|

وقتِ اشاعت :   April 3 – 2021

برطانوی سامراج کی کھینچی ہوئی متنازعہ لکیر“بلوچستان گولڈ سمڈ لائن”میدان جنگ میں تبدیل ہوگئی۔ مشرقی (پاکستانی بلوچستان) اور مغربی بلوچستان (ایرانی بلوچستان) کو جبراً جدا (تقسیم) کرنے والی“گولڈ سمڈ لائن”کی بندش کی وجہ سے مکران سمیت پورے بلوچستان میں اشیا خورونوش اور تیل کی کمی کا بحران پیدا ہوگیا۔ جس کی وجہ سے عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ پنجگور سے لیکر گوادر تک عوام سراپا احتجاج ہیں۔ پرامن احتجاج پر تشدداحتجاج میں تبدیل ہوگیا۔ لوگوں نے سڑکوں اور شاہراہوں کو بلاک کردیا۔ بات پتھراؤاور جلاؤ گھیراؤ تک آگئی۔

برطانوی سامراج 13 نومبر 1839ء میں خود مختار ریاست بلوچستان پر حملہ آور ہوئی۔”تقسیم کرو اور حکومت کرو“ کی برطانوی نوآبادیاتی پالیسی کے نتیجہ میں بلوچستان کوتین حصوں میں تقسیم کردیا گیا۔ 1871ء میں ایک متنازعہ لکیر گولڈ سمڈ لائن کھینچی گئی جس کے تحت بلوچستان کا مغربی حصہ خاندانِ قاجار(خاندانِ ایران سازِ پہلوی) کو دے دیا گیا۔ 1893ء میں ایک دوسری لکیر، ڈیورنڈ لائن کھینچی گئی۔ اس لائن کے تحت بلوچستان کا شمالی حصہ افغانستان کو دے دیا گیا۔ یہ موت کی لکیریں (سرحدیں) بلوچ قوم کی رضامندی، معاشی مفاد اور سماجی بہبود کے خلاف کھینچی گئیں۔

مغربی بلوچستان میں قاجار سلطنت کی مدت نسبتاً کم عرصہ رہی۔ بیسویں صدی کی پہلی دہائی میں اِس خاندان نے بلوچستان میں اپنا تسلط کھودیا۔ برطانیہ نے 1916 کو مغربی بلوچستان میں بلوچوں کی حکمرانی کو قبول اور تسلیم کرلیا۔ 1928 میں ایرانی فوج نے رضا خان کی قیادت میں ایک مرتبہ پھر حملہ کر کے مغربی بلوچستان پر تسلط جما لیا۔مشرقی بلوچستان میں برطانوی سامراج کے تسلط کے خلاف جدوجہد بلاآخر رنگ لائی۔ جس کے نتیجے میں مشرقی بلوچستان 11 اگست 1947 کو آزاد ہو گیا تھا۔ تاہم یہ آزاد ریاست بھی طاقتور قوتوں کو ہضم نہ ہوسکی۔ اس طرح 27 مارچ 1948 کو بلوچستان کی خود مختار ریاست پر زبردستی قبضہ کر لیا گیا۔

گولڈ سمڈ لائن”کے قیام سے اب تک ہزاروں بلوچ موت کے گھاٹ اتارے گئے۔ ان کا قصور صرف اتنا تھا کہ وہ زندہ رہنے کے لئے اشیا خورونوش اور تیل لارہے تھے۔ اور انہیں سیکیورٹی اداروں کے اہلکاروں نے موت کے گھاٹ اتاردیا۔ یہ لائن ایک خونی لائن بن چکی ہے۔سرحد کے دونوں اطراف میں رہنے والے بلوچوں نے“گولڈ سمڈ لائن”لائن کو کبھی بھی تسلیم نہیں کیا۔ دونوں اطراف میں ایک ہی خاندان کے لوگ آباد ہیں۔ وہ آپس میں تجارت کرتے ہیں۔ اور یہ تجارت تاریخی جغرافیائی کے لحاظ سے آئینی اور قانونی ہے۔

تاہم حکام اس تجارت کو غیرقانونی سمجھتے ہیں۔ جبکہ بلوچوں کا یہ دیرینہ مطالبہ ہے کہ دو طرفہ تجارت کو تسلیم کیا جائے۔ ایک پالیسی مرتب کی جائے تاکہ یہ تجارت ایک میکنزم کے تحت فروغ پا سکے۔“بلوچستان گولڈ سمڈ لائن”959 کلومیٹر طویل ہے۔ یہ مشرقی بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، کیچ، پنجگور اور گوادر سے متصل علاقہ ہے۔ دوسری جانب ایرانی صوبہ سیستان و بلوچستان ہے۔ مشرقی بلوچستان کی سرحدوں کو سیل کرنے کے لئے باڑ لگانے کا کام تقریبا ًمکمل ہوگیا ہے۔ سرحدی علاقوں کے لوگوں کا ذریعہ معاش سرحد پر خورونوش، تیل سمیت دیگرنوعیت کے کاروبار سے وابستہ ہے۔

سیاسی حلقوں نے حکومت کو مشورہ دیا کہ وہ باڑ لگانے سے قبل علاقے میں روزگار کے متبادل ذرائع بنائے۔ان کا کہنا ہے کہ حکومت سب سے پہلے ان علاقوں کو ایک بڑا معاشی پیکج دے۔ اس طرح کی معاشی پابندیاں عوام کو مزید دیوار کے ساتھ لگانے کے مترادف ہوں گی۔ کیونکہ اس کاروبار سے لاکھوں لوگ منسلک ہیں۔اگر ایرانی تیل کے کاروبار کو بند کیا گیا تو یہاں بسنے والے مجبوراً دیگر علاقوں کی طرف نقل مکانی کریں گے۔ کیونکہ پہلے سے یہ معاشی بدحالی اور بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔ تیل کے کاروبار کے علاوہ ان کے پاس دوسرا کوئی روزگار نہیں ہے۔ غریب عوام کو دو وقت کی روٹی کمانے کا موقع دے کر ان کے منہ کا نوالہ نہ چھینا جائے۔

تاہم حکام نے مکران کے سرحدی علاقوں کو سیل کردیا۔ جس کے باعث گوادر میں کنٹانی ھور کی بندش کے خلاف متاثرین نے ڈپٹی کمشنر آفس کا گھیراؤ کیا۔ اور احتجاجی کیمپ بھی قائم کردیا گیا۔ دھرنا شرکاء کے مطابق کنٹانی ھور کی بندش سے ہزاروں لوگوں کا روزگار متاثر ہو رہا ہے۔ روزگار پرقدغن اورپابندی سے ہر طبقہ متاثرہوگا۔ مظاہرین کا کہنا ہے کہ کنٹانی ھور میں روزگار کرنیوالے تمام افراد مقامی ہیں، کاروبار کی اجازت دے کر ہزاروں لوگوں کی معاشی پابندی کا خاتمہ کیا جائے۔حکومت کو چاہیے کہ بارڈر کی بندش کا فیصلہ واپس لیتے ہوئے یہاں کے لوگوں کو دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے تنگ نہ کریں۔

دریں اثناء پنجگور میں بھی دھرنا اور پہیہ جام ہڑتال کی گئی۔ایران بارڈر بندش پر تیل کے کاروبار سے منسلک چھوٹی گاڑیوں کے مالکان اور ڈرائیوروں نے سی پیک روٹ پر حاجی یاسین مارکیٹ کے قریب دھرنا دے کر ٹریفک کو معطل کردیا۔ ان کا کہنا تھا کہ بارڈر پرٹوکن سسٹم پرعملدرآمد نہیں کیا جارہا، سرحدی علاقے کے لوگوں کو ایران سے کاروبار کی اجازت دی جائے، بارڈرز پر ان کو تنگ کرنا بند کرکے مشرقی بارڈر کی طرح مغربی بارڈر کے لوگوں کو بھی باعزت طریقے سے کاروبار کی اجازت دی جائے۔ ایک طرف بارڈر پر لوگوں کو تنگ کرکے ان کی تذلیل کی جارہی ہے دوسری جانب چوری اور ڈکیتی کی وارداتوں سے گاڑی مالکان پریشان ہیں۔ بارڈر کو کاروبار کے لیے کھول کر کاروباری لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے اور ٹوکن سسٹم میں بے قاعدگیوں کا نوٹس لیا جائے۔

معاشی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ بلوچستان کے ایران سے متصل اضلاع میں نہ صنعتیں ہیں اور نہ زراعت، جس سے لوگوں کا روزگار وابستہ ہو۔ یہاں پر کاروبار کا واحد ذریعہ صرف ایرانی اشیا ء اور تیل ہے۔ اگر اس کاروبار کو بندکیاگیا تو ان علاقوں میں امن و امان کا مسئلہ مزید خراب ہوجائیگا۔جب انسان کی پیٹ پر لات ماری جاتی ہے تو انسان کچھ بھی کرسکتا ہے۔ اگر وہ اعصابی طور پر کمزور ہوتا ہے تو وہ خودکشی کرلیتا ہے۔ جب وہ سیاسی طور پر پختہ اعصاب کا مالک ہوتا ہے۔ تو وہ بغاوت کرنے پرمجبورہوجاتاہے۔ لہٰذا حکمرانوں کو انسانی کیفیت کے مطابق بلوچستان میں مثبت پالیسی مرتب کرنے کی اشد ضرورت ہے وگرنہ ایمسرجنسی کو مزید تقویت مل سکتی ہے۔