|

وقتِ اشاعت :   December 8 – 2020

عورت کبھی حوا ،کبھی مریم، کبھی زھراعورت نے ہر ایک دور میں قوموں کو سنبھالا ہے
29برسوں سے جاری صنفی تشدد کے خاتمے کی اگاہی مہمات کے بلوچستان میں حوا کی بیٹیوں پرتشددمیں کمی کی بجائے اضافہ رپورٹ ہورہا ہے
بلوچستان کی ترقی عوام کی خوشحالی کے خواب کی تعبیر نصف آبادی خواتین کو تشدد سے پاک ماحول کی فراہمی کے بغیر ممکن نہیں

٭صنفی تشدد کے خلاف 16 دن منانے کی سرگرمی ایک بین الاقوامی مہم ہے جو 1991 میں شروع ہوئی اور ہر سال 25 نومبر سے ، خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن سے لے کر، 10 دسمبر ، عالمی یوم انسانی حقوق کے دن تک جاری رہتی ہے ، اس مہم میں دنیا بھر کے افراد اور گروہوں سے مطالبہ کیا جاتا ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف ہر طرح کے تشدد کو ختم کرنے کے لئے ہونے والی کوششوں میں اپنا حصہ ڈالیں یہِ ِ خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو چیلنج کرنے کے لئے ایک بین الاقوامی مہم ہے۔جب تشدد کرنے والوں کو سزانہیں ملتی ، تو یہ عمل معاشرے میں صنفی تشدد کے رویوں کو پروان چڑھاتا ہے۔

اور سماج میں پہلے سے جاری خواتین پر تشدد کی رویات مزید فروغ پاتی ہیں جہاں جنسی تشدد کو معمولی بات سمجھا جاتا ہے اگرچہ حالیہ برسوں میں ، #MeToo ، #TimesUp ، #NotOneMore ، #B بیلنس ٹن پورک جیسی تحریکوں کے ذریعہ کارکنوں اور زندہ بچ جانے والوں کی آوازیں ایک ایسی حد تک پہنچ گئی ہیں جس کو خاموش یا نظرانداز نہیں کیا جاسکتا ،اس کے باوجود دنیا بھرکے ممالک کی طرح پاکستان اور خصوصاً بلوچستان میں خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔صنفی تشدد سے تین میں سے ایک عورت متاثر ہوتی ہے۔

بلوچستان دھرتی جہاں کے قبائلی سماج میں جھگڑوں اور قتل وغارت کے معملات کو عورت کی آمد پر احتراما صلح کرلی جاتی ہے مگر اسی سماج میں کاری سمیت دیگر رسومات کے نام پر عورتوں کو قتل کرنے کی فرسودہ رویات بھی صدیوں سے جاری و ساری ہیں ۔ ہماری آج کی رپورٹ میں صنف کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کی کوششوں میں حائل مشکلات اور کامیابیوں کا جائزہ لینے کی کوشش کی گئی ہے گورنرہاوس کوئٹہ میں خواتین کے ساتھ صنفی بنیادوں پر ہونے والی ناانصافیوں اور ان کے حقوق کی پامالی کے خلاف ایکٹیویزم کے سولہ دن کے حوالے سے سادہ مگر پروقار تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے ۔

بیگم گورنربلوچستان ڈاکٹر ثمینہ امان نے کہا ہے کہ ہمارے معاشرے میں خواتین پر تشدد کی روک تھام کیلئے کی جانے والی کوشش لائقِ تحسین ہے. خواتین پر تشدد کے خلاف ایکٹیویزم کے سولہ دن ہمیں یہ درس د یتے ہیں کہ ہم بلوچستان میں خواتین کے حالات زار کا بغور جائزہ لیں کیونکہ سردست خواتین کی معاشی خودمختاری کیلئے نئے اقدامات اٹھانا ناگزیر ہو چکا ہے ،اس موقع پر پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ بلیدی، اراکین صوبائی اسمبلی شائینہ کاکڑ، شکیلہ نوید دیوار، صوبائی خاتون محتسب صابرہ اسلام، بی آر ایس پی کے سربراہ نادرگل بڑیچ، عائشہ ودود اور ریحانہ خلجی کے علاوہ مختلف قومی اور بین الاقوامی اداروں کے نمائندگان بھی موجود تھے۔

افتتاحی تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بیگم گورنربلوچستان ڈاکٹر ثمینہ امان نے کہا کہ یہ بات خوش آئند ہے کہ موجودہ صوبائی حکومت خواتین کو درپیش مسائل ومشکلات کا پائیدار حل ڈھونڈنے، زندگی کے مختلف شعبہ ہائے زندگی میں آگے لانے اور معاشی طور پر خودمختار بنانے میں سنجیدگی سے دلچسپی لے رہی ہے اور حال ہی میں صوبائی کابینہ کی جانب سے خواتین کے مساویانہ حقوق کے حوالے سے بل کو منظور کرنا ایک اچھی پیش رفت ہے. بلوچستان کی خواتین کے مسائل اور مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے بیگم گورنر ڈاکٹر ثمینہ امان نے کہا کہ صوبے میں خواتین کئی مصائب اور مشکلات سے دوچار ہیں۔

وراثت میں ان کا حق نہ دینا، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں ان کی ابتر حالت اور دیگر ایشوز شامل ہیں. انہوں نے موجودہ حکومت اور دیگر تمام سٹیک ہولڈرز پر زور دیا کہ وہ سنجیدگی سے خواتین کو درپیش مشکلات کے حل پر خصوصی توجہ دیں. بلوچستان کی خواتین ملک کے دیگر صوبوں کی خواتین کی طرح باصلاحیت اور ملنسار ہیں مگر بدقسمتی سے ہم نے خواتین کو مواقع فراہم نہیں کئے ہیں جسکی وجہ سے آج بلوچستان کی خواتین زندگی کی دوڑ میں پیچھے ہیں. بیگم گورنر ڈاکٹر ثمینہ آمان نے تجویز دی کہ بلوچستان میں بڑے پیمانے پر خواتین ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کیلئے صوبائی سطح پر نئی پالیسی وضع کی جائے۔

. تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پارلیمانی سیکرٹری صحت ڈاکٹر ربابہ خان بلیدی نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین کے حقوق کے تحفظ اور ہر شعبہ زندگی میں انکی نمائندگی کو یقینی بنانے کیلئے بلوچستان اسمبلی میں موثر قانون سازی کی جارہی ہے جبکہ محکمہ صحت بلوچستان میں اپنی نوعیت کا پہلا وویمن ڈیسک قائم کیا گیا ہے جس میں خواتین کو درپیش مسائل اور مشکلات کے خاتمے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ہیں وویمن کا کسی فورم کے پلیٹ فارم سے بھی تحفظ نسواں کیلئے قابل عمل حکمت عملی مرتب کی جارہی ہے. انہوں نے کہا کہ ہمیں صرف سولہ دن ہی نہیں۔

بلکہ سال کا ہر دن تحفظ نسواں کے جذبے سے سرشار ہوکر منانا ہوگا. انہوں نے منعقدہ پروقار تقریب کے انعقاد پر میزبان تنظیم بی آر ایس پی کی خدمات کو سراہا. تقریب سے بی آر ایس پی کے سربراہ نادر گل بڑیچ، ڈاکٹر عطاء الرحمن اور محکمہ ترقی نسواں کی اسسٹنٹ ڈائریکٹررخسانہ جبیں نے بھی خطاب کیا. آخر میں خواتین پر تشدد کے خلاف ایکٹیویزم کے سولہ دن کی مناسبت سے چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کیا گیا اور کیک بھی کاٹا گیا.، صنفی مساوت کے فروغ کے لیے گزشتہ25برسوں سے مصروف عمل تعمیر خلق فاونڈیشن کی صنفی مساوات اور تحفظ کی اسپیشلٹ صائمہ جاوید نے کہا کہ بلوچستان میں عورتوں پر ہونے والے تشدد کی زمہ دار عورت کیسے ہوسکتی ہے ۔

میں اس سوال کو ہی مناسب نہیں سمجھتی ،زمہ دار ہمارا معاشرہ اور ماحول ہوتا ہے ،عورت کو اپنے حقوق سے آگاہی اور شعور نہیں دیا جاتا، 16دنوں پر مشتمل آگاہی مہم کا مقصد بھی یہی ہے کہ صوبے کی تمام بچیوں اور عورتوں تک کسی نہ کسی زریعے سے ان کے انسانی اور بطور عورت ہونے کے حقوق کی اگاہی پہنچ جائے اس سال بھی ملک بھر کی طعح بلوچستان میں بھی یہ مہم جاری ہے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں تنظیموں کے ماہرین اس مہم کے اغراض مقاصد کے حصول کے لیے اپنا حصہ شامل کرنے کی کوشش کررہئے ہیں ہمارا ادارہ تعمیر خلق فاونڈیشن صوبائی دارلحکومت سمیت صوبے کے پانچ اضلاع میں ڈراپ آوٹ ہونے والی ۔

بچیوں کو تعلیم اور ہنر کے زیور سے اراستہ کرکے ا ن کو سماجی اور معاشی طور پر بااختیار کرنے میں اہم کردار ادا کر رہا ہے حالیہ خصوصی مہم کے دنوں میں پانچ اضلاع میں کمینوٹی کی سطح پر لڑکوں اور لڑکیوں کے الگ الگ آگاہی سیشن کیے جارہے ہیں کہ کس طرح مرد صنفی تشدد کے خاتمے اور خواتین کو ترق کے لیے ساز گار ماحول فراہم کر سکتے ہیں ، ہماری کوششیں معاشرتی روئیوں میں تبدیلی تو لا رہی ہیں مگر اس کے ساتھ بچوں عورتوں کے خلاف ہونے والے جراہم میں بھی بہت تیزی سے اضافہ ہورہا ہے جو قابل مذمت اور افسوس ہے، گھریلو تشدد، قتل ،جنسی تشدد میں ہوتا اضافہ ہمارے لیے لمحہ فکریہ ہے۔

ان جرائم کی روک تھام کے لیے ضروری ہے کہ حکومتی ادارے قوانین پر عملدرآمد کے نظام کے نقاص کو دور کرے جرائم میں ملوث عناصراور ان کی پشت پناہی کرنے والوں کو سخت سزایں دی جایں عورتوں بچوں پر مظالم ڈھانے والوں کو نشان عبرت بنانا وقت کی ضرورت ہے،گھریلو تشد کی روک تھام کے ایکٹ کے رول اف بزنس گزشتہ 5برسوں سے بن نہیں پائے ،حکومت وقت کو صنفی تشدد سے پاک بلوچستا کے لیے سول سوسائٹی کے مطالبات کو اپنے ایجنڈے میں شامل کرنا ہوگا۔غیر سرکاری تنظیم ہارڈ بلوچستان کے پروگرام افیسر ضیا بلوچ کا کہنا تھا کہ صنف کی بنیاد پر ہونے والے تشدد کی روک تھام کی اگاہی کے فرغ کے لیے مناے جانے والے۔

16 دنوں پر مشتمل اگاہی مہم بلوچستان میں بھی دنیابھر کی طرح 1991 سے چلا ئی جارہی ہے ان 29برسوں میں بہت سی تبدیلیاں روح نما ہوئی ہیں جن کا سہرا سول سوسائٹی کے متحرک لوگوں کے سر جاتا ہے۔خواتین پر تشدد کی بے شمار قباہلی رسومات کو اجاگر کرنے اور ان کو بدلنے کی آواز کو بلوچستان کے کونے کونے تک پہنچایا گیا ہے ہماری تنظیم سمیت دیگر سماجی تنظمیں صوبہ بھر میں خواتین کو انکے حقوق سے آگاہی دینے کے لیے مصروف عمل ہیں سماج کی سوچ بدل تو رہی ہے مگر بہت آستہ آستہ صنفی تشدد کی روک تھام کے ہمارے حدف ابھی پورے نہیں ہوسکے۔

میں سمجھتا ہوں معاشرے میں ہماری جدوجہد سے 25فیصد تبدیلی آئی ہے اس مثبت تبدیلی کی رفتار کو تیزکرنے کے لیے پہلے سے موجودقوانین پر عملدرآمد کو یقینی بنانے کے ساتھ دور جدید کے تقاضوں سے ہم اہنگ قوانین سازی کی اشد ضرورت ہوئے، خواتین پر صدیوں سے جاری تشدد کا زمہ دارعورتوں کو نہیں ٹھہرا جاسکتا بلوچستان کے سماج میں خواتین کی یہ زمہ داری سمجھی جاتی ہے کہ وہ گھر کے تمام کام کرکے کھتوں میں جا کر مردوں کا ہاتھ بٹایں۔نسل کو آگے بڑھانے کے لیے کمزور اور بیمار جسم کے ساتھ ہر سال بچے بھی پیدا کریں اس کے بعد بھی تشدد کو شکایت کیے بغیر برداشت کریں۔

انتہائی دکھ افسوس کامقام ہے کہ بلوچستان جہاں کی اکثریتی آبادی مسلمان ہونے کے باوجود امسال 36خواتین کو نام نہادغیرت کے نام پر قتل کردیا گیا۔رپورٹ نہ ہونے والے کیسوں کی تعداد کہی زیادہ ہوگی۔یہ صورتحال ملک صوبے کے اختیار داروں اور سماجی تنظیموں سے تشدد کے خلاف جدوجہد کو مزید تیز کرنے کا مطالبہ کرتی ہے، ماوں بیٹیوں بہنوں کو تشدد سے تحفظ دینے کے لیے ہمیں اپنا طرز عمل مزیدبہتر بنانا گا۔سماجی ورکر اور پی ٹی وی کے بلوچی زبان کے کرنٹ افیر پروگرام کے ہینکر پرسن بہرام بلوچ کا کہنا تھا کہ صنفی تشدد کے روک تھام کی کوششوں کے ہمارے معاشر پر اثرات کو جانچنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہو گا ۔

کہ ہمارا معاشرہ عورتوں پر تشدد کی روک تھام کے حوالے سے کس حد تک آگاہ ہے ، اب تک کی صورتحال سے یہ بات سامنے اتی ہے کہ اگاہی مہمات کے باوجود ہمارا معاشرہ صنفی تشدد کو برا ئی ماننے سے کترا رہا ہے بے شمار تعلیم یافتہ لوگ گھریلو تشدد کرت رپورٹ ہوچکے ہیں وہ اپنے عمل پر ندامت کی بجائے قوانین کے نقاس سے بھرپور فائدہ اٹھانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں ، رہی بات اس طبقے کی جن تک آگاہی نہیںپائی وہ لا علمی ہزار نعمت ہے کی مثال دیتے ہوئے عورتوں پر تشدد کی فرسودہ رویات پر عمل پیرا ہیں غربت اور مہنگائی کے مارے ان لوگوں کو دو وقت کی روٹی گھر لانے سے ہی فراغت نہیں ملتی۔

وہ اگاہی شعور کے حصول کے لیے کسی سیمنار میں بیٹھنا سوچ بھی نہیں سکتے ، غربت کی چکی میں پسنے والے لوگ گھریلو تشدد کو اپنا حق سمجھ کر استعمال کر رہے ہیں، معاشرتی سوچ او ر روئیوں کو بدلنے کے لیے تمام طبقات تک اگاہی پہنچانے کے ساتھ ملوث عناسر کو سخت سزایں دینے کے لیے قوانین میں ترامیم کے ساتھ نے قوانین بنانے کی اشد ضرورت ہے ،قوانین پر عملدرآمد کرانے والوں انصاف کی فراہمی میں معاونے کرنے والوں کی تربت کرانے کی بھی ضرورت ہے ،معاشرے کو صنفی تشدد سے پاک معاشرہ بنانے کے لیے ہم سب کو مل کے اپنے اپنے شعبوں میں کام کرنا ہوگا ۔ایک بات انتہائی ضروری ہے کہ آگاہی مواد کو لوکل زبانوں میں مرتب دے کر سوبے کے دور دراز علاقوں تک پہنچانا ہوگا۔

یاسمین مغل ، پروجیکٹ آفیسر عورت فائونڈیشن بلوچستان نے بتایا کہ ہر سال صنفی تشدد کے خلاف فعالیت کے 16دن منائے جاتے ہیں ۔جو 25نومبر سے شروع ہو کر 10دسمبر تک جاری رہتے ہیں ۔سال 2020کا موضوع “Orange the World: Fund, Respond, Prevent, Collect!” ہے۔ دنیا کی تمام عورتوں کی تحریکیں ان 16دنوں میں عورتوں پر ہونے والے تشدد اور جبر کے خلاف اپنی آواز بلند کرتی ہے ۔ فعالیت کے یہ 16دن پوری دنیا میں عورتوں پر تشدد اور جبر کے خلاف جدوجہد کی علامت کے طور پر منائے جاتے ہیں ۔ اس سلسلہ کو مد نظر رکھتے ہوئے ہماری تنظیم نے( EVAW/G Alliance) کے ساتھ مل کر نے سال2020 کے موضوع کو مد نظر رکھتے ہوئے ایک چارٹر آف ڈیمانڈ حکومت وقت کو پیش کیا ہے۔

بلوچستان میں اس مہم کا آغاز 25نومبر کو گورنر ہاوس بلوچستان میں منعقدہ تقریب سے ہوا ہے جو 10دسمبر انسانی حقوق کے عالمی دن پر اختتام پزیر ہو گی۔ اس مہم کے دوران پارلیمنٹیرینز کے ساتھ میٹنگ ، سیمینار ، پینل ڈسکشن کا انعقاد اور ، مختلف اضلاع کے نوجوان طلبا و طالبات کے ساتھ صنفی تشدد کے خلاف پروگرام کا انعقاد کیا جارہا ہے ۔ مہم کے اختتام پر ایک میگا پروگرام کا انعقاد بھی کیا جائے گا۔ اس سال ہماری یہ کوشش ہے کہ کچھ سرگرمیاں ویب نار پر بھی منعقد کی جائے گی جس میں طالبعلموں کو زیادہ سے زیادہ شامل کرنے کی کوشش کی جائے گی تاکہ نوجوان نسل کو خواتین کے حقوق کے حوالے سے زیادہ سے زیادہ آگاہی مل سکے۔

جن کا آغاز ہوچکا ہے حکومت کو پیش کردہ چارٹر آف ڈیمانڈ میں ہم نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا ہے کہپاکستان کے دوسرے صوبوں کی طرح بلوچستان میں بھی خواتین کی حیثیت کے حوالے سے صوبائی کمیشن فار وومن کوجلد از جلد فعال بنایا جائے ، ہم مخلوط صوبائی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کرتے ہیں کہ کم عمری کی شادی کی روک تھام کے حوالے سے بل کو فوری طور پر بلوچستان اسمبلی سے منظور کرایا جائے ،تیزاب سے متاثرہ خواتین کی بحالی اور آبادکاری کے لئے بل اسمبلی میں فی الفور لا یا جائے ۔ تمام سرکاری اور غیر سرکاری اداروں میں مقام ِکار پر مرد اور خواتین کو ہراساں کرنے کے خلاف قانون 2016کا نفاذ ہو چکا ہے۔

اس سلسلے میں محکموں میں کمیٹیوں کی تشکیل اور عوامی سطح پر اس کی آگاہی کو یقینی بنایا جائے۔گھریلو سطح پر ہونے والے تشدد کے خلاف بنائے گئے قانون کو لاگو کرنے کے لئے قوائد و ضوابط تشکیل دئیے جائیں۔ ہوم بیسڈ ورکرز کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی ترتیب اور تشکیل دی جائے ، خواتین کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے ترقیاتی اسکیمیں تشکیل دی جائیں نیز خواتین کی تیار کردہ مصنوعات کو آخری شکل دینے کے لئے صوبائی سطح پرپروڈکٹ فنیشنگ یونٹس قائم کئے جائیں،
سرکاری اداروں میں تمام سطحوں پر خواتین کو برابری کی بنیاد پر نمائندگی دی جائے ۔

تمام سرکاری اور غیرسرکاری اداروں میں معذور افراد کی آسان رسائی کے لئے اقدامات کئے جائے۔ سنڈیمن صوبائی ہسپتال میں نفسیاتی صحت کا مرکز قائم کیا جائے۔تمام بنیادی مرکز صحت میں موبائل فیسٹیولا سینٹر کا قیام عمل میں لایا جائے۔محکمہ سماجی بہبود کے تحت کام کرنے والے مخصوص بچوں کے ادارے میں ماہر نفسیات کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔ سیاسی جماعتوں سے پُر زور مطالبہ کرتے ہیں کہ جنرل نشستوں پر بھی خواتین کو برابری کی بنیاد پر نامزد کیا جائے ۔ سرکاری اور غیر سرکاری ادارے بشمول ِ سیکریٹریٹ، چیمبر آف کامرس ، عدالتیں اور میڈیا ہاوسس میں وومن فرینڈلی سپیس جیسا کہ ڈے کیئر سینٹر ، باتھ روم۔

آرام گاہ اور معلوماتی ڈیسک کا قیام عمل میں لایا جائے۔ایچ آر پالیسی برائے میڈیا ہاوسس کو صنفی حساسیت کے تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے ترتیب دیا جائے ۔خواتین کے حقوق کے حوالے سے فوری اور تیز ترین سماعت کے لئے عدالتوں میں موثر اقدامات کو یقینی بنایا جائے۔بلوچستان میں ڈویژنل سطح پر دارالامان کا قیام عمل میں لایا جائے اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی فوری قانونی رہنمائی اور مقدمات کو جلد از جلد نمٹانے کے لئے وکلاء پینل کی تعیناتی عمل میں لائی جائے۔صوبائی حکومت سے مطالبہ کرتے ہے کہ مخنس (خواجہ سراہ ) کے سماجی اور معاشی تحفظ کے لئے صوبائی سطح پر پالیسی بنائی جائے ۔

ان کی معاشی حالت کو بہتر بنانے کے لئے حکومتی کوٹہ کے مطابق روز گار فراہم کیا جائے۔ عورتوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم عورت فائونڈشن کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر علائوالدین خلجی ، نے بتایا کہ عورتوں کے خلاف تشدد کے ہونے والے واقعات پر جمع کردہ اعداد و شمار پر مشتمل ہے رپورٹ کے اداوشمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ عورتوں کے خلاف تشدد میں خطرناک حد تک اضافہ دیکھنے میں ا رہا ہے جس سے بے شمار عورتوں کی عزت و ناموس متاثر ہو رہی ہے جس سے صنفی امتیاز ، غیر مساویانہ رویوں کے بڑھنے کی نشاندہی ہوتی ہے ،اس رپورٹ کا مقصد بلوچستان میں عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کی نشاندہی کرناہے ۔

جس کا مقصد زیادہ معلوماتی اور مددگار ماحول اور سماجی دبائو پیدا کرنا ہے۔ عورتوں کے خلاف تشدد کے واقعات کے اعداد و شمار مستقبل میں بننے والی پالیسی اور قانونی اصلاحات کے سلسلے میں مرکزی اور صوبائی حکومتوں ، سیاسی جماعتوں اور قانون دانوں کو مصالحتی طریقہ کار ، ترقیاتی پالیسیوں کے فریم ورک اور ادارتی نظام کے تحت عورتوں کے خلاف تشدد کے خاتمہ میں مددگار ثابت ہونگے۔ سال 2020کی رپورٹ کے مطابق پورے بلوچستان میں ہر دوسرے دن ایک عورت قتل یا تشدد کا نشانہ بن جاتی ہے ۔ بلوچستان میں پچھلے نو ماہ کے دوران تشدد کے 69 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔

تقریباً تمام واقعات رپورٹ شدہ ہیں ۔ ان واقعات میں 38خواتین اور 8 مرد قتل ہوئے جس میں سے 14خوتین اور 8مرد غیرت کے نام پر قتل ہوئے ،3عورتوں نے گھریلوحالات سے تنگ آکر خودکشی کی ، 8خواتین پر گھریلو تشددکیا گیا، 6خواتین اغوا ہوئیں جبکہ 6 خواتین کے ساتھ زیادتی کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ اوستہ محمد کی ممتاز سماجی شخصیت نور جہاں میمن نے کہا کہ عورت کبھی حوا ،کبھی مریم، کبھی زھراعورت نے ہر ایک دور میں قوموں کو سنبھالا ہے بلوچستان مین خواتین کی حالت زار بدلنے کے لئے ضروری ہے کہ انہیں سیاسی عمل میں شمولیت کے ساتھ ساتھ سیاسی اور سماجی طور پر با اختیار بنایا جائے۔

اور زندگی کے تمام شعبوں میں نمائندگی دی جائے ۔خواتین کے حقوق کی سب سے بڑی گارنٹی انہیں تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنا ہے ۔ بد قسمتی سے ہمارے ہاں رائج پدرسری نظام کے ساتھ ساتھ قبائلی رسم و رواج کے تحت عورت کو جائیداد کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو اس کے حقوق کے برعکس ہے ۔ عورت کو واقعی طور پر اس کا مقام دینا مقصود ہو تو انہیں سیاسی ، تعلیمی ، انتظامی اور مالی طور پر بااختیار بنانا ہوگا۔ ہم نے آج تک عورت کو انسان ہی نہیں سمجھا اسی لے ہمارے سماج میں عورتوں پر تشدد کے نت نئے طریقے سامنے ارہے ہیں کرونا کے باعث گھریلو تشدد کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے ۔

کرونا کے باعث محنت کش عورت جہاں معاشی طور پر سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے وہاں اسے گھریلو تشدد کا زیادہ سامنا کرنا پڑا ۔ بچیوں کی کم عمری اور جبری شادی کے رجحانات سے بچیوں کی صحت پر خطرنات اثرات مرتب ہورہے ہیں ۔ جب تک رویوں میں تبدیلی نہیں لائی جائے گی اُس وقت تک عورت کااستحصال ہوتا رہے گا۔ عورتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی ملکی سطح کی غیرسرکاری تنظیم شرکت گاہ کراچی کے عاصم صدیقی نے 16روزہ مہم کی سرگرمیوں کو حتمی شکل دینے کے لیے کو ئٹہ پہنچ کرریپڈ ریسپونس نیٹ ورک کی میٹنگ میں شرکت کی میٹنگ میں 16دن کی سرگرمیوں کے پلان کو فاینل کیا گیا میٹنگ نیٹ ورک کے ممبر احمد نواز کے دفتر میں منعقد ہوئی۔

سماجی تنظیم کے سی ای او احمد نواز نے کہا کہ صنفی تشدد کی روک تھام کی 29سالہ مہمات اپنی جگہ مگر بلوچستان میں تشدد کی وجوہات کو کم کرنے کی ضرورت ہے سماج میں بڑھتی ہوئی غربت کی شرح تشدد اور خودکشی کے کیسز میں اضافہ رپورٹ ہو رہا ہے۔چند رو قبل جاری ہونے والی ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں غربت کی شرح خطر ناک حد تک تیزی سے بڑھ رہی ہے۔میری حکومت اور سماجی اداروں سے اپیل ہے کہ سب سے پہلے پاکستان کے سب سے بڑھے صوبے بلوچستان میں بڑھتی بھوک کوکم کرنے کی مشترکہ کوششیں کریں۔بھوک ختم ہو گی تو تشدد کے واقعات میں بھی کمی واقع ہو گی، میں نے پی ٹی وی بولان کے حالات حاضرہ کے لائیو پروگرام میں معاشرے میں صنفی تشدد کی روک تھام کے لیے ہونے والی کوششوں کو اجاگر کرنے کے ساتھ تشدد کی وجوحات کو بھی ہائی لایٹ کیا ہے ۔

پاکستان فیڈریل یونین اف جرنلسٹ کے سینر نائب صدر سلیم شاید نے کہا کہ گزشتہ 29برسوں سے جاری آگاہی مہم بلوچستان کے طول وعرض میں پھیل چکی ہے مگر صنفی تشدد کم ہونے کی بجاے زیادہ رپورٹ ہو رہا ہے۔یہ ایک مانڈ سیٹ ہے جسے بدلنے کے لیے نوزیدہ بچوں کی تربیت پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔عورتوں پر تشدد کرنا تربیت کا نقص ہے۔ یہ مائنڈسیٹ سخت سزاوں کے زریعے کسی حد تک کم کیا جاسکتا ہے۔ اگرآج کی مایں اپنے بچوں کی تربیت پر توجہ دیں تو مستقبل میں صنفی تشدد میں کمی لانا ممکن ہے۔