم اعلیٰ مولانا عبدالغنی زامرانی نے کہا ہے کہ صدارتی آرڈیننس کے ذریعے وفاقی حکومت نے بلوچستان اور سندھ کے جزائر کو اپنے قبضے میں لیا ہے۔

جس پر ہمارے خدشات ہیں بلوچستان کے عوام کو گوادر پورٹ سمیت کسی بھی منصوبے سے کچھ بھی فائدہ حاصل نہیں ہوا ہے،وفاق کی قبضہ گیری سے بلوچ ماہی گیروں کے لئے علاقہ کو نوگوایریا بنانے کی کوشش کی جارہی ہے جو ہمیں ہرگز قبول نہیں ہے انہوں نے کہا کہ بلوچستان کے زخموں پر مزید نمک چھڑک کر انہیں نفرتوں کی جانب نہ لے جایا جائے اور اس آرڈیننس کو فوری طورپر واپس لیاجائے۔سندھ اسمبلی نے سندھ کے جزائر پر وفاق کی حاکمیت کو تسلیم نہیں کیا ہے جبکہ بلوچستان اسمبلی پر سلیکٹیڈ کا قبضہ ہے اس لیے وہ خاموش ہیں۔

جمعیت علماء اسلام کے مرکزی ترجمان اور سابق پارلیمنٹرین حافظ حسین احمد نے کہا ہے کہ صوبوں کے جزائر اور ساحل کے حوالے سے صدارتی آرڈیننس دراصل کراچی اور گوادر پورٹ سمیت بلوچستان کے دیگر ساحلی علاقوں، اورمارڈہ‘ پسنی‘ اور جیونی کو بحریہ کافوجی دفاعی بیس بنانا چاہتے ہیں، انہوں نے کہا کہ اصل میں ”کڑوی دوا“ کو صدارتی آرڈیننس کے”کیپسول“ میں ڈال کر صوبوں کی خودمختاری پر ڈاکہ ڈالاگیاہے۔اٹھارویں ترمیم کے بعدمتحدہ پاکستان میں ون یونٹ بنانے والوں کی با قیات اب صوبوں کو فتح کرنے نکلا ہے۔ سی پیک کی تازہ ترین گھیراؤ کے اقدامات اس منصوبے کے حوالے سے شکوک و شہبات میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔