|

وقتِ اشاعت :   November 25 – 2020

کوئٹہ: بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمن کھیتران کی تحریک استحقا ق پیش، ڈپٹی سپیکر نے تحریک استحقاق متعلقہ کمیٹی کے سپرد کردی، منگل کو بلوچستان اسمبلی کے اجلاس میں صوبائی وزیر سردار عبدالرحمان کھیتران نے اپنی تحریک استحقاق پیش کرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان انڈوومنٹ فنڈ صوبائی حکومت کی جانب سے ایسے نادار مریضوں کے علاج کے لئے قائم کیاگیا ہے۔

جو اپنے علاج معالجے پر بھاری اخراجات کی سکت نہیں رکھتے انہیں اس فنڈ سے علاج کے لئے پیسے دیئے جاتے ہیں میں نے اپنے حلقے کے جس مریض کے لئے گیسٹرو ڈیپارٹمنٹ ڈاکٹر شربت خان سے رابطہ کیا کہ مریض کو لیور ٹرانسپلانٹ کے لئے ملتان لیجایا گیا ہے جہاں سے انہیں ٹرانسپلانٹ کرانے کے لئے اسلام آباد بھیجاگیا اورمذکورہ مریض کے علاج پر بھاری اخراجات آنے ہیں لہٰذا اس کی فائل پر دستخط کرکے اسے اسلام آباد ریفر کیا جائے تاہم مذکورہ ڈاکٹر نے میرے بار بار رابطہ اور بار بار درخواستوں کے باوجود دستخط سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ جب تک وہ خود مریض کامعائنہ نہیں کرتے اس وقت تک وہ دستخط نہیں کریں گے جبکہ انہیں بتایاگیا کہ مریض کی حالت انتہائی تشویشناک ہے اور کوئٹہ لانا بڑا مشکل ہے۔

میں نے مذکورہ ڈاکٹر سے درخواست کی کہ میں ان کے اسلام آباد آنے جانے اور وہاں ان کے ایک رات قیام کے اخراجات برداشت کرنے کے لئے تیار ہوں وہ خود جا کر مریض کی حالت دیکھ کر اس کی درخواست پر دستخط کردیں جس پر مذکورہ ڈاکٹر نے انتہائی ناروا رویہ اختیار کرتے ہوئے جانے سے انکار کیا میں نے ان سے استدعا کی کہ وہ اپنے شعبے سے کسی اور ڈاکٹر کو بھی بھیجنا چاہیں۔

تو ان کے بھی اخراجات ادا کئے جائیں گے مگر وہ اس پر بھی تیار نہ ہوئے جس پر بڑی مشکل میں مریض کو اسلام آباد سے کوئٹہ لایا گیا جب مریض کو وارڈ میں لیجایاگیا تو وہاں نہ تو میرا گارڈ او رنہ کوئی دوسرا شخص وہاں گیا مگر بدقسمتی سے دوسرے روز وہ مریض انتقال کرگیا اس دوران میں بیمار تھا مجھ سے پولیس حکام نے رابطہ کرکے استفسار کیا کہ آیا گزشتہ روز میرا کوئی گارڈ یا کوئی دوسرا شخص ہسپتال گیا تھا اور کیا۔

اس نے وہاں مذکورہ ڈاکٹر سے بدتمیزی کی ہے جس پر میں نے انہیں بتایا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا تاہم اگلے روز مجھے بتایاگیا کہ وائی ڈی اے نے ہڑتال کردی ہے او ران کا مطالبہ ہے کہ میرے اور میرے لوگوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی جائے انہوں نے کہا کہ مذکورہ ڈاکٹر سے جب میں نے اس بابت بات کی تو انہوں نے کہا کہ وہ صوبائی حکومت کے ماتحت نہیں بلکہ یونیورسٹی کے ملازم ہیں۔

او ران کا رویہ ایک مرتبہ پھر ٹھیک نہیں تھا انہوں نے کہا کہ جس روز مریض کو ڈاکٹر کے پاس لیجایا گیا تو ان کے ساتھ ان کے ایک جاننے والا شکور مری بھی ساتھ تھے اب میں نہیں جانتا کہ وہاں کیا ہوا؟ کس نے زیادتی کی تاہم ڈاکٹر شربت خان کے رویے سے میرا استحقاق مجروح ہوا ہے میری تحریک کو استحقاق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔