|

وقتِ اشاعت :   February 6 – 2021

میڈم آج ہم نے دور کے گاؤں جاکر خواتین کو میسر غذائی اجزاء کے بارے میں بتایا ہے اور کچھ بچے کم وزن کے ساتھ ملے تھے جن کو ہم نے غذائی پیکٹس دیئے ہیں، ساتھ کے گاؤں کے 4 بچے اب نارمل وزن تک پہنچ گئے ہیں ضروری ہدایات کے ساتھ ان بچوں کو فارغ کر دیاہے۔

یہ انتہائی پرجوش اندازمیں بتانے والی لال گل تھی جو پنجگور نیوٹریشن پروجیکٹ میں میری اسٹاف ممبر تھی۔انتہائی دکھ کے ساتھ کہنا پڑرہا ہے پچھلے دنوں پنجگور سے کراچی جانے والی کوچ حادثے میں 14 جان بحق ہونے والوں میں لال گل بلوچ اپنی 8 سالہ بیٹی کے ساتھ جان بحق ہوئی، لال گل بہت محنتی سوشل ورکر تھی پنجگور کے لوگ یقیناً اس خلا ء کو محسوس کریں گے۔

کچھ سال پہلے بھی بس حادثے میں 20-25 لوگ زندہ جل گئے تھے، جن کا تعلق پنجگور کے غریب گھرانوں سے تھا۔ا ن بسوں میں سفر کرنے والے 80فیصد سے زائد غریب و مفلوک الحال لوگ ہیں، یہ بسیں زیادہ تر ایرانی تیل و اشیاء کی سمگلنگ کے لیے مسافروں سے کم کرایہ لے کر ان کی آڑ میں استعمال ہوتی ہیں۔

ایرانی تیل کی درآمد کے کوئی قانونی اصول ضوابط نہ ہونے کی وجہ سے اسے خطرناک طریقوں سے مختلف جگہوں تک ترسیل کیا جاتا ہے اس پہ سونے پہ سہاگہ سنگل روڈ پہ لا پرواہ ڈرائیونگ اور ٹریفک قوانین کو نظر انداز کرتے ڈرائیوروں کے بے اصولیوں سے آئے روز قیمتی جانیں گنوا رہے ہیں۔

پنجگور بلوچستان کا وہ ضلع ہے جہاں کا تعلیمی نظام بہتر ہونے کی وجہ سے آج بلوچستان کی بیوروکریسی، میڈیکل غرض ہر ادارے کی انتظامی سیٹوں پہ پنجگور کے ہی لوگ ہونے کے باوجود آج بھی پنجگور کے حالات بد تر ہیں،۔عوام کے لیے نہ کبھی صوبائی حکومت نے سوچا ہے نہ کبھی وفاق کی جانب سے کوئی رحم کیا گیا۔

اعلیٰ عہدیداروں نے پنجگور کے کوٹے کو حق سمجھ کے استعمال کیا لیکن اپنی عوام اور علاقے کی بہبود کے لیے کوئی زحمت گوارا نہیں کی جس کا خمیازہ عورتوں و بچوں کی جلتی لاشیں، چیتھڑوں میں ملنے والے اعضاء ہیں۔