|

وقتِ اشاعت :   October 19 – 2020

کوئٹہ:ملک میں پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا آزاد نہیں، جمہوری ملک بنانے کا وعدہ پورا نہیں کیا گیا، ہم حقوق کی بات کرتے ہیں تو غدار کہاجاتا ہے جبکہ آئین توڑنے والوں کو غازی کے القابات سے نوازاجاتا ہے۔

منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جاتی ہے، جلاوطن کردیاجاتا ہے، وزیراعظم کو شہید کیاجاتا ہے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام وجمہور کہاں ہیں۔ آئین بنانے والے اور ان کے محافظ آئین کی پاسداری نہیں کرینگے تو عام شہری سے کس طرح آئین کی عزت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ہم نے اپنے مادرِ وطن اور ننگ وناموس کیلئے خون دیا ہمیں غداروں کی صفوں میں شامل کیاجاتا ہے۔

ہم نے پاکستان کے چڑیا گھر میں بھی جمہوریت نہیں دیکھا ہے۔ ان خیالات کااظہار بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ سردار اختر جان مینگل نے کراچی میں پی ڈی ایم کے جلسے سے خطاب کے دوران کیا۔سردار اختر مینگل نے کہا کہ ہم پرالزام لگانے والوں نے اپنی سرزمین اور رشتہ داروں سے وفاتک نہیں کیا، یہ سوال کرنے پر حق بجانب ہوں کہ پاکستان کو بنانے کیلئے ہم چھوٹی قوموں سے وعدہ نہیں کیا گیا تھا کہ آپ مکمل خود مختار رہینگے،

کیا اس ملک کو بنانے کیلئے یہ وعدہ نہیں کیا گیا تھا کہ اسے جمہوری ملک بنایاجائے گااور آئین کی پاسداری ہوگی، عدلیہ آزاد ہوگا،پارلیمنٹ کی بالادستی ہوگی،میڈیاآزاد ہوگایہ تمام تر وعدے کہاں ہیں؟

جمہوریت کہاں ہیں،جمہوریت یہی ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو پھانسی دی جاتی ہے،منتخب وزیراعظم کو شہید کیاجاتا ہے کیا یہی جمہوریت ہے؟منتخب وزیراعظم کو جلاوطن کردیا جاتا ہے۔سردار اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ہم نے پاکستان کے چڑیا گھر میں بھی جمہوریت نہیں دیکھا ہے۔کیا میڈیا،عدلیہ آزاد ہیں؟اگر عدلیہ آزاد ہوتی تو چوہدری افتخار کو یرغمال نہیں بنایاجاتا، 12مئی کا واقعہ رونما نہیں ہوتا،میڈیا آزاد ہوتا تو سینکڑوں صحافیوں کو شہید نہیں کیاجاتا، آزاد وہ لوگ ہیں جنہوں نے جمہوریت پر قدغن لگایا،آئین کوتھوڑا،مظلوموں کے قتل عام کرنے والے آزاد ہیں،ہم اپنے آپ کو آزاد محسوس نہیں کرتے، ہم گھر سے نکلتے وقت نصیحت کے ساتھ وصیت لکھ کر نکلتے ہیں جو کہ آزاد ممالک میں یہ نہیں ہوتا ہے۔

سردار اختر مینگل نے کہاکہ جہاں پر عوام کے سربراہان محفوظ نہیں تو عوام کا کیاحال ہوگا؟روزگار کا وعدہ کرنے والوں نے عوام کو نان شبینہ کا محتاج کردیاہے،لوگ اپنے بچوں کوغیرمحفوظ سمجھ رہے ہیں اس طرح کی جمہوریت ہم نے کبھی نہیں دیکھاہے یہاں پر تو اسلامی جمہوری ریاست کا کہا جاتا ہے کہاں ہے اسلام اور کہاں جمہوری ہے؟جمہوریت کو تہہ خانوں،صندوقوں میں چھپایا گیا ہوگاجس کی چابی کی جھلک بھی ہم نے نہیں دیکھی ہے۔انہوں نے کہاکہ بدقسمتی سے یہاں پر ٹریفک سگنل توڑنے اور گملاتوڑنے والوں کو سزاتو دی جاتی ہے

مگر کبھی یہ دیکھا ہوگا کہ آئین توڑنے والوں کے خلاف کسی جگہ پرچا کاٹا گیا ہو۔غداری کے مقدمات اور سو کے قریب ایف آئی آر مشرف کے دور میں مجھ سمیت میرے ساتھیوں کیخلاف درج کی گئی تھی۔ سردار اختر مینگل نے کہاکہ جب آئین بنانے والے اور ان کے محافظ اس کی پاسداری نہیں کرینگے تو عام شہری سے کس طرح آئین کی عزت کی توقع کی جاسکتی ہے۔ آئین شکنی کرنے والوں کو غازی کہاجاتا ہے، ایوب خان،ضیاء الحق اور مشرف کو غازی کا لقب دیاجاتا ہے۔ ہم نے اپنے مادرِ وطن اور ننگ وناموس کیلئے خون دیا ہمیں غداروں کی صفوں میں شامل کیاجاتا ہے۔

میں یہ سوال پھر کرونگا کہ یہ ملک جو ہم سے وعدے کرکے بنایاگیا ہے یا پھر ڈی ایچ کیلئے بنا ہے۔یہ ملک عوام کیلئے بناہے یا کنٹونمنٹ کیلئے بنایاگیا ہے یا پھر فیزا والوں کیلئے بنایا گیا ہے۔ گوجرانوالہ جلسے پر میڈیا میں چند تجزیہ کار تنقید کررہے تھے کہ کچھ پارٹیوں نے اپنے کارکنان کو قیمہ کے نان کھلائے تو میں بلاول بھٹو اور مریم نواز سے کہتاہوں کہ پاپاجونز کے آرڈردیاکریں ہم ورکروں کو کھلائینگے۔سردار اختر مینگل نے کہاکہ یہ عوام جمہوریت کا علم بلند کرنے کیلئے جلسوں میں آتے ہیں قیمہ کے نان کیلئے نہیں آتے میں خود گواہ ہوں کہ ہمارے جلسوں میں کارکنان اپنے گھر کے اشیاء فروخت کرکے اپنی جیبوں سے گاڑیوں میں پیٹرول ڈال کر جھنڈے اٹھاکر آتے ہیں۔

پیٹ پر پتھر باندھ کرآنے والے کارکنان اپنی سرزمین سے محبت کرتے ہیں انہیں عزت دیتے ہیں اس کے مقابلے میں نان قیمہ اور پاپاجانزفیزا نہیں آسکتا ہے۔ سردار اخترمینگل نے کہاکہ کیا یہ ملک ان لوگوں کیلئے بنایاگیا ہے جنہوں نے آسٹریلیا میں جزیرے خریدے ہیں؟کیا یہ ملک ان کیلئے بنایاگیا ہے جنہوں نے بیرونی جنگ کا حصہ بن کرڈالر کماکربیرون ملک اکاونٹ بنائے ہیں؟یہ ملک ان بچوں کیلئے بنایا گیا ہے جن کے پاؤں میں جوتے نہیں، یہ ملک ان ماؤں وبہنوں کیلئے بنایاگیا ہے جن کے سروں پر دوپٹے نہیں ہیں، یہ ملک ان بزرگوں کیلئے بنایاگیا ہے جن کی پگڑیاں تارتار کی گئی ہیں۔

سردار اختر مینگل نے کہا کہ کہتے ہیں کہ مہنگائی ہوگئی ہے آٹا، چینی سمیت اشیاء خوردنی کی چیزیں مہنگی ہوگئی ہیں مگر ہمارے یہاں انسانی خون سستا ہوگیا ہے ہر گلی میں خون بہایاجارہا ہے۔ ہمارے بلوچوں کا خون لیاری ندی، بولان ندی سے لیکر گوادر کے سمندر تک پھیلادیا گیا ہے کون اس کا ذمہ دار ہے؟ ہمیں مارکر رونے اور افسوس کرنے کا بھی حق نہیں دیاجاتا ہے ہم کس سے سوال کریں۔