|

وقتِ اشاعت :   January 1 – 2021

ایک روز قبل میرا کالم شائع ہوا، ارادہ یہ تھا کہ چند دن چھوڑ کر دوسرا کالم لکھوں گا لیکن بلوچستان کے ’’ برننگ ایشوز‘‘ اس قدر ہیں کہ مجھے مجبوراً دوسرے روز قلم اٹھانا پڑا۔ ان ایشوز میں گوادر کو باڑ لگانااور صوبائی حکومت کی جانب سے ایرانی پٹرول کے کاروبار پر پابندی عائد کرتے ہوئے فوری طورپر بیک جنبش قلم احکامات صادر کرنا شامل ہیں، ان دونوں ایشوز پر میں نے ایرانی پٹرول کے کاروبار کی بندش کو اولین ترجیح اور اہم قرار دیتے ہوئے اپنی یہ تحریری لکھ دی کیونکہ یہ ’’ موت سے کھیلنے کا کاروبار ‘‘ کرنے والے ہمارے اپنے بچے جن میںاکثریت طلبا ہیں ۔

جنہوںنے تعلیمی اسناد اس لیے حاصل کیں کہ انہیں صوبائی یا وفاقی ملازمتوں میں ان کے علاقائی اور صوبائی کوٹہ پر ملازمتیں ملیں گی اور وہ معاشرے میں ایک با کردار انسان کے طورپر اپنے والدین اور فیملی کے لئے روٹی روزی کمائیں گے لیکن حقائق اس کے برعکس ثابت ہوئے میں خود اس بات کا گواہ ہوں کہ گزشتہ دس پندرہ سالوں سے یہ باتیں سننے کو ملتی ہیں کہ صوبے میں تئیس پینتیس ہزار آسامیاں خالی ہیں یعنی سرکاری محکموں میں یہ آسامیاں خالی چلی آرہی ہیںکہ جنہیں پر کرنے کا نام نہیں لیا جارہا۔ ہاں دیکھنے میں ضرور آرہا ہے کہ چند ایک آسامیوں کی تشہیر کرکے اس پر ’’مخصوص وزراء صاحبان اور بلوچستان کی بیورو کریسی ‘‘

کے عزیز رشتہ دار ہی تعینات ہوتے چلے آرہے ہیں ان سرکاری محکموں میں آسامیوں کی تشہیر ٹیسٹ و انٹر ویو کی بار بار منسوخی کے اشتہارات کئی مرتبہ میری ان گناہ گارآنکھوں نے دیکھا پھر یہ بھی دیکھا کہ منسوخی کے بعد خفیہ طورپر با اثر افراد کو تقرری کے لیٹر ز جاری ہوئے ۔یہ پریٹکس گزشتہ کئی سالوں سے چلی آرہی ہے ملازتوں کے لئے اشتہارات کی تشہیر پھر ٹیسٹ و انٹر ویو کی تاریخ کی منسوخی کی ’’ ڈرامہ بازیاں ‘‘ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہیں یہی وجہ ہے کہ سفارش نہ رکھنے والے بلوچستان کے نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد ۔

نے ایرانی پٹرول سمگل کرکے فروخت کرنے کے ایک انتہائی پر خطر اور جان پر کھیلنے کے مترادف کاروبار کو اپنے ہاتھ میں لے رکھا ہے یہ نوجوان آپ کو مکران جسے آج کل صوبائی اور وفاقی حکومتیں ایک مخصوص سوچ کے مطابق جنوبی بلوچستان کہلوا رہی ہیں یعنی مکران ڈویژن کے شہروں پنجگور سے لے کر سوراب ‘قلات ‘ مستونگ ‘ ضلع خاران کے شہر ماشکیل سے لے کر نوکنڈی ،دالبندین اور پھر نوشکی تک کے نوجوان اس خطر ناک کاروبار میں جت گئے ہیں ان میں کئی ایک نوجوان آتشزدگی اور روڈ ایکسیڈنٹ کے باعث موت کی آغوش میں چلے گئے ہیں ۔

ان لمحات کا احساس وہ لوگ اور شخصیات کر سکتی ہیں جو ان نوجوانوں کی اور ان کے خاندانوں کے دکھ اور دردکو محسوس کرتے ہوں وہ لوگ اور شخصیات اس درد سے عاری ہوں گے جن کے خاندان کا کوئی فردا س گھناؤنے کاروبار میں شامل نہ ہو کیونکہ یہ یقیناً بااثر شخصیات اور ان کے خاندان کے افراد حکومتی آسائشوں کی وجہ سے دولت کی ریل پیل میں اس قدر محو ہوتے ہیں کہ انہیں اس بات کا اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ ’’ اس گھناؤنے کاروبار ‘‘ سے ان اضلاع کے ہزاروںگھروں کی روٹی روزی وابستہ ہے ۔یقین جانئیے کہ میں نے ان پڑھے لکھے نوجوانوں کو اس یخ بستہ موسم میں موٹر سائیکلوں پر دو تین کنستروں کے ساتھ موٹر سائیکلوں پر سفر کرتے کئی بار دیکھا ہے ایک انسان کی حیثیت سے دل میں ایک ایسی درد محسوس کی ہے کہ جسے میں ان الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا ۔

ہم اپنی جدید لیگژری گاڑیوں میں گرم ہیٹر کے مزے لیتے ہوئے اپنے سفر کو خوشگوار تو بنا لیتے ہیں کبھی ہم نے ان سڑکوں اور پہاڑوں میں بسنے والے’’ خلق خدا‘‘ کی تکالیف کا جائزہ لیا ہے اگر جائزہ لیتے ہوئے تڑپ محسوس کرتے تو ان کے اس کاروبار پر ’’ بیک جنبش قلم ‘‘ قد غن نہ لگاتے۔ اس حکومتی فیصلے کے کس قدر بھیانک نتائج برآمد ہوں گے کبھی اس پر غورکریں کہ مایوس نوجوان کو نسی راہیں اپنائیں گی اس بے روزگاری کا آسیب وہ لوگ محسوس کرسکتے ہیں جنہوں نے خود اس بے روزگار ی کو دیکھا ہو۔

مسئلہ یہ ہے کہ آج کل ہر حکومتی شخص چند دنوں میں ایسے ’’ وی آئی پی ‘ بن جاتا ہے جیسے وہ ازل سے ’’ وی آئی پی ‘‘ چلا آرہا ہو، ان کی باتیں یا ان کے اقدامات سے صرف اور صرف چنگاریاں بھڑک سکتی ہیں اور کوئی خیر کی توقع نہیں کی جا سکتی ،ان تعلیم یافتہ نوجوانوں کو دو وقت کی روٹی کیلئے جو جان جوکھوںکا کام کرنا پڑتا ہے اس کا تصور بھی ہم کریں تو ہماری روحیں کانپ جائیں اس پر طرہ یہ کہ ان کی چیک پوسٹوں پر کس قدر تذلیل کرکے انہیں دھتکارا جاتا ہے یہ دن میں ان سرکاری اہلکاروں کے ہاتھوں کئی بار ’’ جیتے اور مرتے ‘‘ ہیں۔

ان کی گالم گلوچ اور ڈانٹ ڈپٹ سن کر میری آنکھوں کے سامنے لاہور یا کراچی کے ایک نجی ٹی وی کے اخلاق سے عاری اینکر کی وہ بات آج بھی گھوم رہی ہے جس نے سمگل کرنے والے نوجوان سے یہ کہا کہ ’’ تمھیںشرم نہیں آتی کہ پٹرول سمگل کرتے ہوئے ‘‘ اس کے بعد کمنٹ میں بلوچستان بھر سے ان موصوف کو جس قدر گالیاں پڑیں کہ اللہ کہ پناہ ‘اور یہ اینکر ان نوجوان سے یہ پوچھے کہ آپ یہ گھناؤنا کام کیوں کرتے ہوئے تو اسے اس نوجوان سے ضرور معقول جواب ملتا لیکن لاہور اور کراچی کی پر تعیش زندگیاں گزارنے والوں کو بلوچستان کے لوگوں کے دکھ درد کا کیا احساس۔

انہیں تو بلوچستان بارے یا اس کے شہروں کے نام بارے بھی علم نہیں ۔یہ بھی ہم نے ایک ٹی وی پر وگرام میں اپنی آنکھوں سے دیکھا جنہوںنے سروے میں بلوچستان بارے نہ جاننے کا اعتراف کیا حتیٰ کہ انہیں شہروں کے بارے میں علم تک نہ تھا ان کی ہم سے وابستگیاں صرف اور صرف بلوچستان کے وسائل ہیں یہی وجہ ہے کہ آج بلوچستان اپنے معدنی وسائل کی بدولت دنیا بھرمیں تیسرے نمبر پر نمایاں حیثیت تو رکھتا ہے لیکن یہ قیمتی وسائل ان کے سپوتوں کے کام نہیں آرہا بلکہ یوں کہیں کہ ’’ بلوچستان کے وسائل ہی اسکے بڑے دشمن ہیں ’’ تو ہرگز غلط نہیں ہوگا جہاں تک پٹرول کے اس کاروبار کی بندش کی بات ہے ۔

بلوچستان کی تمام سیاسی حلقوں نے اس کی بندش کو خطر ناک اور نا قابل فہم قرار دیا ہے حتیٰ کہ حکومتی سطح پر بھی سابق رکن صوبائی اسمبلی اور حکومتی پارٹی ’’ باپ‘‘ کے نائب صدر میر عبدالکریم نو شیروانی نے پابندی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کی معیشت ایرانی پٹرولیم مصنوعات اور اشیاء پرمنحصر ہے پٹرول کی ترسیل پر پابند ی کا فیصلہ نہ لیا گیا تو رخشان‘ مکران اور قلات ڈویژن میں قومی شاہراہوں کو بند کرکے احتجاج کیا جائے گا۔ وزیراعظم کی ٹیکس پالیسی سے مسائل میں اضافہ ہورہا ہے بلوچستان میں بجلی کی غیر اعلانیہ لوڈشیڈنگ کی وجہ سے زمینداری کا شعبہ تباہ ہوگیا ہے ۔

فیکٹریاں نہ ہونے کی وجہ سے بے روزگاری انتہا کو پہنچ چکی ہے ایرانی پٹرول کے کاروبار سے ہزاروں لوگوں کا روزگا وابستہ ہے اور ان کے گھروں کے چولہے جل رہے ہیں اگر حکومت نے یہ پابندی لاگو کردی تو نوجوان بے روزگاری کے ہاتھوں غلط راہوں پر چل پڑیں گے۔ صوبے میں جرائم میں اضافہ کا خدشہ پیدا ہوگا اور عوام مجبوراً سڑکوں پر نکل آئیں گے جن کو کنٹرول کرنا مشکل ہوگا ۔دوسری طرف حکومتی ترجمان لیاقت شاہوانی صاحب کا بیان بھی ملاحظہ فرمائیں موصوف فرماتے ہیں کہ ایران سے آنے والی پٹرولیم کی اسمگلنگ سے چند افراد مستفید ہورہے ہیں۔

وفاقی حکومت بلوچستان کے چھ فیصد کوٹہ پر عمل درآمد کرائے ،ایرانی پٹرول سمگلنگ پر پابندی کے بعد وفاقی ملازمتیں بہت بڑا سہارا بنیں گی۔ ان کی یہ بات دل کو نہیں لگی کہ وہ اس کاروبار سے منسلک افراد کو ’’ چند افراد ‘‘ بتا رہے ہیں یہ ان کی کم عملی ظاہر کرتی ہے شاید انہوںنے بذریعہ سڑک کوئٹہ تا کراچی کا سفر نہیں کیا ہوگا ورنہ وہ ان بے روزگاروں کی تعداد کا اندازہ لگاسکتے۔ دوسری طرف سے بندش کے بعد وفاقی کوٹہ پر عمل درآمد کی وفاق سے’’ اپیل‘‘ کروں گا کہ حسب معمول ہم بھیک مانگ رہے ہیں کیا ہی یہ اچھا ہوتا کہ صوبائی حکومت ملازمتوں کے کوٹہ پر بحالی اور تعیناتی کے بعد پٹرول سمگل ختم کرنے کا حکم صادر فرماتی تو بات موثر ثابت ہوتی ۔

اب صوبائی ترجمان خود وفاق سے کوٹہ پر عمل درآمد کی اپیل کررہے ہیں یہ کب اور کیسے بحال ہوگا یہ ایک سوالیہ نشان ہے ۔جے یو آئی کے سیکرٹری جنرل مولانا عبدالغفور حیدری اور مولانا فیض محمد نے اپنے بیان میں بلوچستان حکومت کی غیر دانشمندانہ فیصلے کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان کے لوگ اذیت ناک حالات سے دو چار ہیں بلوچستان میں بے روزگاری اور وسائل کی کمی کی وجہ سے عوام پتھر کے زمانے جیسی زندگی بسر کرنے پرمجبور ہیں تو دوسری طرف بلوچستان کے ہزاروں افراد جو بھوک اور افلاس کی آگ بجھانے کی کوشش کے لئے ڈیزل اور پٹرول کے کاروبار سے وابستہ ہیں ۔

جن کی اکثریت تعلیم یافتہ نوجوانوں پر مشتمل ہے با امر مجبوری وہ اس کاروبار سے وابستہ ہیں اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ اختیار صوبوں کے پاس آیا تھا کہ وہ اپنے علاقوں میںملحق بارڈر سے تجارت کا اختیار رکھتے ہیں لیکن بلوچستان حکومت کو اپنے اختیارات کا علم نہیں لہذا بلوچستان کے لوگوں کو اپنے اپنے سرحدی علاقوں سے آزاد نہ تجارت کی سہولت دی جائے جو حالات کا تقاضا بھی ہے ۔انہوںنے بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں اورسماجی تنظیموں کو دعوت دی کہ وہ اس مسئلے پر مشترکہ موقف اپنا کر احتجاج کریں اگر بے روزگار نوجوانوں نے احتجاج کیا ۔

تو جمعیت کے کارکن ان کے ساتھ ہوں گے ۔ایک ٹویٹ میں یہ لکھا گیا ہے کہ چیف سیکرٹری بلوچستان ایرانی تیل کے کارو بار کو بند کرنے کے بجائے جرات کا مظاہرہ کرکے منشیات کے اڈوں کو بند کرنے کا نوٹفکیشن جاری کریں۔ بلوچستان گڈز ٹرک ایسوسی ایشن کے مرکز ی صدر حاجی نور محمد شاہوانی نے بھی وفاقی اور صوبائی حکومت کی جانب سے اس فیصلے کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ فیصلے سے بلوچستان کے ٹرانسپورٹرز اور لاکھوں لوگ بے روزگار ہوجائیں گے اور ان کی مشکلات اور حکومتوں کے مسائل میں مزید اضافہ ہوگا لہذا فوری طورپر یہ احکامات واپس لیے جائیں ۔

نیشنل پارٹی کے مرکزی ڈپٹی سیکرٹری جنرل خیر جان بلوچ نے ایرانی تیل کے کاروبار پر پابندی کو عوام کے سنگین معاشی قتل کے مترادف قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ بلوچستان میں بجلی گیس ہے نہ ہی روزگار کے ذرائع، ایرانی تیل کے کاروبار کو غیر قانونی قراردینے والے پہلے لوگوں کو قانونی روزگار فراہم کریں پھر کسی کو بیروزگار کریں۔ انہوںنے کہا کہ اگر تیل کے کاروبار پر پابندی ختم نہ کی گئی تو لوگ غیر قانونی راستے پر چلنے پر مجبور ہوں گے۔