|

وقتِ اشاعت :   February 13 – 2021

تھلیسیمیا یعنی خون کی کمی کی بیماری ایک مہلک مرض ہے۔ تھلیسیمیا مرض کے تین اقسام ہیں۔

1۔ تھلیسیمیا مائنر۔ 2۔ تھلیسیمیا انٹر میڈیا۔ 3۔ تھلیسیمیا میجر۔

تھلیسیمیا مائنر میں مبتلا لوگ نارمل زندگی گزارتے ہیں۔ اگر تھلیسیمیا مائنر نارمل آدمی سے شادی کرے تو ان کے ہاں کوئی بھی تھیلیسیمیا بچہ پیدا نہیں ہوگا۔ تھیلیسیمیا انٹر میڈیا کے مرض میں مبتلا مریض ایک خاص دوائی کے استعمال سے ساری عمر خوشگوار زندگی گزارتے ہیں۔ تھلیسیمیا میجر کے مریضوں کو ساری عمر خون کی ضرورت ہوتی ہے۔ پاکستان میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا مریضوں کی تعداد ایک لاکھ سے زائد ہے۔ ضلع گوادر میں بھی بڑی تعداد میں تھلیسیمیا کے مرض میں مبتلا بچے موجود ہیں لیکن ان کو سرکاری سرپرستی میں علاج و معالجہ کی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں۔

اس صورتحال میں ھوپ فاؤنڈیشن متاثرہ مریضوں کے لئے امید کی کرن بن کر سامنے آئی ہے۔ ھوپ فاؤنڈیشن 1990 سے اس کار خیر میں حصہ لے رہی ہے جو بدستور تھلیسیمیا کے مریضوں کا علاج کرانے میں مدد فراہم کررہا ہے۔

ھوپ فاؤنڈیشن کے قیام کی ضرورت کیسے محسوس کی گئی؟

اس حوالے سے ھوپ فاؤنڈیشن کے بانی رکن یونس حسین جو خود بھی محکمہ صحت کے شعبہ سے وابستہ ہیں وہ کہتے ہیں ” ھوپ فاؤنڈیشن کے قیام سے قبل انہوں نے اپنی مدد آپ کے تحت محدود پیمانے پر تھلیسیمیا کے مریضوں کا علاج شروع کیا جس کے لئے وہ رضاکاروں سے خون لیکر متاثرہ مریضوں کو فراہم کرتے لیکن دھیرے دھیرے یہ کام بڑھتا چلا گیا اور جب مریضوں کو سنبھالنا مشکل ہوگیا تو میں نے اپنے ہم خیال دوستوں کو اس صورتحال سے آگاہ کیا۔باہمی مشاورت کے بعد ھوپ فاؤنڈیشن کے قیام کا خاکہ بنایا گیا اور اس کے بعد یہ ادارہ قائم کیا گیا ۔

جو آج بھی قائم ہے اور تھلیسیمیا کے مریضوں کا مفت علاج کررہی ہے۔ فاونڈیشن کے بانی ارکان میں انور عیسی، عبدالغنی نوازش، ڈاکٹر نذیر بانا، الہی بخش خدابخش، عبدالخالق علی، حمید حاتم، سرفراز محمد, پرویز عبدالرسول، قادر جان اور انور شاہ سمیت دیگر شامل ہیں۔”سرکاری سرپرستی یا معاونت کے بارے مین ان کا کہنا تھا “ھوپ فاونڈیشن ایک رضاکار ادارہ ہے۔ زیادہ تر ہم اپنے بلڈ بنک یا تھلیسیمیا سنٹر کی ضروریات کو پورا کرنے کے لئے اپنی مدد آپ کے تحت کوشاں رہتے ہیں۔ ھوپ فاونڈیشن کے ممبران ماہانہ فیس اداکرتے ہیں۔

اس کے علاوہ صاحب حیثیت لوگوں سے ڈونیشن بھی حاصل کی جاتی ہے۔” حکومت بلوچستان کی طرف سے ھوپ فاؤنڈیشن کو سالانہ دس لاکھ روپے کا گرانٹ مل رہا ہے جو گذشتہ چار سالوں سے جاری ہے جو علاقے کے ایم پی اے میر حمل کلمتی کی کوششوں سے ممکن ہوا ہے۔ سابقہ وزیر اعلی بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کے دور میں تھلیسیمیا سنٹر کو مشینیں بھی فراہم کی گئیں۔ سنٹر اور بلڈ بنک کے لئے ہم ڈی ایچ کیو کی عمارت استعمال کررہے ہیں۔” یونس حسین کے مطابق اس وقت ھوپ فاؤنڈیشن کے تھلیسیمیا سنٹر میں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد 160 ہے۔

روازنہ بیس کے قریب تھلیسیمیا کے شکار بچے سنٹر میں لائے جاتے ہیں جبکہ خون کا عطیہ فراہم کرنے والے رضاکار شہریوں کی تعداد تین ہزار سے اوپر ہے۔ تھلیسیمیا سنٹر میں ہفتہ میں پانچ دن تھلیسیمیا کے مریضوں کو خون لگایا جاتا ہے۔ جمعہ اور اتوار کو سنٹر بند رہتا ہے۔ ماہرین کے مطابق تھلیسیمیا ایک موروثی مرض ہے جو والدین سے بچوں میں منتقل ہوتی ہے۔ اگر ماں باپ دونوں کو تھیلیسیمیا مائنر ہو تو ان کے ملاپ سے جنم لینے والا بچہ تھیلیسیمیا میجر ہوگا۔ اس کے لئے ضروری ہے کہ خاندان کے اندر شادی سے پہلے لڑکا لڑکی کے ٹیسٹ کرائے جائیں ۔

اس طرح تھلیسیمیا کا راستہ روکا جاسکتا ہے۔تھلیسیمیا کا واحد علاج بون میرو ہے جو انتہائی مہنگا اور تکلیف دہ ہے۔ یونس حسین کہتے ہیں مائنر کیرئیر کی تشخیص کے لئے ان کو الیکٹرو فورسز نامی مشین کی ضرورت ہے جو بہت مہنگی ہے۔ ھوپ فاؤنڈیشن اپنے وسائل سے اس مشین کو خرید نہیں سکتی اگر ھوپ فاونڈیشن کو یہ مشین دستیاب ہو تو ایک ہی خاندان کے شادی کے خواہش مند لڑکا لڑکی کے خون کی اسکریننگ کرکے کم سے کم اسی خاندان میں تھلیسیمیا کے مرض کو روکا جاسکتا ہے۔ اس مشین کے ذریعے کسی بھی بچے میں تھلیسیمیا مرض کی تشخیص بھی کی جاسکتی ہے۔”

ھوپ فاؤنڈیشن گوادر کے زیر انتظام چلنے والا تھلیسیمیا سنٹر سول ھسپتال کوئٹہ کے تھلیسیمیا سنٹر کے بعد صوبہ کا دوسرا بڑا فعال سنٹر ہے۔ گوادر کے علاوہ ہمسایہ ضلع سے بھی تھیلیسیمیا کے مریض یہاں کا رخ کرتے ہیں۔ جس کے لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ھوپ فاؤنڈیشن گوادر کو مکمل حکومتی امداد ملنی چاہیئے۔گوادر میں تھیلیسیمیا سنٹر کے لئے الگ عمارت کے قیام کی ضرورت ہے جس سے مریضوں کو زیادہ سے زیادہ علاج و معالجہ کی سہولیات کی فراہمی ممکن بنائی جاسکتی ہے۔ مخیر حضرات سمیت غیر سرکاری تنظیموں کو اس کار خیر میں بھی ھوپ فاؤنڈیشن کا ہاتھ بٹھانا چاہیئے۔ اس مہلک مرض سے بچنے کے لئے سب سے بڑھکر شعور و آگہی کو بھی فروغ دینے کی ضرورت ہے۔